پرانے زمانے کے انسان کو زمین چپٹی اور ساکن نظرآتی تھی، اسی کو ہی مذاہب نے اپنا لیا۔ ساحرلدھیانوی نے کہا تھا، کہ مذہب/ادیان روایات پر تقدیس کا ٹھپہ ہیں۔ دیوتا، خدا، اللہ جو بھی نام ہو، کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا تھا۔ ان سے بھی قدیم انسان نے زمین کے بارے کہا، کہ گائے نے سینگوں اور کچھوے نے اپنی پیٹھ پرزمین کو اٹھا رکھا ہے۔ حد یہاں تک ہے کہ 1863 میں سرسید جیسا ریشنل بھی زمین کو ساکن تصور کرتا تھا۔ 'چونکہ یونانی حکیموں نے بھی ایسا مانا تھا'۔ جب کہ سرسید سے 8 سو سال پہلے البرونی زمین کے ساکن ہونے پراپنے شکوک کا اظہارکرچکا تھا۔ یاد رہے کہ 'علمائے دین ' نے البیرونی کو بھی مرتد قرار دیا تھا۔ ازمنہ قدیم میں کائنات کی اصل تفہیم کے اشارے مل رہے تھے، فیثا غورث اور کچھ دیگر فلاسفر و حکیم 500 سال قبل مسیح زمین کی حرکت ، چاند سورج گرہن اور مدو جزر کی حقیقت سے آگاہ ہوچکے تھے۔ جب زمین ساکن ٹھہری تو مسیحی نبیوں نے اسے کائنات کا مرکز بھی ٹھہرا دیا۔ مذہب کے لئے سائنس کو ماننا بڑا مشکل رہا ہے۔ مذہب سادہ دماغ بیانئے سے بنا ہوتا ہے۔ اور سادہ دماغ ( Ignorant)' امتیوں' پراس کی حکومت ہوتی ہے۔
مسیحی علمائے دین نے " عقل لڑائی" اور بائبیل کے حساب سے آدم اور زمین کی تخلیق 23 اکتوبر صبح نو بجے 4004 قبل مسیح تخلیق ہوئی تھی۔ جس کی رو سے خدا نے کائنات کو 6 دن میں بنایا۔ یہ مذہبی ایمان اس قدر پختہ تھا، کہ عیسائیت کے بعد یہی تصور اسلام میں بھی موجود ہے۔۔۔ مقدس کتاب میں 6 دن میں بنانے کا متعدد بار زکر ہے۔۔۔۔۔۔۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کائنات اور ہماری زمین اربوں سالوں کے ارتقائی مراحل سے بنے۔۔۔ اسی طرح سات آسمانوں کا قدیم تصور بھی ہمارے مذہب کا حصہ ہے۔۔۔۔ جب کہ سات کیا ایک بھی آسمان نام کی چیز خلا میں موجود نہیں۔۔۔ جب تک سائنس کا غلبہ نہیں تھا، اور اسے آج کی طرح قبولیت عامہ میسر نہ تھی۔ '6 دن ' چھ دن ہی تھے، آسمان بھی سات ہی تھے۔۔ چھتوں کی مانند۔۔۔۔۔۔ لیکن سائنس کی بتائی حقیقتوں سے جب انکار اب ناممکن ہوچکا ہے۔۔ تو علمائے دین نے ان 6 دنوں کو کھیچ کر لمبا کردیا۔۔ کیونکہ ایک دوسرے مقدس متن میں کہا گیا۔۔ کہ 'ہمارا ایک دن تمھارے ہزار برس کے برابر ہے' ۔۔ اگرچہ بات اس میں نہیں بنتی۔۔ لیکن چلیں کچھ 'عزت' رہ جاتی ہے۔۔
یہ تو کوپر نیکس اور گلیلیو کا بھلا ہو۔۔۔۔ کہ انہوں نے آج سے 400 سال پہلے ان قدامت پرستانہ نظریات کو ثبوتوں کے ساتھ رد کردیا۔۔۔۔ اور انسانیت کی ان دیومالائی کہانیوں سے جان چھوٹی۔۔۔۔ لیکن اس کا بھی اطلاق ترقی یافتہ قوموں اور جدید تعلیم کے حامل سیکولر سوچ والوں پر ہی ہوتا ہے۔۔ ہمارا مذہبی طبقہ ابھی بھی وہی پھنسا ہوا ہے۔۔۔ اور عام لوگوں کو قدیم تصورات پیش کرکے گمراہ کرتا رہتا ہے۔۔
“