زینب تین چار سال کی تھی تو ایک گانا اسے یاد ہو گیا تھا۔ بیٹھ کر آگے پیچھے جھومتی اور آنکھیں بند کر کے گاتی، کہیں کہیں سے بول تبدیل ہو جاتے، کہیں کچھ لفظ کسی اور شکل کے ہو جاتے جیسے بچے کرتے ہیں۔ ہم سب اس سے فرمائش کرتے اور وہ سنانا شروع ہو جاتی! گانے کے درمیان ایک بول تھا… ’’یہ ہے میری کہانی‘‘۔ آج یہ بول شدت سے یاد آ رہا ہے۔ اگر اس ملک کے منہ میں، جسے دنیا پاکستان کہتی ہے، زبان ہوتی تو آج یہ ضرور کہہ رہا ہوتا ’’یہ ہے میری کہانی‘‘!
پاکستان کی کہانی آج کے اخبارا ت میں شائع ہوئی ہے۔ یہ صرف دو فقروں پر مشتمل ہے۔ ایک فقرہ اعتزاز احسن نے کہا:
’’وزیر اعظم بتائیں پیسہ کہاں سے آیا‘‘
دوسرا فقرہ مشاہد اللہ خان نے کہا ہے:
’’جس کے لیڈر زرداری ہوں وہ کسی پر کرپشن کا کیا الزام لگائے گا؟‘‘
بس! یہ ہے پاکستان کی کہانی، دو فقروں پر مشتمل کہانی۔
یہ کہانی سچی ہے۔ اس قدر سچی کہ جھٹلائی نہیں جا سکتی۔ یہ دو ایسی پارٹیوں کے رہنمائوں نے بیان کی ہے جو برے وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتی رہی ہیں۔ ایک دوسرے کو بچاتی رہی ہیں۔ جس آصف زرداری کو وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف خود کار ڈرائیو کر کے رائے ونڈ انپی رہائش گاہ پر لے گئے ہوں، جس کے اعزاز میں شریف برادران نے ستر سے زیادہ پکوانوں پر مشتمل تاریخ ساز ضیافت کی ہو، اس آصف زرداری کی پارٹی کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا لیڈر قومی اسمبلی میں کھڑا ہو کر، آصف زرداری کے میزبانوں کے بارے میں کیسے غلط بات کہہ سکتا ہے؟ جس پارٹی نے عمران خان کے دھرنے کے دوران صدقِ دل سے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی مدد کی ہو، ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوئی ہو، ان کے لیے ڈھال بن گئی ہو، وہ پارٹی تہمت کیسے لگا سکتی ہے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کل وہ سیسہ پلائی دیوار بن گئی تھی جس سے میاں نواز شریف کے دشمن ٹکرا کر پاش پاش ہو رہے تھے اور آج وہ ان پر جھوٹے الزامات لگا رہی ہو؟ نہیں! یہ ایک دوسرے کے حق میں اتنے مخلص ہیں کہ سچ کے سوا ان کی زبانوں پر کچھ آہی نہیں سکتا۔
مشاہد اللہ خان آخر اُس پیپلز پارٹی کے بارے میں غلط بات کیسے کہہ سکتے ہیں جس کے کسی ایک ملزم کو بھی مسلم لیگ نون نے اقتدار میں آ کر سزا نہ دی ہو۔ جولائی 2014ء کی بات ہے جب کراچی کی اینٹی کرپشن عدالت نے سابق وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی کی کرپشن کے بارہ مقدموں میں ضمانت منظور کی تھی۔ ایف آئی اے نے اس ضمانت کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ میاں نواز شریف کی حکومت یوسف رضا گیلانی کو بچانے کے لیے اتنی سرگرم اور مخلص تھی کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل ذاتی طور پر سندھ ہائی کورٹ پہنچے اور ایف آئی اے کی اپیل واپس لی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے جو جو کچھ کیا، ہر شخص کو معلوم ہے۔ مگر سڑکوں پر گھسیٹنے کا وعدہ کرنے والے پیپلز پارٹی کو بچانے میں لگ گئے۔ اس ملک پر بڑے بڑے ظلم ہوئے مگر اس ظلم کی مثال نہیں جب ایک ’’مشہور و معروف‘‘ اسی سالہ وفادار کو زرداری صاحب نے ایک بہت بڑے آئینی منصب پر فائز کیا۔ کوئی اور حکومت ہوتی تو آ کر سب سے پہلے اس ظلم پر توجہ دیتی اور اس ظلم کو مٹاتی۔ مگر میاں نواز شریف کی حکومت نے نہ صرف اِس ظلم کو قبول کیا اور جاری رکھا بلکہ جہاں بھی ہو سکا، ’’امدادِ باہمی‘‘ کا بہترین مظاہرہ کیا۔ جس پیپلز پارٹی کی مسلم لیگ نون کی حکومت نے اتنی خدمت کی ہو، اُس پیپلز پارٹی کے لیڈر کے بارے میں مشاہد اللہ خان غلط بات کیسے کہہ سکتے ہیں۔
’’وزیر اعظم بتائیں پیسہ کہاں سے آیا‘‘
اور’’جس کے لیڈر زرداری ہوں وہ کسی پر کرپشن کا کیا الزام لگائے گا؟‘‘۔ یہ دو ایسی حقیقتیں ہیں جن سے پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر ہر کوئی واقف ہے۔ یہ اس ملک کا اصل پرچم ہے جو پھڑ پھڑا رہا ہے۔ یہ دونوں لیڈر ہماری قوم کی شناخت ہیں، یہ ہمارا فخر ہیں، آج ہم اپنے بچوں کے بارے میں سر اٹھا کر پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر آصف زرداری بنیں گے اور نواز شریف بنیں گے۔
آپ یاد کیجیے، کیا اِن دو لیڈروں کی کوئی ایسی تقریر، کوئی ایسا انٹرویو، کوئی ایسی تحریر آپ کی نظر سے کبھی گزری ہے جس میں انہوں نے ملک کو درپیش مسائل کا تذکرہ کیا ہو؟ یا حل پیش کیا ہو؟ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ آصف زرداری زرعی اصلاحات کے بارے میں تشویش کا اظہار کر رہے ہوں؟ بلوچستان میں رائج پانچ ہزار سالہ قدیم سرداری سسٹم کو ختم کرنے کی بات کر رہے ہوں۔ ملک سے جو ڈاکٹر سائنس دان اور ٹیکنالوجی کے ماہرین بھاگ بھاگ کر دوسرے ملکوں میں جا رہے ہیں، ان پر دکھ درد کا اظہار کیا ہو۔ کیا آپ اِس بات پر یقین کر سکتے ہیں کہ میاں نواز شریف تعلیمی نظام کے نقائص پر دس منٹ، صرف دس منٹس، اثرانگیز گفتگو کر رہے تھے؟ اگر آپ کو کوئی بتائے کہ میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان بیورو کریسی کی سیاست زدگی اور پولیس کے غلط استعمال پر رنجیدہ ہیں اور اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو کیا آپ یقین کر لیں گے؟
