یہ اثبات کا رسالہ ہے ،
اشعر نجمی نے ممبئی سے نکالا ہے ، مدیر نے اِس کو محبت سے سنبھالا ہے اورہم نے بالاخر پڑھ ڈالا ہے ، بہت دِنوں سے وقت نکال رہے تھے، جی کو اِس کی قرات پہ للچا رہے تھے ۔ آخر پچھلے تین دن لگا کر یہ قصہ تمام کیا ، بھئی ایک بات تو ماننا پڑے گی ، اشعر نجمی باوجود اپنی بکھری ہوئی طبعیت کے، رسالے کا اچھا ناظم ہے ، اِس وقت پاک و ہند میں کل ملا کر اچھے رسالوں کی تعداد 4 رہ گئی ہے۔ اگرچہ یہ پانچ ہونی چاہیے کہ 4 کا ہندسہ قدرے منحوس ہے مگر کیا کیا جائے کہ سینکڑوں سال سے ہم پر 4 ہی مسلط ہے ۔ پاکستان میں آصف فرخی کا "دنیا زاد" فوت ہو چکا ، اجمل کا "آج" تعداد کے اعتبار سے حنوط کی کیفیت میں ہے ، رہ گیا "نقاط " تو وہ سال میں ایک آتا ہے ۔ اب رسالے کا سہارا یا تو آپ ہیں ،یا عمر فرحت نے تفہیم کی زنبیل سے متواتر پانی کی سبیل نکالی ہے ۔
اب آتے ہیں آپ کے اِس تازہ شمارے کے مندرجات کی طرف، تو بھائی پہلے آپ کی گرین ٹی کا اداریہ آتا ہے ، واللہ مجھے تو آپ سراسر افسانہ نگار لگتے ہیں ،اور وہ بھی ایسے کہ لفظوں کو موضوع کی طرف طمانچے مارتے لیے جاتے ہیں ۔ قاری یوں سمجھتا ہے کہ ذرا قرات سے رُکا تو وہی طمانچہ اُسے لگے گا ۔ بھئی رسالے میں اگر مدیر اداریہ ڈھنگ سے اور تجسس سے نہ لکھ سکے تو سمجھو مدیر کی ادارت ہمارے مُلک کی سیاست ہے ،جسے جرنیلوں کی ہانک چلاتی ہے ، اِدھر ہانک ختم ہوئی اُدھر سیاست سلب ہوئی ۔
اداریے کے فوری بعد بے پناہ شادمانی کی ممکت کا ترجمہ ہے اور اُس پر گفتگو ہے ،یہ ارون دھتی رائے کا ناول ہے ۔ واللہ ، ارجمند آرا کے علاوہ اِس پر جن دو صاحبوں نے تحریرفرما کر تمسخر چڑھایا ہے اُس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آیا ہے ، کہ ایک آدمی نے اچھی کھیر بنا کر پلیٹ میں ڈالی ، جب کھانے کے لیے بیٹھا تو اُڑتے ہوئے پرندے نے بیٹ کر دی جو سیدھی کھیر میں آ گری ، وہ حیران کہ اب کیا کروں ؟ کھاوں نہ کھاوں ؟ آخر اپنی اُنگلی سے اُسے ہلایا اور ڈیک گیا ، کہ جانے پھر کبھی کھانے کا موقع ملے نہ ملے ۔ آصف فرخی اور محمود الحسن نے جو ناول پہ تبصرہ کیا ہے ، اُس میں سے محمود نے تو کہا لیجیے پہلے ہمارا اونٹ دیکھو یعنی محمد سلیم الرحمن کا نام کہیں بیچ میں ضرور آئے کہ چلو اُس طرح نہیں تو اِس طرح قدو قامت بڑی ہو گی ۔ آصف صاحب کے مضمون کو سوائے اِس کے کیا کہوں کہ وہ بھی پہلے اسلم فرخی پھر انتظار حسین کے بعد باولے باولے سے ہو گئے ہیں ۔ البتہ ارجمند آرا نے ناول پر اچھی بحث کی ہے ، سچ بتاوں تو ناول میں نے خود نہیں پڑھا تھا ، جتنا اِس رسالے میں ہے اتنا ضرور پڑھا ہے اور مجھے کچھ پراپیگنڈا لگ رہا ہے ، روانی بھی کوئی زیادہ کام نہیں کر رہی البتہ ترجمہ ارجمند آرا نے کمال ہنرمندی سے انجام دیا ۔
