آج ذکر کربلا ہر گزرتے دن کے ساتھ اقوام عالم کےدل میں گھر کرتا جا رہا ہے۔ کل جو ’غریب کربلا ‘عالم تنہائی میں ’ھل من ناصر ینصرنا‘ کی صدا بلند کررہا تھا،آج اسی کی صدائے استغاثہ پر لبیک کہتے ہوئے کروڑوں عشاق حسین، جناب حرعلیہ السلام کی صورت خیام حسینی کی جانب رواں دواں ہیں ۔مشرق و مغرب سے میلوں دورکی مسافت طے کرکے ہر آنے والاعزادار آقا حسینؑ کے درکی زیارت کو اپنا مقدر سمجھتا ہےاور ایک آہ سرد بھرکے کہہ اٹھتا ہے : کاش…!ہم کربلا میں ہوتے …!؟
اربعین حسینی پر تشریف لے جانے والے عاشق حسین؈ کا وطیرہ ہے کہ پہلے شہنشاہ نجف کے در پر حاضری دیتا ہے ۔ امیرکائنات سے اجازت طلب کرتا ہے اور غریب نینوا کی زیارت کو روانہ ہوجاتا ہے ۔ ’مر کز علم‘ سے ’جنت اللہ فی الارض‘ تک کاعشاق اہل بیت علیہم السلام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہر لمحہ ذکر الٰہی میں غرق ہوتا ہے۔ کوئی تلاوت قرآن میں مشغول ہے تو کوئی فضائل و مصائب اہل بیت علیہم السلام کے ذکر میں ۔ یہ انسانیت کا واحدمرکز ہے جہاںواضح طور پر عقائد و مذاہب کا بے نظیر سنگم نظر آتا ہے۔ اس طویل مسافت میں ہزاروں کی تعداد میں موکب(عارضی رہائش گاہ) کا بندوبست کیاجا تاہے جہاں زائرین کے قیام و طعام اور ان کی ضرورت کا ہر سامان مہیا ہوتا ہے۔موصولہ معلومات کی بنیاد پر سنہ ۲۰۱۴ ءمیں صرف کربلا میں،عراقی موکب کے علاوہ ،سات ہزار مواکب کا اہتمام کیا گیا تھا۔
عام مشاہدات نے صرف نجف تا کربلا کے مواکب کو ہی پیش نگاہ رکھا ہوا ہےاور مشہور بھی یہی ہےجبکہ حقیقت میں اس کے علاوہ ایسے دور افتادہ میں بھی عارضی خیام کا انتظام میسر ہوتا جہاں عام تصورات کی رسائی بھی نہیں ۔ حقیر کو چند ایک دفعہ اربعین حسینی پر زیارت کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔ ایران سے عراق کے درمیان کئی ایسے علاقے بھی ملے جہاں چاروںسمت ہوکا عالم تھا ۔ کوئی بستی نہیں لیکن وہاں بھی خادم امام کی موجودگی مشاہدہ میں آئی ہے۔صرف اس وجہ سے کہ یہاں سے زائر امام کا کارواں گزرنے کو ہے۔امام کے زائر کی خدمت کا یہ جذبہ تقریباً ملک عراق کے گوشہ و نواحی تک پھیلا ہوا ہے۔ ملک بھر میں مختلف مقامات پر لکھا یہ فقرہ’خدمۃ زوار الحسین شرف لنا‘اس بات کا بین ثبوت ہے۔
اس طولانی مسافت میں چند مواکب کے فاصلے سے دواکیمپ اور دیگر سہولیات کا باقاعدہ اہتمام کیاجا تا ہے۔ پورے سفر میں ایسے دل سوز مناظر دیکھنے کو ملے کہ آنکھوں سےبے ساختہ آنسو نکل پڑے ہیں ۔ صاحب عمامہ علماء کرام، زائرین کے پاؤں چومتے نظر آئے ہیں۔ان کے پاؤں سے لپٹی گرد کو آنکھوں کے سرمہ کی جگہ دیتے ہیں۔ ننھے ننھے بچےجو ابھی مستقل طورپر اپنے پاؤں پرکھڑے نہیں ہوسکتے،چلتے گرتے بظاہر نحیف مگر قوتی ایمانی سےبھرپورآواز سے’ھلابیکم یا زوار‘(اے زائرین حسین! خوش آمدید!)کی صدا لگاتے ہیں ۔ ہر مختصر مسافت کے فاصلے پر بچوں کی مختلف جماعتیں ’لبیک یا حسین‘ کا نعرہ لگاکر خود کو جناب علی اصغرعلیہ السلام کی صف میں شامل کرتے ہیں ۔ ان کی معصومانہ خدمت دیکھتے ہی آنکھیں پرنم ہوجاتی ہیں اور ضبط کے باوجود آنسو بہہ نکلتے ہیں۔درمیان راہ مختلف مقامات پر شہدائے ملت عراق کی تصاویر ،ائمہ معصومین علیہم السلام اور مراجع عظام کے ارشادات نہایت عمدگی سے نصب ہوئے ہوتے ہیں۔یہ ایک واضح اشارہ ہے شیعہ کے متحرک قوم ہونے اور تعمیری فکر رکھنے کی جانب ۔ان راہوں میں مختلف مقامات پر مہمان نوازوں کا ایک دستہ زائرین کا پرتپاک استقبال کرتا ہے اور مکمل اہتمام کے ساتھ اپنا مہمان بناتا ہے۔ عرب مہمان نواز ہوتے ہی ہیں لیکن ان مواقع پر ان کی ضیافت میں چنداں اضافہ ہوجا تاہے۔ ان کا کہنا ہےکہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے، وہ امام حسین علیہ السلام کی بدولت ہے، لہٰذا سال بھر کی کمائی تک کو خرچ کرنے میں ذرہ بھر تامل نہیں کرتے۔کربلا پہنچتے ہی جوں ہی گنبد حرم نظر آتا ہے، آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب امڈ پڑتا ہے اور پورے سفر کی تھکن لمحے بھر میں ختم ہوجاتی ہے اور پورے وجود سے بس یہی صدا آتی ہے ’السلام علیک یا ابا عبد اللہ الحسین‘ اے حسین! ہمارا سلام قبول کیجیے!
