بحری جہاز پر اٹلی کا پرچم لہرارہا تھا۔ یہ جہاز سنگاپور سے چلا تھا۔ مصراس کی منزلِ مقصود تھا۔فروری 2012ء کے وسط میں یہ جہاز بھارت کے جنوبی سمندر میں پہنچا۔ یہاں سے اس نے مزید مغرب کی طرف جانا تھا۔ کراچی اور پھر ایران کے جنوب سے ہوکر یمن کے ساحلوں کو چھوکر ، شمال کی طرف مڑ جانا تھا اور بحیرۂ احمرسے ہوتے ہوئے مصر کے ساحل پر لنگرانداز ہونا تھا۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
بھارت کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو انتہائی جنوب سے ذرا اوپر ، مغربی ساحل پر ایک لمبی عمودی پٹی ہے۔ اس لمبی پٹی کے شمال اور شمال مشرق میں کرناٹک کی ریاست ہے۔ مشرق اور جنوب مشرق سے یہ تامل نادو کے حصار میں ہے۔ مغرب کی طرف سمندر کی بے کناروسعتیں ہیں۔ یہ بھارت کی ریاست کیرالہ ہے۔ کیرالہ کو کئی پہلوئوں سے بھارت میں امتیازی مقام حاصل ہے۔ یہاں خواندگی کا تناسب 94فیصد ہے جو بھارت میں بلند ترین ہے۔ اوسط عمر، 74برس، بھی طویل ترین ہے۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے اس ریاست کو بھارت کی سب سے کم کرپٹ ریاست قرار دیا ہے۔ کیرالہ میں ماہی گیری خاص اہمیت کی حامل ہے۔ 590کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی سے ماہی گیر فائدہ اٹھانا جانتے ہیں۔ ریاست کے گیارہ لاکھ افراد کا ذریعہ معاش مچھلیوں سے وابستہ ہے۔
پندرہ فروری 2012ء کو کیرالہ کے ساحلی گائوں نین ڈارکہ سے دو ماہی گیر اپنی مشینی کشتی میں مچھلیاں پکڑنے روانہ ہوئے۔ ایک کا نام جیلسٹائن اور دوسرے کا اجیش پنکو تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں، یہ کُھلے سمندر میں تھے۔ جب یہ سمندر کے اُس حصّے میں پہنچے جو کیرالہ کے شہر امبالہ پوجا کے سامنے تھا، تو سنگا پور سے مصر جانے والے اطالوی جہاز نے انہیں دیکھا ۔ جہاز والوں کا بیان ہے کہ وہ ان دونوں ماہی گیروں کو بحری قزاق سمجھے۔ یہ بیان صحیح ہے یا محض بہانہ ہے، بہرطور، اطالوی جہاز سے دو گولیاں سنسناتی ہوئی آئیں اور جیلسٹائن اور اجیش پنکو کے جسموں میں پیوست ہوگئیں۔ دونوں موت کے گھاٹ اتر گئے۔ بحری جہاز کا نام انریکا لیکزی (ENRICA LEXIE) تھا۔
ان دوماہی گیروں کی موت سے بھارت اور اٹلی میں سفارتی جنگ چھڑ گئی۔ یہ جنگ ایک سال اور ایک ماہ جاری رہی جس میں آخری فتح 21مارچ 2013کے دن بھارت کی ہوئی۔ اس جنگ نے ثابت کردیا کہ بھارت عزتِ نفس کے میدان میں دنیا کے کسی بھی طاقت ور ملک سے پیچھے نہیں اور اپنے غریب ترین شہریوں کی زندگی کی حفاظت بھی کرنا جانتا ہے۔ بھارت کی یہ غیرمعمولی فتح ہمیں آئینہ دکھا رہی ہے۔
