اس وقت دنیا کا ایک بڑا حصّہ کورونا سے جنگ جیتنے کی تیاری میں ہے . ہندوستان واحد ملک ہے جو کورونا بھول کر مسلمانوں کے خلاف اب آخری جنگ کی تیاری میں ہے . ممکن ہے ، لاک داؤن کے درمیان ہی یہ فیصلہ لیا جائے کہ اب مسلمانوں کو اس سر زمین پر برداشت کرنا مشکل ہے . کویی اشارہ ہو جائے . اور تبلیغی جماعت کے خلاف کھڑے لوگ سیدھے مسلمانوں پر منصوبہ بند طریقے سے حملہ کرنا شروع کر دیں . فیس بک ، ٹویٹر سے لے کر سوشل ویب سائٹ تک مسلمانوں کے خلاف اور اسلام کے خلاف تمام مورچے کھول دے گئے ہیں . کیا ہم یہ پوچھنے کی طاقت رکھتے ہیں کہ اس ملک میں کتنے منادر ہیں ، کتنے دھام ، کتنے آشرم ؟ اور چاروں دھام سے آشرم تک کیا ہر جگہ سناٹا ہے ؟ ویرانی ہے ؟ کہ تمہاری تمام زہر افشانی کا سبب تبلیغی جماعت اور مسلمان بن گئے ہیں ؟ آھستہ آھستہ فاشسٹ تنظیمیں ان لوگوں کا ساتھ بھی حاصل کر رہی ہیں جو کبھی مسلمانوں کی حمایت کیا کرتے تھے . اب کتنے لوگ حمایت کرنے والے ہیں ؟ کیا ایک فی صد کی حمایت بھی مسلمانوں کو حاصل ہے ؟ مسلمان ، اب اس نام سے نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی خوف کھانے لگی ہیں . کیا کانگریس ، کیجریوال ، اکھلیش ، تیجسوی یادو ، ممتا بنرجی اور مغربی بنگال کے لال سلام والے اس حقیقت سے واقف نہیں تھے کہ اچانک لاک ڈاون کے بعد تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کہاں جاتے ؟ اب یہ معصوم چہرے دنگایی ہیں ، قاتل ہیں ، فرقہ پرست ہیں ، ہندوستان سے لے کر باہر کے ممالک تک وائرس پھیلانے والے مجرم ہیں . اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان کی بڑی اکثریت ان سے نفرت کے لئے مجبور کر دی گیی ہے .یہ نفرت صرف تبلیغیوں کے لئے نہیں ہے .ہندوستان کے ٢٥ کروڑ سے زاید مسلمانوں کے لئے بھی ہے . اور یہ سوال تو ہے کہ ہم کہاں جاہیں گے ؟ کیا کریں گے ؟ ہمارے پاس نہ میڈیا نہ چینل نہ کویی سیاسی پارٹی ، نہ ہی سیکولرزم کا ڈھیندھوڑا پیٹنے والی اور مسلمانوں کا سیاسی استعمال کرنے والی پارٹیاں . ہم کہہ سکتے ہیں ، اس وقت مسلمان لاچار ہیں ، بے بس ہیں ، تیسرے درجے کے شہری ہیں اور تماش بین ہیں . مگر تماش بین بن کر مسلمان کب تک رہینگے؟
وقت بدل گیا . ٢٠٠٢ میں میڈیا گجرات حکومت کے خلاف تھی . ٢٠١٤ تک یہ بات میڈیا کی سمجھ میں بھی آ چکی تھی کہ مودی آہیں گے .ہندوستان بدلے گا اور انہیں بھی بدلنا ہوگا . مودی بھی سمجھ رہے تھے کہ پہلے تخت پر بیٹھنا ہوگا .پھر میڈیا کو ہاتھ میں لینا ہوگا . تخت کیسے حاصل ہو ، یہ حساب صاف تھا . پچیس کروڑ مسلمانوں کو الگ کرو اور سو کروڑ کا ووٹ حاصل کرو . مودی نے ٹوپی نہیں پہنی .یہ علامت کام کر گیی . ہندو راشٹر کی تعمیر کے لئے مودی کا سکہ چل گیا . پانچ برسوں میں گجرات جیسا تجربہ آسان نہیں تھا . اسکے لئے سیاست کی دوسری اننگ کی ضرورت تھی . دوسری اننگ کی شروعات ہوتے ہی گجرات ماڈل پوری طرح سامنے آ گیا .میڈیا کو خرید لیا گیا . زہر کی کھیتی ہونے لگی .ہندوستان سلگنے لگا . فسادات بڑھنے لگے . جمہوریت اور آیین کو خطرہ پیدا ہونے لگا .پھر سیاہ قانون آیا تو لوگوں کی آنکھیں کھلیں .نوجوان سڑکوں پر آ گئے . جے این یو ، جامعہ اور شاہین باغ کی تحریک نے مودی کو ہلا دیا . حکومت نے پولیس کو لگایا . فائرنگ کرایی مگر اس کے باوجود تحریک میں شامل افراد تشدد سے دور رہے . اس وقت اپنی تقریر میں مودی نے صاف طور پر اشارہ کیا کہ اگر انکا تجربہ ناکام رہا تو ہندو راشٹر نہیں بنے گا . شاہین باغ پریوگ کامیاب رہا تو پرانا ہندوستان واپس آ جائے . کورونا نے حکومت کو تبلیغی جماعت کا تحفہ دیا اور حکومت ہارتے ہارتے فتح کے قریب پھچ گیی .
