سکردو کی دلربا وادی میں سردیوں کا راج تھا۔ ایک کمرے کے گیسٹ روم میں دن کو لیپ ٹاپ پرعالم لوہارکی آواز گونجا کرتی اور رات کو مرغابی کے پروں والے سیاچن مارکہ سلیپنگ بیگ میں قریباً اکڑوں لیٹے دل اور مثانے کو سو طرح سے بہلاتا سونے کی جدوجہد کرتا افسر سلیپنگ بیگ کے جس حصےسے جسم متصل ہوتا بس وہی گرم ہوتا
سوتےمیں بے اختیار کروٹ بدلنےسے اتصالی حرارت یکایک تبدیل ہوتی توپٹ سے آنکھ کھل جاتی
ایسے میں خالد ندیم جیسے یارطرحدارکا ساتھ سو نعمتوں کی ایک نعمت تھا
وہ جب جب آتے عالم لوہارکے سُر اونچے اورلے تیز ہو جاتی
اک پل بہہ جانا
چن میریا
اک پل بہہ جانا
کچھ مہینے پہلے جب ہم شنگریلا ریزارٹ کے کیفے میں جسے پی آئی اے کے ایک پرانے چھوٹے جہازکےڈھانچے میں کچھ ردوبدل کرکے بنایا گیا تھا کافی پی رہے تھے تو خالدنے کہاتھا ایہہ پہلے اینہاں دا ہنی مون سویٹ ہوندا سی
فیر بدل کیوں دتّا، میں پچھیا
لوکاں نو ں شکایت سی کہ کھڑکدابہت اے
اورسکردو کی جنت نظیروادی میں ایک لاہوری جگت ایک پائیداردوستی کی بنیاد بن گئی۔ خیر اس کی داغ بیل تو پہلے ہی ڈل چکی تھی
افسران دنوں سیاچن کی بلندیوں سے اتارکرایک تدریسی ذمہ داری پر گمبہ کے بیٹل سکول کے حوالے کیا گیا تھا۔ انہی دنوں ایم بی اے کی پڑھائی بھی چل رہی تھی ایک دن بیلنس شیٹ سمجھنےخالد کے پاس چلا آیا جوایک نجی بنک کی سکردو برانچ کےمینیجرتھے
کچھ مسکراتےاور کچھ کچھ کھسیانی ہنسی ہنستےانہوں نےہمیں اپنےایک اکاؤنٹنٹ کےحوالے کیا کہ عمران صاحب ساڈےویلےبنک مینیجراں دےنصاب وچ بیلنس شیٹ نئیں سی ہوندی
ایک ماہتڑ کی دوسرے ماہتڑ کے ساتھ دوستی پکی ہوگئی
اس دوستی نے شنگریلاکی بہت سی شامیں رنگین کرنی تھیں
کچورا کے پہاڑوں پرسورج ڈھلتے ویرانوں میں آتشی گلابی رنگ کی محبت میں گرفتارہونا تھا
اور اس راستے کا مسافرہوناتھا جو سکردو کی وادی سے نکل کر یوگو سے ہوتا ہوا خپلو جاتاہے کہ آغازِبہارمیں اللہ رکھی نے خپلو واپس آنا تھا
کہانی آگے چلتی ہے
تو ہوتا کچھ یوں ہے
’سکردو سے اسلام آباد کی پرواز تھی ۔۔۔‘
ہمارے جن پڑھنے والوں کی دلچسپی ابھی تک برقرارہے وہ اس کہانی کو مانی جنکشن کے اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں
“