پاکستان میں اچھا، ایماندار، نیک اورمخلص ہونے کے لئے غریب ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ غریب نہیں تو اس کا مطلب ہے آپ ظالم، لالچی، بے ایمان اور پکے دوزخی ہیں۔ اپنی تنخواہ سے سیب خرید کر کھانے والا کمینہ کہلاتاہے اور ریڑھی سے سیب چرا کر بھاگنے والا مجبور۔ ایسے مجبور آپ کو ہر ٹریفک سگنل پر جابجا نظر آتے ہیں۔ یہ لاچار شکلیں بنا کر آپ کی گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹاتے ہیں اور محض دس روپے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ظاہری بات ہے جو بندہ غریب کو دس روپے بھی نہ دے سکے اس سے زیادہ پتھر دل کون ہو سکتا ہے۔ تاہم یاد رہے کہ آپ صرف ایک غریب کو دس روپے دیکر اپنی بخشش نہیں کروا سکتے، آپکو روزانہ اپنی گاڑی کے ڈیش بورڈ میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ روپے بطور خیرات رکھنے چاہئیں تاکہ راستے میں آنے والے ہر فقیر کی مدد کرکے دُنیا و آخرت میں اعلیٰ مقام حاصل کریں۔ غریب کو کام کرنے کا مشورہ دینے والا بھی انتہائی سنگدل شخص ہوتا ہے، خود سوچیں، ایک بندہ غریب ہے، اسکے چھ بچے ہیں، گھر میں روز فاقے ہوتے ہیں‘ پہننے کیلئے کوئی ڈھنگ کا کپڑا نہیں اور آپ اسے کام کاج کرنے کا کہہ رہے ہیں، کیا یہ سفاکی نہیں؟
غریب کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ اسے کم ازکم پانچ مرلے کا ایک ڈبل اسٹوری گھر کرخرید دیں، ڈیڑھ ٹن کا اے سی لگوا کر دیں، فریج‘ ٹی وی اورفرنیچر بھی لے دیں، ہر مہینے باقاعدگی سے راشن کا انتظام کریں اور اس کی بجلی کا بل بھی خود ادا کریں۔ یقیناً غریب کی زندگی میں بھی خوشیاں بھر جائیں گی اور وہ اطمینان سے آپ کو دعائیں دیتا ہوا لمبی تان کر سو جائے گا۔ غریب ہر لحاظ سے سچا ہوتاہے‘ اگر وہ غلط رخ پر سائیکل چلاتا ہوا آپ کی گاڑی سے ٹکرا جائے تو بھی آپ ہی قصور وار ہیں کیونکہ آپ چاہتے ہی یہ ہیں کہ غریب مر جائے۔ یہ جو آپ عید وغیرہ پر کسی غریب کو زکوۃ‘ فطرانہ دیتے ہیں یہ آپ کے کسی کام نہیں آنے والا کیونکہ آپ نے ایک غریب کی تو مدد کردی‘ باقی تین سو پچیس غریبوں کا کیا بنے گا؟مانا کہ آپ نے بھی بڑی غربت دیکھی، لالٹین کی روشنی میں تعلیم حاصل کی، ملازمتوں کے لیے دھکے کھائے‘ انتہائی مشکل دور دیکھا‘ تکلیفیں سہیں اور بالآخراپنی محنت سے سیکنڈ ہینڈ گاڑی خریدنے میں کامیاب ہوگئے… لیکن اس ساری مشقت کے نتیجے میں اگر آپ کی زندگی میں کچھ آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں تو فوراً سمجھ جائیں کہ آپ نے حرام کمایا ہے‘ غریبوں کے مال پر ڈاکا ڈالا ہے اور اب آپ قابل نفرت ہیں!!
کیا وجہ ہے کہ ایک ایم بی بی ایس کرنے والا ہی ڈاکٹر بن سکتا ہے، کیا کسی غریب کو ڈاکٹر بن کر دھڑا دھڑ کمائی کرنے کا کوئی حق نہیں؟ کیا ایک غریب کے لئے تعلیم کی رعایت نہیں دی جاسکتی؟ کیا حرج ہے اگر ہم اَن پڑھ غریبوں کی دلجوئی کے لئے انہیں بھی انجینئر اور جج بھرتی کرلیں۔ کاش اس ملک میں کوئی ایسا قانون بھی بن جائے جس میں پڑھے لکھے لوگوں کو ٹھڈے مار کر باہر نکال پھینکا جائے اور ہر اچھی سیٹ غریب کو عنایت کر دی جائے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایک غریب کس لئے تعلیم حاصل نہیں کر پاتا؟ صرف اس لئے کہ وہ تعلیم پر وقت برباد کرے یا چار پیسے جیتنے کیلئے جوا کھیلے؟ سکول میں جاکر بےمقصد کتابیں پڑھتا رہے یا اپنی نیند پورے کرے؟ سارا پیسہ تو ایک اچھا موبائل خریدنے میں لگ جاتا ہے، مہنگی کتابیں کون خریدے؟ اب آپ کہیں گے کہ غریب کو اچھا موبائل خریدنے کی کیا ضرورت ہے؟ بہت اچھے… یعنی آپ بھی غریب شکن نکلے…!!!