ثروت حسین کی غزلیں اچھی ہیں ، مگر پاکستان میں آج بہت ایسے نوجوان موجود ہیں جو اِس صاحب سے زیادہ اچھی اور ہنر مندی میں اِس سے بہتر اور موضوع میں اِسی طرح کی غزلیں کہہ رہے ہیں ، اُن کے متعلق کوئی خاص بات کہنے والی نہیں ہے البتہ محمد خالد انور کی نظمیں واقعی اچھوتے لب و لہجہ اور فکری جمود کے زخمِ کہنہ پر نمک پاشی کرتی ہیں ۔
فرنود عالم کا مضمون اور حسنین جمال کے تحریری خاکے اور شُذرے ایسے ہیں کہ اللہ اللہ ۔ پاکستان میں یہ دونوں صاحبان نثر کے حاکمان ہیں اور" ہم سب" ایک ویب سائٹ ہے ،اُس کے مستقل باورچی ہیں اور حلوہ اچھا بناتے ہیں ۔ فرنود عالم کو ذرا نواز شریف ہو گیا ہے مگر حسنین بھائی ابھی تک بھوت پریت سے پاک ہے ۔ دونوں مجھ پر کافی سے زیادہ مہربان ہیں، ایک لاہور میں دوسرا اسلام آباد میں براجمان ہے ۔ ناول پر صلاح الدین درویش کا مضمون کم از کم سمجھ میں تو آتا ہے ، اور اُس سے اُوپر والے کو اُوپر والا پوچھے گا ،جس نے آیات کا کوئی قافیہ نہیں چھوڑا ، یعنی ساختیات ، نو آبادیات ، ما بعدیات ،وغیرہ ۔ اب تو ہم نے اُن کی چیزیں ہی پڑھنا چھوڑ دی ہیں کہ یہاں سے کچھ برآمد ہونے والا نہیں سوائے لایعنیات کے۔ میرے بھائی اشعر نجمی صاحب آپ کا فاروقی صاحب کے جواب میں مضمون اصل میں کوسنے زیادہ ہو گئے ہیں، مضمون کم پڑ گیا ہے ۔ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اُن کے جواب میں واقعات کی مثالیں نہیں دی جاتیں ۔ فقط تھیوری ہی اچھی لگتی ہے ۔ باقی آپ سمجھ دار ہیں ۔
ایک بات اِس میں اورکہہ دوں کہ اِس بار ادب سے زیادہ سیاسی ہو گیا آپ کا رسالہ، مگر پھر بھی بہت مزا آیا پڑھنے میں ۔ ایک اور بات لکھنا چاہوں گا اور وہ آپ کی بجائے روف کلاسرا صاحب سے عرض ہے ،کہ وہ پاکسان میں اثبات رسالے کی نائب ادارت سنبھال لیں ۔ مانا کہ صحافی اچھے ہیں مگر ادب کےقاری بھی اچھے ہیں اگرچہ اُنھوں نے ہمارا ناول ابھی تک نہیں پڑھا۔ اگر وہ یہی اثبات پاکستان میں چھاپ دیا کریں تو مرے ہوئے کئی رسالوں کی جگہ یہ ایک زندہ رسالہ لے سکتا ہے ۔ کلاسرا صاحب آپ تو جانتے ہیں صحافت کی عزت آپ کے میریوں صافیوں ، جاویدچوہدریوں اور انصار عباسیوں وغیرہ نے نیلام کر دی ہے ۔ چنانچہ صحافت پیشہ آپ روٹی روزی کے لیے اختیار کیے رکھیں مگر عزت کے لیے جینوئن ادب میں آ جائیں ۔ رسالے کا آن لائن لنک بھی مَیں نے ساتھ دے دیا ہے ۔
http://www.esbaat.com/2018/05/blog-post.html
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