ساتھ لگی پہلی تصویر شکاگو کی ہے جس کے درمیان سے گزرنے والے دریا کا پانی سبز ہے۔ اس کو فلوروسین نام کی ڈائی ڈال کر خود سبز کیا گیا ہے۔ لیکن آخر کیوں؟ اس کے لئے پہلے آلو کی تاریخ۔
آلو گوشت، آلو کی بھجیا، آلو کا پراٹھا، آلو کے چِپس، آلو مٹر، کہیں نہ کہیں تو آپ کا آلو سے واسطہ پڑا ہی ہو گا اور شاید روز ہی پڑتا ہو۔ غذائیت سے بھرپور اس سبزی کا دنیا کی تاریخ بنانے میں بڑا ہاتھ ہے۔ جنگلی آلو کی ڈیڑھ سو سے زائد انواع ہیں جو جنوبی امریکہ میں پائی جاتی ہے۔ آج سے آٹھ ہزار سال قبل کوہِ اینڈیز میں (جہاں آج پیرو ہے) اِنکا تہذیب نے اس کو سدھایا۔ یہ بڑی آبادی کو سپورٹ کر سکنے والی سبزی تھی اور جنوبی امریکہ کی قدیم تہذیبوں کے عروج میں اس کا کردار ہے۔
جنوبی امریکہ میں ہسپانوی حملے کے بعد جب ہسپانویوں نے جنوبی امریکہ سے چاندی کے بڑے ذخائر پر قبضہ کر کے ان کو یورپ بھیجا تو ساتھ دوسری کئی چیزوں کے ساتھ آلو بھی 1570 میں یورپ پہنچ گئے۔ شروع یورپ میں اسی دوسری تہذیب کی علامت ایک بدذائقہ شے کے طور پر دیکھا گیا اور اسے آرائشی پودوں کے طور پر استعمال کیا جاتا۔ لیکن اگلی دو صدیوں میں آلو آہستہ آہستہ یورپ میں پھیل گیا۔ اسے غریبوں کی غذا سمجھا جاتا لیکن اس کی پیداوار کا مطلب یہ نکلا غلے کے قحط کے ادوار سے بچاؤ ممکن ہوا۔ فوڈ سیکورٹی کا نتیجہ بڑھتی آبادی کی صورت میں نکلا۔ برطانوی، جرمن اور ولندیزی سلطنتوں میں بڑھتی مڈل کلاس نے ان تہذیبوں کو بڑھنے میں مدد کی۔ آئرلینڈ کی آبادی جو 1590 میں دس لاکھ تھی، 1845 میں بڑھ کر اسی لاکھ ہو چکی تھی اور پھر ایک آفت نے آن لیا۔
آئرلینڈ کا غذائی انحصار اب زیادہ تر آلو پر ہی تھا اور اس کی صرف ایک ورائٹی کاشت ہوتی تھی۔ اگلے سات برس تک آلو کی ایک بیماری نے اس کی فصلیں تباہ کر دیں۔ یہ آلوؤں کا قحط تھا جو دنیا کی تاریخ کے بدترین قحط میں سے ایک ہے۔ دس لاکھ لوگ بھوک سے مر گئے۔ بیس لاکھ سے زیادہ لوگ اس بھوک کی وجہ سے اپنے گھربار چھوڑ کر دنیا کے دوسرے حصوں میں چلے گئے جس میں امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا شامل تھے۔ ان برسوں میں بڑی تعداد میں آئرلینڈ سے تارکینِ وطن کے آنے کا مطلب یہ نکلا کہ اس وقت کے امریکہ کی سفید فام آبادی میں بڑی تعداد ان کی ہے۔
برِصغیر میں آلو میں یورپ سے آیا۔ بنگال میں اس کی کاشت پہلے شروع ہوئی۔ پاکستان بننے کے وقت موجودہ پاکستان کے علاقے میں اس کی پیداوار بڑے پیمانے پر نہیں ہوتی تھی اور یہ صرف تیس ہزار ٹن تھی۔ ساتھ لگا گراف یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے آبادی 1961 سے لے کر آج تک چار گنا ہو چکی ہے اور آلو کی پیداوار میں اس عرصے میں 30 گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں آبادی کو خوراک پہنچانا آلو کے بغیر شاید ناممکن ہوتا۔
خلا میں تجرباتی طور پر اگائی جانے والی سبزی آلو تھی جس کو کوانٹم ٹیوبرز کا نام دیا گیا۔ انسانی آبادی کو زمین سے باہر رہنے کے قابل کرنے کے لئے یہ تجربوں کے سلسلوں کی کڑی میں سے ایک تھا۔ اس کی تفصیل نیچے دئے گئے لنک سے۔
اب واپس اصل سوال پر کہ دریا سبز کیوں ہے؟ جب مختلف تہذیبیں ملتی ہیں تو ایک دوسرے سے کئی چیزوں کا اثر لیتی ہیں۔ آئرلینڈ کا تہوار سینٹ پیٹرک ڈے ہے جو 17 مارچ کو منایا جاتا ہے اور سبز رنگ اس تہوار کی نشانی ہے۔ آئرلینڈ سے ڈیڑھ سو سال قبل بڑی تعداد میں آئے ہوئے تارکین وطن کا مطلب یہ کہ اب شکاگو میں اس دن اس دریا کو ہر سال سبز کرنے کی روایت چل نکلی (یہ تصویر اس سال کی ہے)۔ ان چند برسوں میں آنے والے لوگوں کی نسلوں میں رونالڈ ریگن، جان ایف کینیڈی سمیت کئی اہم امریکی شہری شامل ہیں۔
اس دریا کے سبز ہونے، ریگن کی صدارت، صنعتی انقلاب، پاکستان کی آبادی کو غذا کی فراہمی اور قدیم اِنکا تہذیب اور خلا میں خوراک اگانے کے تجربے میں جو چیز مشترک ہے، وہ دنیا میں سب سے زیادہ کھائی جانے والی سبزی آلو ہے۔
ساتھ لگی پہلی تصویر دریائے شکاگو کی
دوسری تصویر تاریخ کے ان ادوار کی جب آلو دنیا میں پھیلا
تیسری تصویر پاکستان میں آلو کی پیداور کا گراف
دریا کو سبز کرنے کی ویڈیو