تاریخ بتاتی ہےکہ جابر بن عبداللہ کوسب سے پہلے زائر ہونے کا شرف حاصل ہے۔آپ نابینا تھے۔ اس لئے اپنے غلام کے ہمراہ گئے۔ تاریخ چونکہ مخالف حاکموں سے عبارت ہے، اس لئے ان ادوار میں زیارت کرنے والوں پر سخت پابندی عائد کردی گئی تھی ۔ ان کے ہاتھ پاؤں قلم کردیئے جاتے، ظالم حکمرانوں نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ متوکل نے تو ازحد گھناؤنی جسارت کرکے آپ کی قبر مطہر کو سطح ارض سے ملا کر اس پر ہل چلوا دیئے۔ان سخت ترین مصائب میں بھی عشق حسینی کا جذبہ سرد نہیں پڑاچونکہ آپ کی شہادت سے لوگوں کے دلوں میں ایسی حرارت پیدا ہوگئی تھی جو کبھی سرد نہیں پڑنے والی تھی اور مومنین کو بے تاب رکھتی ہے۔ جب آپ کی قبر کو سطح زمین سے ملادیا گیا تو زائرین کربلا مٹی کی خوشبو سے قبر کا پتہ لگا لیتے اور یوں زیارت سے شرف باریاب ہوتے۔
زیارت کا سلسلہ تو کبھی منقطع نہیں ہوا۔ ہاں! وقتی طور پر وقفہ ضرور ہوچلا تھا۔ تاریخی معلومات کی بنیاد پر شیخ انصاری کے دور حیات میں بھی پیادہ روی (مشی)موجود تھی اور کچھ وقفہ کے لئے زمانہ کی ستم ظریفی حائل ہوگئی تھی لیکن شیخ میرزا حسین نوری طبرسی نے دوبارہ اس میں روح ڈال دی۔ آپ نے پہلے بار عید قربان پر نجف سے کربلا کا سفر کیا۔ تین روزمیں راہ کی مسافت طے کی۔ آپ کے ساتھ تقریبا تیس لوگ تھے۔اس کے بعد آپ ہر برس اباعبداللہ کی زیارت کو جاتے رہے۔آپ ۱۳۹۱ھ بمطابق ۱۹۰۱ء میں آخری دفعہ امام حسین علیہ السلام کے حرم کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
(Staff writers. "The background of Arba'een rally/The importance of Najaf-Karbala rally from scholar's viewpoint")
اس کے بعد پھر تو عزاداروں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہوگیا مگر صدام کے دور اقتدار میں پیدل سفر(مشی) کی آزادی نہ تھی پھربھی جانے والے مخفی طور جاتے رہے۔ سن ۲۰۰۳ سےحالات بہتری کی جانب گامزن ہوگئےاور اس روحانی سفر میں تازگی آتی چلی گئی ۔
(Staff writers (14 December 2014). "Shia pilgrims flock to Karbala for Arbaeen climax")
اطلاعات کی بنیاد سنہ ۲۰۱۳ میں ۴۰ ممالک سے دوکروڑحضرات کی آمد کو درج کیا گیا ہے۔
(Dearden, Lizzie (25 November 2014). "One of the world's biggest and most dangerous pilgrimages is underway")
الخوئی فاونڈیشن نے سنہ ۲۰۱۴ میں دوکروڑ بیس لاکھ زائرین کربلا کی آمد کو بتایا ہے۔
(Iraq prepares for biggest shia-muslims arbaeen gathering in history, www.alaraby.co.uk)
عراقی میڈیا نے اگلے برس سنہ ۲۰۱۵ میں دو کروڑ بیس لاکھ زائرین کے حضور کو بتا یا ہے۔
(Sim, David. "Arbaeen: World's largest annual pilgrimage as millions of Shia Muslims gather in Karbala)
اطلاعات کے مطابق سنہ ۲۰۱۶ میں تین کروڑ یا اس سے زیادہ کی تعداد کو بتا یا گیا ہے۔
("Arbaeen: a spiritual walk")