چند گھنٹوں کے اندر اندر بھارتی کوسٹل گارڈز اطالوی جہاز پر قبضہ کرچکے تھے۔ کوچی شہر کے ساحل پر اسے لنگرانداز کردیا گیا اور تفتیش شروع ہوگئی۔ جہاز والوں کا موقف کہ دونوں مقتول بحری قزاق تھے غلط ثابت ہوا۔ جہاز کے کسی حصے پر گولی کا کوئی نشان نہ تھا۔ یوں بھی بین الاقوامی طریقِ کار یہ تھا کہ اگر قزاقوں سے سامنا ہوتو جہاز کو چاہیے کہ بچ کر نکل جانے کی کوشش کرے اور گولی چلانا پڑے تو کسی کو جان سے نہ مارا جائے۔ گولی چلانے والے دونوں اطالوی فوجی تھے۔ بھارتی وزیرخارجہ نے اپنے اطالوی ہم منصب سے فون پر مطالبہ کیا کہ دونوں قاتل اور جہاز کا کپتان اپنے آپ کو کیرالہ پولیس کے حوالے کردیں لیکن اطالوی حکومت نے یہ مطالبہ رد کردیا۔ 19فروری 2012ء کو کیرالہ پولیس نے دونوں ملزم فوجیوں کو گرفتار کرلیا اور کپتان سے تفتیش کی۔ دونوں فوجیوں کو چودہ دن کے ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔ اطالوی حکومت نے اصرار کیا کہ چونکہ جہاز بین الاقوامی پانیوں میں تھا اس لیے بھارتی قانون کا اطلاق اس پر نہیں ہوسکتا۔ اطالوی نائب
وزیرخارجہ بنفس نفیس بھارت پہنچ گیا لیکن بات چیت ناکام رہی۔ اسی اثنا میں اطالوی حکومت نے اپنی طرف سے تفتیش شروع کردی اور بھارت کو بتایا کہ ملزموں کو اطالوی قانون کے تحت سزادی جائے گی جو اکیس سال قید سے کم نہیں ہوگی لیکن بھارت نے یہ پیشکش مسترد کردی۔ 7مارچ 2012ء کو اطالوی وزیراعظم نے وزیراعظم من موہن سنگھ سے فون پر اظہار افسوس کیا لیکن بھارت کے رویے میں کوئی نرمی نہ آئی۔
اب اطالوی حکومت نے ایک اور نسخہ آزمایا۔ اس نے مقتولین کے ورثا کو ایک کروڑ روپے فی مقتول خون بہا پیش کیا جو قبول کرلیا گیا۔ مشینی کشتی کے مالک نے بھی سترہ لاکھ روپے معاوضہ لے لیا۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے ان انتظامات کی منظوری دے دی لیکن 30اپریل کو بھارتی سپریم کورٹ نے اطالوی حکومت اور مقتولین کے ورثا کے درمیان ’’راضی نامہ‘‘ کو غیر قانونی اور ’’حیران کن‘‘ قرار دیا اور رولنگ دی کہ بھارتی قانون کے قدرتی راستے کو روکا جارہا ہے؛ تاہم عدالتِ عظمیٰ نے جہاز کو باقی ماندہ عملے کے ہمراہ بھارتی حدود سے باہر جانے کی اجازت دے دی۔ تین کروڑ روپے کا ضمانتی مچلکہ پیش کرنے کے بعد جہاز کو جانے دیا گیا۔
18مئی کو نین ڈارکہ کی ساحلی پولیس نے 196صفحات پر مشتمل چارج شیٹ پیش کردی جس میں دونوں اطالوی فوجیوں کو ملزم قرار دیا گیا۔ اس کے جواب میں اٹلی نے احتجاجاً اپنے سفیر کو واپس بلالیا۔ اطالوی وزیراعظم نے من موہن سنگھ کو فون بھی کیا لیکن بھارتی حکومت چارج شیٹ واپس لینے پر راضی نہ ہوئی۔ دو جون کو ایک سو پانچ دن کی قید کے بعد دونوں ملزموں کو ضمانت پر رہا کیا گیا؛ تاہم ان کے پاسپورٹ انہیں واپس نہ کیے گئے۔ دسمبر کے تیسرے ہفتے میں کیرالہ ہائی کورٹ نے پاسپورٹ واپس دینے کا حکم دیا تاکہ ملزم کرسمس منانے کے لیے اٹلی جاسکیں بشرطیکہ بھارت کی مرکزی حکومت کو اس پر اعتراض نہ ہو۔ جنوری 2013ء میں ملزم حسب وعدہ واپس بھارت پہنچ گئے۔ 18جنوری 2013ء کو بھارتی سپریم کورٹ نے رولنگ دی کہ یہ مقدمہ کیرالہ کی ریاست کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے اور صرف مرکز اس معاملے پر بااختیار ہے۔ 