رحمتوں اور برکتوں والے خدا ، یہ زمین تنگ کی جا رہی ہے . یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے ، جنہیں تو نے بخشا تھا زیب خدایی ، آج لہولہان ہو رہے ہیں . ذلیل کیے جا رہے ہیں .
کیا وہ دن دور ہے جب ہم زندگی سے کاٹ دیے جاییں گے . روزگار سے ہوٹل ، پرائیویٹ سیکٹر ہر جگہ ہمارے لئے دروازے بند ہوں گے .چھ برسوں میں ہونے والے کچھ اور حادثوں پر نظر ڈالیں . پیزا ڈیلیور کرنے والے لڑکے نے مسلمان گھر میں ڈلیوری دینے سے منع کیا . ایک کیب والے نے مسلمان پسنجر راستے میں اتار دیا کہ وہ مسلمان سواری نہیں لے گا . ایک ڈاکٹر نے مسلمان مریض کو دیکھنے سے انکار کر دیا ..غور کیجئے اگر اکثریتی فرقہ تجارت میں بھی تفریق کرنے لگے اور ایسے اعلانات لگاتار سوشل ویب سائٹ پر آ رہے ہیں کہ مسلمانوں سے فاصلہ رکھا جائے ، تو آنے والے دنوں میں صورت حال کیا ہوگی . اگر مسلم بچوں کے ساتھ اسکول اور کالج میں بھی یہی طریقہ رائج ہو تو آپ کیا کریں گے ؟ شہریت ترمیمی قانون کی آنچ مسلمانوں کے روزگار پر بھی اے گی اور ملازمت پر بھی . پرائیوٹ سیکٹر میں اس کی شروعات ہو چکی ہے . اگر بینک دیوالیہ ہو جاتے ہیں ، اور جیسا پہلے بھی کہا جا چکا کہ اس صورت میں بینکوں کو کلائنٹ کا پیسا استعمال کرنے کی چھوٹ ہوگی . اگر ایسا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ شکار مسلمان ہونگے . جب آپ دوسرے درجے کے شہری ہو جاتے ہیں ، تو آپ کے ساتھ کویی بھی سلوک کیا جا سکتا ہے . ایک بات اور ، جس کا خدشہ ہے . حکومت ان معاملات میں بے شرم اور بے حس ہونا چاہتی ہے . جب مخالفت کی آواز کمزور ہو جائے گی تو یہ بے حسی مسلمانوں کے خلاف اور کیا قانون لاے گی یا استحصال کے لئے کون سا پیمانہ اپناے گی ، یہ ابھی تو نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ تمام راستے مسلمانوں کی قبر سے ہو کر جاتے ہیں.