خدارا! اپنی آنکھیں کھولیں اور غریب کو بھی کچھ سمجھیں‘ آپ کے مال میں غریبوں کا بھی حصہ ہے، اگر آپ میں تھوڑی سی بھی شرم ہے تو آج ہی اپنا مائیکرو ویو اوون‘ گاڑی‘ یو پی ایس اور لیپ ٹاپ اٹھا کر باہر پھینک دیں یا کسی غریب کو دے آئیں اور خود اِن چیزوں کو حاصل کرنے کیلئے گدھے کی طرح دوبارہ محنت شروع کر دیں لیکن خبردار! اگر آپ نے اپنی محنت سے یہ چیزیں پھر خریدنے میں کامیاب ہوگئے تو آپ جیسا بےایمان اورکوئی نہیں!!!
آپ کو چاہئے کہ غریب کو ڈرائیور ضرور رکھیں لیکن گاڑی خود چلایا کریں‘ گھرمیں کام کرنے کے لئے ماسی ضرور رکھیں لیکن جیسے ہی وہ گھرمیں آئے، اسے ٹی وی کے سامنے بٹھا کر کوئی اچھی سی فلم لگا دیں اور خود جھاڑو سنبھال لیں۔ اچھا انسان وہی ہے جو تنخواہ ملازموں کو دے اور کام خود کرے‘ آخر کب تک غریب آپ کے کام کرتے رہیں گے۔ آپ پر یہ بھی فرض ہے کہ آپ خود کبھی غریب کو ملازمت سے جواب نہ دیں، ہاں وہ جب چاہے آپ کو لات مار کر چلا جائے، یہ اس کا حق ہے۔ غریب کو محض وقت پر تنخواہ دینا، بیس تیس ہزار اُدھار دے دینا اور اپنے جیسا کھانا پینا دینا ہی کافی نہیں بلکہ آپ پر لازم ہے کہ غریب اگر حالات سے مجبور ہوکر ڈکیتی کرتا بھی پکڑا جائے تو آپ اس کے لئے مہنگے ترین وکیل کا انتظام کریں۔ یہ تو صاف ظاہر ہے کہ اگر آپ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں تو آپ طے شدہ بددیانت ہیں ورنہ اِس معاشرے میں رہتے ہوئے بھلا کون آسودگی حاصل کر سکتا ہے؟ غریب ہرلحاظ سے آپ سے برتر ہیں کیونکہ وہ غریب ہیں۔ انہیں کام چوری‘ جھوٹ‘ فراڈ اور آپ جیسے پیسے والوں کو گالیاں دینے کی کھلی آزادی ہے۔ غریب ملازم کے منہ پر بےشک اس کی بیوی کے ناخنوں کے نشانات ہی کیوں نہ ہوں یہی سمجھنا چاہئے کہ آپ جیسے دولت مندوں نے اُس پر اُبلتا ہوا پانی پھینکا ہے۔ غریب پر ظلم صرف امیر کرتا ہے ورنہ آپس میں تو غریب ایک دوسرے کے اتنے ہمدرد ہوتے ہیں کہ جس دن گھر میں مرغی پکتی ہے، شوربہ خود رکھ لیتے ہیں اور بوٹیاں رشتے داروں میں بانٹ آتے ہیں۔اسی لئے تو کہتے ہیں کہ اب بس انقلاب آہی جانا چاہئے، غریب بیٹھے بیٹھے امیر ہوجائیں اور امیروں کا بیڑا غرق ہو جائے۔ جب میرے پاس کچھ نہیں تو کسی اور کے پاس کچھ کیوں ہو۔ آپ جیسے ظالم امیروں نے زندگی میں ترقی کے لئے علم‘ محنت اور لگن جیسی ناممکن چیزیں متعارف کرا دی ہیں‘ خود آپ یہ سارے کام کر کے امیر بن جاتے ہیں اور غریب منہ دیکھتا رہ جاتاہے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ اچھی زندگی پانے کے لئے جو پاپڑ آپ نے بیلے وہ ایک غریب بھی بیلے؟ کیا یہ اچھا لگتاہے کہ ایک تو بندہ غریب ہو اور اوپر سے اسے کسی محنت مزدوری پر لگا دیا جائے؟ غربت کی اس سے بڑی توہین کوئی نہیں ہو سکتی۔ آئیے غریبوں سے پیار کریں، انہیں گلے سے لگائیں‘ ان سے محنت مزدوری کروانے کی بجائے اِنہیں آرام سے گھر میں سونے دیں اور خود اِن کے لئے دن رات محنت کر کے پیسہ کما کر اِن کی جھولی میں ڈال دیں۔ ان کو تنخواہ قابلیت کے مطابق نہیں بلکہ اِن کے گھر کے افراد کی تعداد کے مطابق دیں، یعنی اگر خانساماں کی تنخواہ بیس ہزار روپے بنتی ہے لیکن اس کے دس بچے‘ بیوی اور ماں باپ اس کے علاوہ ہیں تو اسے13لوگوں کے حساب سے 95ہزار ماہانہ عنایت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں۔ یہ ہے غریبوں کی مدد کرنے کا صحیح طریقہ!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“