یہ ہیں ہمارے لیڈر، ایک جب بھی بولتا ہے صرف یہ کہتا ہے کہ ہم سیاسی لوگ ہیں یا بی بی شہید کے خون کا پرچم لہراتا ہے۔ دوسرا قوم سے خطاب کر کے اپنے خاندان کی کاروباری تاریخ بیان کرتا ہے یوں کہ پہلے سے بھی زیادہ سوالات جنم لیتے ہیں۔ یہ ہیں ہمارے لیڈر جو دنیا کے کسی وزیر اعظم یا صدر سے دس منٹ ڈھنگ کی گفتگو نہیں کر سکتے۔ کسی تھنک ٹینک، کسی یونیورسٹی، کسی پارلیمنٹ کو اپنے خیالات سے متاثر نہیں کر سکتے۔ ان کا ذوق کیا ہے؟ ان کے شوق کیا ہیں؟ اڑھائی کروڑ ڈالر کی گھڑی، کسی کے لہلہاتے کھیت دیکھ کر شوگر مل لگانے کا خیال، کسی کا اچھا محل دیکھ کر اسے اپنی ملکیت میں لے لینے کا جنون، پراپرٹی، پراپرٹی، پراپرٹی، پیسہ، پیسہ، پیسہ۔ اس دکاندار کا قصہ یاد آ رہا ہے جس پر نزع کا عالم طاری تھا اور وہ کہے جا رہا تھا دکان کو تالا لگائو۔ دکان کو تالا لگائو۔ لوگ اسے کلمہ پڑھنے کی تلقین کرتے کرتے تھک گئے مگر اس نے تالہ لگانے ہی کی رٹ جاری رکھی۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس کی زندگی اسی فکر اسی ذکر میں گزری تھی۔
کیا مسلم لیگ نون سے وابستہ کوئی شخص، قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر دعویٰ کر سکتا ہے کہ وزیر اعظم فائلیں خود پڑھتے ہیں اور ان پر فیصلے اپنے قلم سے لکھتے ہیں؟ یہ ملک کس طرح چل رہا ہے؟ ایک اہلکار فائلیں
Discuss
کرتا ہے۔ پھر آ کر لکھتا ہے کہ وزیر اعظم نے یہ فیصلہ کیا۔ کیا ملک اس طرح چلتے ہیں؟
اے اہلِ وطن! روئو! ماتم کرو! تمہارا آغاز یہ تھا کہ قائد اعظم بیت المال کا ایک پیسہ بھی خاندان تو دور کی بات ہے، اپنی ذات پر نہیں لگاتے تھے۔ تمہارا آغاز یہ تھا کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان آخری سفرِ شہادت کے دوران حالات حاضرہ پر شائع شدہ تازہ ترین کتاب پڑھ رہے تھے۔ تمہارا انجام سامنے ہے، تمہارا انجام لندن کے فلیٹ، جدہ کی ملیں، سرے محل، فرانس کی حویلیاں، آف شور کمپنیاں اور دبئی میں بلائے گئے پارٹی اجلاس ہیں۔ کتنا بڑا جھوٹ بولا ہے عمران خان نے کہ یہ لوگ چھینک آنے پر بھی چیک اپ کرانے کے لیے لندن روانہ ہو جاتے ہیں۔ چھینک؟ چھینک تو بہت آگے کا معاملہ ہے، یہ تو جھر جھری آنے پر لندن جاتے ہیں۔
پس نوشت، مولانا نے فرمایا ہے کہ وکی و پاناما لیکس نے ثابت کر دیا ہے کہ مذہبی طبقے شفاف ہیں۔ اس پر تبصرہ کرنا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ یکم جون 2011ء کے اخبارات میں امریکی سفیر اینی پیٹرسن کا بیان سب نے پڑھا تھا جس میں ایک مذہبی جماعت کے ووٹوں کا ذکرکر کے اس نے لکھا تھا:
’’Up For Sale‘‘
یوں بھی، دو دن پہلے ایک نوجوان لکھاری نے لکھا ہے…’’قاضی حسین احمد صاحب نے اعتراف کیا کہ جب وردی اتارنے کی ڈیڈلائن ختم ہونے پر ہم نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تو مولانا اپنے وعدے سے پھر گئے۔ میں نے پوچھا اس کے عوض مولانا نے پرویز مشرف سے جو زمین الاٹ کروائی تھی اس پر آپ کیا کہیں گے؟ کہنے لگے زمینوں کے الزامات کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مولانا کی پرویز مشرف سے کوئی ڈیل ہوئی تھی‘‘۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