(Last Updated On: )
’ گیارہ جنوری 1978 کی ایک سرد شام جب ٹورقئے اور ایکزیٹر کے جنگل برف کی سفید چھت میں دفن تھے لندن کے ایٹکنسن مورلے اسپتال کی گھڑیوں میں چھ بج کر دس منٹ ہوئے تھے جب انشاؔ جی نے رخت سفر باندھا‘ گئےدنوں کاذکرہے ہمارا جب کبھی گرومندرکےآدمجی کالج سےبورڈ آفس جاناہوتاتونارتھ ناظم آباد کےراستےمیں 4G بس کی کھڑکی سےپاپوش نگرکاقبرستان نظرآتاتھا
وہاں بیرونی دیوارپرایک تحریریہ بتاتی تھی کہ ابن انشاؔکےایک جواں سال بھانجےکامدفن اسی قبرستان میں ہے
وہ غالباً خواتین ڈائجسٹ کے ایڈیٹرتھے
تب ہمیں نہیں پتہ تھاکہ انشاؔ جی بھی یہیں آسودۂ خاک ہیں
تب ہمیں نہیں پتہ تھاکہ انشاؔ جی بھی یہیں آسودۂ خاک ہیں
وہی انشاؔ جی جن کے بارے میں یوسفیؔ نے کہاتھا
بچھوکاکاٹاروتاہے، سانپ کاکاٹاسوتاہے، انشا جی کاکاٹاسوتےمیں مسکراتا بھی ہے
اردو کی آخری کتاب والے انشاؔ جی جن کوخدشہ تھاکہ کہیں یہ کتاب ان طالبعلموں کے خون ناحق کا باعث نہ بن جائے
’جن سے آج بھی ملکہ نورجہاں کےحالات پوچھے جائیں توملکہ ترنم نورجہاں کےحالات بتاتےہیں‘
’جن سے آج بھی ملکہ نورجہاں کےحالات پوچھے جائیں توملکہ ترنم نورجہاں کےحالات بتاتےہیں‘
ابھی جب کہ ابن انشاؔ ابن انشاؔ نہیں بنا تھا ان دنوں کی بابت ممتازمفتی نے الکھ نگری میں لکھاہے
ایک ٹیٹھ پینڈو، چہرہ یوں ڈھیلاجیسےچارپائی کی ادواین اتری ہو مسکراہٹ میں بے بسی میں احمد بشیرسےپوچھتا یاریہ کیاشے ہے
یہ ابن انشاؔ ہے، وہ جواب دیتا
ابن انشاؔ ___ نہیں یاراس کانام توخیردین ہوناچاہیے
اورپھریہی ’خیردین‘ جب کھٹ مٹھا چلبلا ابن انشاؔ بنا تو ایک مکتوب میں مفتی جی کو لکھا
میں آپکی تحریروں کامداح ہوں،نفس مضمون میں خواہ کتنی ہی خرافات کیوں نہ بھری ہوں آپ کےلکھنےکاانداز بہت دلنشیں ہوتا ہے. میں ایک دو روز میں اسلام آبادآرہاہوں. چونکہ میری ذات محتاج تعارف نہیں آپ معلوم کرکےکہ میں کہاں ٹھہراہوں مجھ سےملیے
مفتی کےنام ایک اورخط میں لکھتےہیں
احمدبشیرکاحال سخت خراب ہے،اس کی تنخواہ بندہےاوروہ چیز بھی جوتنخواہ کےساتھ بند ہوجایاکرتی ہے وہی احمد بشیر جن کی سنگت میں ابن انشاؔ کا ’چاند‘ سے عشق پروان چڑھا اور بات دلفریبیوں اور اٹھکیلیوں سے بڑھتی بڑھتی خودکشی کی طرف جا نکلی
وہ جو تیراداغ غلامی ماتھے پر لیے پھرتا ہے
اس کانام توانشاؔ ٹھہراناحق کوبدنام ہےچاند
جمال نے سادگی سے پوچھا زہرکہاں ہے
یہ رہا میرے ہاتھ میں اورمرناکہاں ہے
گھرہی میں ٹھیک رہے گا
وہ گرومندرکےقریب پہنچ چکےتھے اورانہیں مارٹن کوارٹرزکی طرف جاناتھاجہاں بیدل رہتاتھا
زندگی مجھے پسندتھی، بیدل نےکہا، افسوس کہ اتنی مختصرنکلی
جمال اداس ہوگیا، اس نے کہا، کاش وہ حرامزادی ہمیں کبھی ملی نہ ہوتی
ایسامت کہو، بیدل نے تڑپ کر کہا
اردوکی آخری کتاب سےہمیں انشاؔجی کی چاٹ لگی اورسچ بتائیں تو غلام علی نےہمیں جوگ بجوگ کی شاعری کی ڈگرپر ڈال دیا
کیڈٹ کالج کی چھٹیاں تھیں اورگھرکولوٹتی ایک فارغ البالی کی کسلمندی جب پی ٹی وی صبح کی نشریات میں غلام علی کی کچھ بندشوں کوٹٹولتی آواز کان میں پڑی
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں
ویڈیو لنک
ویڈیو لنک
’ایک کنکناتےکراچوی جاڑے‘کی حسیِن صبح جھوٹی باتوں کی تکرارکچھ دل میں کھب سی گئی
یہ سچ ہےکہ انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو سے بھی پہلے یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں سے ہم انشاؔ نام کے اک دیوانے کے اسیرہوئے
14 جنوری 1978 کو جنگ اخبار کراچی نے ایک خبرلگائی کہ لندن سے کراچی آنے والی فلائٹ پی کے 782 میں مسافروں کےساتھ ابن انشأ کا جسد خاکی بھی وطن لوٹ رہا تھا
طیارےکےپی اےسسٹم پراستاد امانت علی خان کی آوازمیں ’انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو‘ کئ بار سنوائی گئی
لکھنے والے نے لکھا کہ جہاز میں انشاؔ جی کےسفر آخرت کےہمسفر ہچکیوں کے ساتھ روتےآئے
؎ شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا
ویڈیو لنک
ویڈیو لنک
جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ انشاؔ جی کےساتھ گئی
چل خسرو گھرآپنےسانجھ بھئ چودیس
ان کےجانےکےبعدقتیل شفائی نےجواب آں غزل کچھ لازوال شعرلکھےاورسلمان علوی نےان کا خوب حق اداکیا
؎ یہ شہر تمہارا اپنا ہےاسےچھوڑ نہ جاؤ انشأ جی
جانے کیا طلسم دھراہےاس پارکہ جانے والے پھرلوٹ کرنہیں آتے
ویڈیو لنک
ویڈیو لنک
13جنوری کی شام انشاؔ جی کوپاپوش نگرمیں سپردخاک کردیاگیا
بقول ڈاکٹرریاض احمدریاض لوگ ابھی مرحوم کی قبرپرپھول رکھ رہےتھےکہ تیسری کاچاندقبرستان کےمغربی گوشےسے نمودارہوااوراپنی اداس کرنیں شہرخموشاں پربکھیردیں
؎ چاندبھی صورت کتاں صدچاک
چاندنی بھی فسردہ وغمناک
جی میں آتی ہےلوٹیےسرخاک
کہنےوالےکہتےہیں اپنی والدہ کےپہلومیں لیٹےابن انشاؔ کی اپنی قبرکتبے سے بے نیاز ہے
ہم اس کی تصدیق نہیں کرسکتے کہ پاپوش نگرکےقبرستان میں ابن انشاؔ اور امجد صابری کے مدفن پردعا کرنا ہم پہ ابھی تک ادھارہے۔