یہ جھونپڑی دیکھی آپ نے…
لاہور کے چوبرجی چوک میں تھانے کے عین سامنے، اورنج ٹرین کے ٹریک کے نیچے یہ جھونپڑی ہم سب کیلئے باعث شرم ہے.
یہ جھونپڑی کئی ماہ سے سب کے سامنے ہے. اس دوران حکومتیں بدل گئیں، موسم بدلنے والے ہیں. سڑک کے دونوں طرف کی ٹریفک کے شور، سخت گرمی اور طوفانی بارش میں بھی یہ جھونپڑی یہیں کی یہیں رہی.
پولیس والے ہر ایک کو مشکوک سمجھتے ہیں، قریب ہی ناکہ لگائے ویگنیں روک کر مسافروں کے چہروں پر ٹارچ کی روشنی ڈال کر چیک کر رہے ہوتے ہیں، پتہ نہیں انہوں نےتھانے کے گیٹ کے عین سامنے اس جھونپڑی میں رہنے والی عورت سے بھی کچھ پوچھا یا نہیں.
یہ عورت جوان نہیں تو بوڑھی بھی نہیں. اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کتنے ہی لچے بدمعاش اس کی جھونپڑی میں گھسنے کی کوشش کرتے ہوں گے.
میں نے ایک سینئر صحافی خاتون سے کہا کہ وہ اس سے مل کر خبر بنائے کہ بیچاری پر کیا بپتا پڑی ہے. اس نے جواب دیا… ملک صاحب، آپ کو نہیں پتہ، عجیب معاملات ہوتے ہیں ، بعد میں کون عدالتوں میں پیشیاں بھگتتا پھرے.
میں نے روز اسی راستے سے گزرنا ہوتا ہے… ایک دن وہ جھونپڑی سے نکل کر باہر کھڑی تھی، نظر پڑی تو حیرت کی انتہا نہ رہی. دوتین سال پہلے تو جب چوپال، الحمرا ادبی بیٹھک یا کہیں بھی کسی ادبی تقریب میں جانا ہوتا یہ خاتون بھی نظر آتی تھی. روبینہ خان یارخسانہ خان خود شاعرہ تھی یا نہیں، یہ معلوم نہیں. لیکن وہ جن شاعروں، ادیبوں کے کبھی سامنے، کبھی پیچھے، کبھی دائیں، کبھی بائیں بیٹھتی ہوگی، ان میں سے کسی نے اسے اس چوک میں نہیں دیکھا؟
میں نے کچھ کو فون کرکے پوچھا، انہوں نے تصدیق کی کہ یہ وہی ہے اور انہیں پتہ ہے… لیکن بے سہارا لوگوں کے کسی ادارے میں داخل کرانے کیلئے خونی رشتہ دار کی اجازت کی ضرورت ہے. یا پھر عدالتی حکم کی. سوال ہے کہ ایسا مسئلہ تو ان کا ہوتا ہے جن کا کوئی خونی رشتہ دار ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہی نہیں.
یوں تو شاعروں ادیبوں کا یہ تکیہ کلام ہوتا ہے کہ ہم تو حساس لوگ ہوتے ہیں، لیکن ان کی صف سے اٹھ کر ایک عورت ذات چوراہے پر بے یار و مددگار بیٹھی ہے تو ان کی کوئی حس کیوں کام نہیں کررہی؟ ادیب شاعر خود بھی بڑے بڑے عہدوں پر ہیں، اعلی' افسر ان کے مداح بھی ہیں، وہ طے کرلیں تو ضرور کچھ کرسکتے ہیں.
حلقہ ارباب ذوق کی رکن خواتین، خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے کی دعویدار تنظیموں کی ارکان، محکمہ سماجی بہبود وترقی خواتین کے حکام، لیڈی پولیس، وکیل خواتین معلوم تو کریں کہ پنجاب کے دارالحکومت میں ایک عورت اتنے عرصے سےسڑک پر کیوں بیٹھی ہے. پھر اسے rehabilitate کرنے کا انتظام بھی کیا جائے. آخر لوگ بالخصوص ورکنگ خواتین والے گھرانے ہزاروں روپے دے کر کسی عورت کو گھر میں کئیر ٹیکر بھی تو رکھتے ہیں!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“