ہمارے پاس کیا ہے ؟ کچھ نہیں .جو اخبارات ہیں وہ زیادہ تر کارپوریٹ سیکٹر کا حصّہ ہیں . جو پرائیویٹ اخبارات ہیں ، وہ کسی طرح شایع ہو رہے ہیں .آزادی کے بعد ہم نے سوچا ہی نہیں کہ ہمارے پاس اپنا بھی چینل ہو . ہمارے پاس معیاری اخبارات ہوں . جو خبریں پوشیدہ رکھی جاتی ہیں ، ہم انہیں دکھا سکیں . میں نے دس برس صرف اس امید میں گزارے کہ ہمارے پاس اپنا چینل ہو . کیا حیدراباد ، بنگلور ، عظیم پریم جی ، جیسے لوگ اور نواب ، رئیس ، دولتمند ہمارے پاس نہیں ہیں ؟ میں نے پروجیکٹ رپورٹ تیار کیا . ہزاروں افراد سے ملا مگر ناکام رہا . میرے پاس الکٹرانک میڈیا کا پینتیس برسوں کا تجربہ ہے . پھر مجھے خیال آیا کہ منصف اور سیاست والوں کا بھی اپنا چینل ہے لیکن کون دیکھتا ہے ؟ کتنے لوگوں تک رسایی ہوتی ہے . ہم ابھی بھی بے خبر ہیں کہ ہمارے ساتھ آئندہ دنوں میں کیا کچھ ہو سکتا ہے اور اس کے لئے ہمارے پاس بہترین میڈیا کا ہونا ضروری ہے . حکومت بہت خاموشی سے کورونا کے بہانے تھالی بجایے ، اندھیرے میں دیے جلائیے جیسے پروگراموں کے تحت اپنے ریتی رواج ہم پر تھوپنے کی کوشش کر رہی ہے .کیا ہم اپنی شکست تسلیم کر لیں ؟
ہم اس مقام پر ہیں جہاں تاریکی کے سوا کچھ بھی نہیں . حالات اس حد تک بد تر ہو سکتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں گونگی ، بہری اور غلام پیدا ہونگیں . ایک راستہ ممبئی اردو سے بھی ہو کر جاتا ہے . یہ ایک سنجیدہ ، معیاری اور ایسا اخبار ہے جسے آرام سے انگریزی اخباروں کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے . پھر یہ اخبار اسی نام سے ١٥ یا ریاستوں سے کیوں نہ شروع ہو .پہلا راستہ دلی سے ہو کر گزرتا ہے . صرف تین یا چار صفحے دلی میں تیار ہوں . باقی ممبئی سے لئے جاییں .پھر اسکی اشاعت لکھنؤ ، پٹنہ ، حیدرآباد اور کولکوتہ سے ہو .اور یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ آگے یہ سفر نیوز چینل تک پہچے . اور اسی برس پہچے . گروپ ایڈیٹر کی ذمہ داری جناب شکل رشید کے ہی زمہ ہو . یہ بھی غور کیا جائے کہ دلی اور دوسری ریاستوں سے نکالنے میں جو سرمایا خرچ ہو اس کے لئے قوم کے بڑے لوگوں سے بات کی جائے .ہدف سمجھایا جائے . مجھے الکٹرانک میڈیا کا ٣٥ برسوں کا تجربہ ہے . یہ کام بڑے پیمانے پر ہو سکتا ہے . صرف کوشش کرنے کی دیر ہے .ممکن ہے اس کوشش کے بعد کچھ اور اچھے اخبارات یا اچھے چینل بھی سامنے آ جائیں .
سوال یہی ہے کہ ہم کیسے جنگ کریں .ہمارے پاس ہتھیار نہیں .میڈیا سے بڑا ہتھیار دوسرا نہیں . عظیم پریم جی جب پچاس ہزار کروڑ کورونا کے لئے نکال سکتے ہیں تو کیا الامین یا شاہین ، یا اردو کے بڑے ادارے ، تنظیمیں ، مسلم انڈسٹریلسٹ ساتھ نہیں دیں گے ؟ اس کے لئے ہمارے پاس اغراض و مقاصد کے ساتھ پروجیکٹ رپورٹ کی بھی ضرورت پڑے گی . اب ہمیں مضبوط ہونے کی ضرورت ہے . جو دو چار اردو چینل ہمارے سامنے ہیں ، انہیں کویی نہیں دیکھتا . اسکی وجہ زبان بھی ہے . اسکی وجہ اچھے اسکرپٹ اور پریزنٹیشن کی کمی ہے . اس لئے عمدہ میری اخبارات کے ساتھ ہمیں میڈیا چینلس کی طرف بھی قدم بڑھانا ہوگا . میں ہر قدم ساتھ چلنے کو تیار ہوں .
ہم بیحد برے موسموں کا شکار ہیں . اور ہمیں اس صورت حال میں مضبوط میڈیا کی ضرورت ہے . اگر ہم کرنا چاہیں تو یہ کویی مشکل کام نہیں .