24اور 25فروری کو اٹلی میں انتخابات ہورہے تھے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اطالوی سفیر کی یقین دہانی پر ملزموں کو وطن جانے کی اجازت دی اور حکم دیا کہ ووٹ ڈالنے کے بعد وہ بھارت واپس آئیں۔ گیارہ مارچ 2013ء کو اٹلی کی حکومت نے یوٹرن لیا اور ملزموں کو واپس کرنے سے انکار کردیا ۔ بھارت میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ کیرالہ کے منتخب ارکان اسمبلی نے زبردست احتجاج کیا۔ من موہن سنگھ نے قوم کو یقین دلایا کہ ملزمان کی واپسی کے لیے ہرممکن کوشش کی جائے گی۔ بھارتی حکومت نے اطالوی سفیر کو بھارت نہ چھوڑنے کا حکم دے دیا کیونکہ قیدیوں کی واپسی کی ضمانت سفیر صاحب ہی نے دی تھی۔ اس کے بعد ایک زبردست سفارتی جنگ چھڑی۔ یورپی یونین نے اٹلی کا ساتھ دیا اور سفیر کی ’’سفارتی حُرمت‘‘ پر خوب زور دیا گیا۔ اٹلی نے بین الاقوامی ثالثی کی تجویز پیش کی جو بھارت نے رد کردی سفیرنے سفارتی استثنا کا دعویٰ کیا جو سپریم کورٹ نہ مانی۔ سپریم کورٹ نے حکم دے دیا کہ اس کی اجازت کے بغیر سفیر کو بھارت سے باہر جانے کی بالکل اجازت نہیں۔ بالآخر 21مارچ کو اطالوی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور ملزمان کو بھارت واپس بھیجنے کا اعلان کردیا۔
آپ دیکھیے کہ اس سارے قصے میں بھارتی حکومت اور بھارتی ایجنسیوں نے قانون کے قدرتی راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ پورے یورپ کے دبائو کے باوجود بھارت اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹا۔ یہ ہوتا ہے خوددار اور آزاد قوموں کا رویّہ۔
اس کے مقابلے میں پاکستان کا رویّہ دیکھیے۔ ریمنڈ ڈیوس نے دن دہاڑے پاکستانی شہریوں کو قتل کیا اور اسے بچانے میں پاکستانی خود ہی پیش پیش تھے۔ اسے پاسپورٹ کے بغیر ہی بحفاظت واپس بھیج دیا گیا۔ ایمل کانسی کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا گیا۔ پاکستان کے شہریوں کی اپنے ہی ملک میں عزت یہ ہے کہ کراچی اور اسلام آباد میں کئی بار غیرملکی سفارت کاروں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔ کراچی میں ٹریفک کے معمولی جھگڑے پر غیرملکی، پاکستانی شہری کو اپنے سفارت خانے میں لے گئے اور حبس بے جا میں رکھا۔ ہماری قومی ’’غیرت ‘‘ کا یہ حال ہے کہ چیچن اور اُزبک ہمارے قوانین کو پیروں تلے روند کر ملک میں دندناتے پھر رہے ہیںاور ہم انہیں مہمان قرار دیتے ہیں۔ عرب اور دوسرے اسلامی ملکوں میں ایسی ’’مہمان نوازی‘‘ کا تصورتک نہیں۔ ڈرون ہمارے شہریوں کو سالہا سال سے قتل کررہے ہیں۔ ہم پھر بھی باغیرت ہیں!
جس ملک کا وزیراعظم جاتے جاتے بھی چونسٹھ پولیس افسر اور اہلکار اپنی ذات کے لیے تاحیات محافظ بناکر لے جائے اور ملک کا سربراہ اپنے ذاتی دوستوں کو ہر حال میں وفاقی وزیر بناکر رکھے ، اس ملک میں اصل حکومت ریمنڈ ڈیوسوں کی ہوتی ہے۔ دنیا میں عزت ان ملکوں کی ہے جن کے حکمرانوں کا طرز رہائش اور طرزِ حکومت من موہن سنگھ اور عبدالکلام کی طرح ہو۔ قومی رویّے، ذاتی رویّوں سے پھوٹتے ہیں!
http://columns.izharulhaq.net/2013_03_01_archive.html
“