بادشاہ ننگا تھا۔ سر سے پیر تک الف ننگا۔ لیکن جلوس میں شامل عمائدین اور دو رویہ کھڑے امراء اس کے لباس کی تعریف کررہے تھے۔ واہ واہ ! کیا دیدہ زیب شاہی لباس ہے ! تعریف کرنے والے وہ تھے جن کے مفادات بادشاہ سے وابستہ تھے۔ ثابت ہوا کہ لغت مفادات کی محتاج ہے۔ اگر مفاد کا معاملہ ہے تو برہنگی کا معنی بدل جائے گا۔ اگر درباری امراء برہنگی کو برہنگی کہہ دیتے تو عہدے چھن جاتے۔ ہاتھی گھوڑے لے لیے جاتے۔ محلات خالی کرالیے جاتے۔ چنانچہ لغت تبدیل کرلی گئی۔ برہنگی کا معنی دیدہ زیب لباس ہوگیا۔
لغت کے ساتھ یہ ’’ حسنِ سلوک‘‘ آج کل بھی زوروں پر ہے۔ بار بار اعلان ہورہے ہیں کہ ساری اپوزیشن حکومت کے ساتھ ہے۔ گویا جو لوگ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف دھوپ اور بارش میں کھلے آسمان تلے دھرنا دے رہے ہیں‘ وہ اپوزیشن میں نہیں ہیں اور پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوا طبقہ جو سر سے پائوں تک مفادات کی زرہ میں محفوظ و مامون ہے، اپوزیشن ہے۔ ہمیشہ اپنی پسند کی وزارتوں پر اصرار کرنے والی جے یو آئی بھی اپوزیشن میں شمار کی جارہی ہے اور پیپلزپارٹی بھی ! ؎
لغت میں ہجر کا معنی بدل ڈالا کسی نے
کہ اب کے وصل میں اظہار تنہائی بہت ہے
جو نظام علامہ طاہرالقادری اور عمران خان لانے کی بات کررہے ہیں‘ وہ آتا ہے یا نہیں آتا، اس سے قطع نظر، وہ ان لوگوں کو بالکل راس نہیں جو پارلیمنٹ میں’’ اپوزیشن‘‘ کا کردار ادا کررہے ہیں یا حزب اقتدار میں ہیں۔ بھاری اکثریت ٹیکس نہیں دے رہی۔ ایک عالی شان زندگی ہے جو یہ اصحاب بسر کررہے ہیں۔ اولادیں ہر سال یورپ اورامریکہ کی سیریں کرتی ہیں۔ بہت سے تو رہائش پذیر ہی دساورمیں ہیں۔ تھانے ان کی جیبوں میں ہیں۔ کچہریاں ان کی مٹھیوں میں ہیں۔ پروازیں ان کے لیے موخر کردی جاتی ہیں۔ قطاروں میں یہ لوگ آج تک نہیں لگے۔ ان کے ہسپتال، ان کے سکول کالج ، ان کے شاپنگ سنٹر سب الگ ہیں۔ جہازوں سے اترتے ہیں تو امیگریشن اور کسٹم کے قوانین معطل ہوجاتے ہیں اور ان کے پرسنل سیکرٹری آناً فاناً انہیں باہر لے جاکرگاڑیوں میں بٹھاکر بجلی کی رفتار سے لے جاتے ہیں۔ معروف معیشت دان ڈاکٹر فرخ سلیم اعدادو شمار سے ثابت کرتے ہیں کہ گزشتہ 44سالوں کے دوران دس قانون ساز اسمبلیاں آئیں اور جتنی بھی قانون سازی ہوئی‘ پارلیمنٹ کے ممبران کے مفاد میں ہوئی‘ عوام کے مفاد میں نہیں ہوئی تو پھر یہ طبقہ حکومتِ وقت کا ساتھ کیوں نہ دے ! خوشی سے خودکشی کوئی نہیں کرتا۔
موجودہ سیاسی صورتِ حال میں پیپلزپارٹی کا موقف ’نیمے دروں نیمے بروں‘ کا آئینہ دار ہے۔ یہ عین وہی صورت حال ہے جو پیپلزپارٹی کے گزشتہ پانچ سالہ دورِ اقتدار میں مسلم لیگ نون کو درپیش رہی۔ آدھا تیتر ، آدھا بٹیر، کبھی یہ اعلان کہ شاہراہوں پر گھسیٹیں گے اور کبھی یہ عزم کہ سسٹم چلتا رہے۔ اس بحران کے آغاز میں اپوزیشن لیڈر جناب خورشید شاہ نے واضح کردیا تھا کہ وہ سسٹم کو ہر حال میں بچائیں گے۔ اس لکھنے والے نے تفصیل سے لکھا تھا کہ سسٹم سے ان کی کیا مراد ہے۔
جس جہاز کو طوفان سے بچانے کی کوشش مسلم لیگ نون کی حکومت کررہی ہے، اس کے ایک حصے میں پیپلزپارٹی پہلے ہی مقیم ہے۔ تین اقدار پیپلزپارٹی اور حکومتی پارٹی میں مشترک ہیں۔اول: دونوں خاندانی اقتدار کا مظہر ہیں۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں جناب صدر کا صاحبزادہ اور بہنیں شریک حکم تھیں۔ موجودہ دور میں جو صورتِ حال ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ سب کچھ عیاں ہے اور ڈنکے کی چوٹ ہورہا ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ نون کی پوزیشن اس قدر واضح ہے کہ کبھی اس نے نمائش کے لیے بھی تردید یا وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی ! دوم : دونوں پارٹیوں کے سربراہوں کی مالی سلطنتیں بیرونِ ملک ہیں۔ کارخانے ، بینک اکائونٹ، بیش بہا اپارٹمنٹ ، محلاّت، کاروبار، پراپرٹی کے لہلہاتے بزنس! ملک کے اندر اس کا عشرِعشیر بھی نہیں ! یاد رہے کہ طاہرالقادری اور عمران خان اس دولت کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے ہوئے ہیں۔ سوم: دونوں پارٹیاں سیاسی خانہ بدوشوں کی بہترین پناہ گاہ ہیں، جیسے ہی یہ دونوں پارٹیاں اقتدار سے محروم ہوتی ہیں، پرندے ان کی صفوں سے اُڑنا شروع ہوجاتے ہیں اور پانی سے بھری جھیلوں اور سرسبز زمینوں پر جا اترتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق نے پیپلزپارٹی سے اقتدار چھینا اور پیپلزپارٹی ہی کے وفاداروں نے اسے سہارا دیا اور دیے رکھا۔ جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ نون سے تخت ہتھیایا اور پرندے شریف خاندان کو چھوڑ کر قاف لیگ پر آن بیٹھے۔
یہ بھی زور و شور سے کہا جارہا ہے کہ یہ تحریک ملک گیر نہیں ہے مگر آزاد الیکٹرانک میڈیا ایک مختلف تصویر پیش کررہا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے عمران خان کے دھرنے میں شریک ایک چترالی چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ میں اور میرے ساتھی اس دھرنے میں اس لیے شریک ہیں کہ ہم اس ایک مخصوص طبقے کی حکمرانی سے تنگ آچکے ہیں۔ پھر اس نے اپنے ان لوگوں کو پکارنا شروع کردیا جو چترال میں ہیں کہ اٹھو اور آکر ہمارے ساتھ شامل ہوجائو۔ ایک نوجوان لڑکی بتارہی تھی کہ وہ اور اس کا گروپ کراچی سے آئے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے عقیدت مند بھی پورے پاکستان سے آئے ہوئے ہیں۔ ہم ان کے نظریات یا طریق کار سے اتفاق کریں یا اختلاف، لیکن سچائیوں کو نہیں جھٹلانا چاہیے۔ عمران خان کی شخصیت کا کرشمہ ہے یا طاہرالقادری کا سحر آگیں طرزِ خطاب، یا دونوں میں نظام کو بدلنے کا ولولہ ، یا جذبات کا تلاطم اور سیاسی ناپختگی جو کچھ بھی ہے‘ حقیقت کی موجودگی سے تو انکار نہ کیجیے ۔ تیلی نے کسان سے کہا تھا، جاٹ رے جاٹ تیرے سر پر کھاٹ، جاٹ نے جواب دیا تیلی رے تیلی، تیرے سر پر کولہو، تیلی نے اعتراض کیا کہ قافیہ نہیں ملا، جاٹ نے فاتحانہ انداز میں بتایا کہ قافیہ ملا ہے یا نہیں، کولہو تمہیں سر پر بھاری تو لگ رہا ہے۔ دھرنا کامیاب ہوتا ہے یا نہیں، بہر طور بھاری ضرور لگ رہا ہے۔ جب خواجہ سعد رفیق جیسے آتش بجاں رہنما بات چیت کرنے اور ’’ جائز‘‘ مطالبات ماننے کی پیش کش کرتے ہیں اور لہجہ بھی بدل لیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کولہو اور کچھ کرے نہ کرے ، بھاری ضرور ہے!
سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کی ایف آئی آر بھی نہیں کٹنے دینی، استعفے بھی نہیں دینے، وزیراعلیٰ کو بھی نہیں تبدیل کرنا‘ خاندان کے کسی فرد کو اقتدار سے الگ بھی نہیں کرنا‘ مذاکرات بھی کرنے ہیں‘ سسٹم بھی بچانا ہے‘ آئین اور جمہوریت کی پاسداری بھی کرنی ہے تو پھر آئیے ، دعا کریں کہ کوئی معجزہ رونما ہو اور تخت و تاج بچ جائے ؎
یہ نمازِ عصر کا وقت ہے
یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی
پس نوشت ۔1: آپ کا کیا خیال ہے کہ دبئی سے کراچی پہنچنے کے بعد جناب آصف علی زرداری نے سب سے پہلے کس شخصیت سے بات کی ہوگی؟ مولانا فضل الرحمن سے !!
پس نوشت۔2: اگر میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ بچ گئی تو ایک ایم این اے کو وزارت ملنے کی امید قوی ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“