اگلے دوبرسوں کی تعداد میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔مگر مصدقہ اخبار نہ ملنے کے سبب اسے صفحہ قرطاس پر نہ لانے کو بہتر سمجھا گیا جو باتیں سوشل میڈیا:فیس بک، وہاٹس ایپ اور یوٹیوب وغیرہ سے معلوم ہوئی ہیں، ان میں سنہ ۲۰۱۷ میں چار کروڑ اور سنہ ۲۰۱۸ میں پانچ کروڑ کی تعداد کو بتایا کیا گیاہے۔ اس سے تخمینہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان دو برسوں کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔پچھلے برسوں سے کہیں زیادہ امسال ہندوستانی زائرین کو صاف طور پر مشاہدہ کیا گیا ہے اور آئندہ برسوں میں بھی امید افزا حالات کی توقع کی جارہی ہے۔
یہ دنیا کا سب سے عظیم اور پر امن اجتماع ہے۔ ہندوستان کے کمبھ میلہ میں بھی ایک بہت بڑی تعداد آتی ہے مگر وہ ۱۲ سال میں محض ایک بار لگایا جاتاہے جبکہ اربعین کی یاد ہر سال منائی جاتی ہے۔ جہاں ملک و مذہب سے پرے مختلف ممالک اور مذاہب کے لوگ آتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں امام حسین علیہ السلام کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ یہ حسین کا در ہے، یہاں رنگ و نسل کی اونچ نیچ اور نہ ہی مسلکی بھید بھاؤ ہے۔ یہاں سب برابر ہیں۔ سب امام حسین علیہ السلام کے خادم ہیں ۔ یہاں سرحدی بندشیں نہیں، یہاں تو سبھی ایک پرچم کے تلے جمع ہیں۔۔۔ حسینیت کے پرچم تلے!یہ امام حسین علیہ السلام کےدر کا طرہ امتیاز ہے کہ یہاں جو ہاتھ جوڑ کر آتا ہے وہ حربن کر جاتا ہے اور یہیں سے راہب کی مرادیں بھی پوری ہوئی ہیں۔ حسین علیہ السلام کسی ایک قوم کی جاگیر نہیں بلکہ ہر حریت پسند اور زندہ دل کے راہنما ہیں۔
اربعین کی مقبولیت کے باعث ایران عراق کے روابط میں مزید استحکام کو ملاحظہ کیا جارہا ہے۔ساتھ ہی’الحسین یوحدنا‘ اور’حب الحسین یجمعنا‘جیسے حسینی نقوش بھی سرعت رفتار سے عالمی پیمانے پرلوگوں کو متحد کرنے لگے ہیں۔ اربعین کی بڑھتی مقبولیت نے دشمن پر کاری ضرب لگائی ہے جس کے باعث وہ تیزی سے زوال کی جانب بڑھ رہا ہے اور یوں سکوں کی جھنک کے پیچھے کا گھناؤنا چہرہ بھی واضح ہوتا جارہا ہے۔کربلا میں اس عالی شان مذہبی سنگم نے عالمی برادری پر گہرے نقوش مرتب کئے ہیں جبھی تو مفاد پرست میڈیا اپنی نگاہوں پر سیاہ پردے ڈالے پھر رہا ہے۔ لمحہ لمحہ کی خبریں اپ ڈیٹ کرنے والا سوشل میڈیا اربعین حسینی کے خلاف زہر اگل رہا ہے اور اشتعال انگیری کی دھار کو تیز کرنے کی سر توڑ کوشش میں محو ہوگیا ہے ۔ یہ عظیم المقدار دشمن کی مایوسی کا دن ثابت ہوا جا تاہے لہٰذا دشمن نے زائرین کی آڑ میں جگہ جگہ اپنے ہرکارے پھیلادیئے ہیں جو آپسی انتشار،باہمی کشیدگی اور فرقہ وارانہ صف بندی قائم کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ اس لیے ہمیں بیدار رہنے کی شدید ضرورت ہے، ان کی یہ گھناؤنی سازشیں خود ان کے سر جائیں گی کیوں کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا نے فرمایا ہے: اے یزید!تو چاہے جتنی بھی عیاریاں اور چالیں چل لے مگر ہمارے ذکر کو ہرگز نہیں مٹا سکتا۔ یزید ہو یا یزید زادے ذکر حسین کو ہر گز نہیں مٹا سکتے۔