میں نے جب سے حسیبہ نامی بچی کی گفتگو سنی ہے،میرا تو یہ حال ہے کہ یہ دکھڑا سنا نہیں جاتا، یہ درد سہا نہیں جاتا۔۔۔۔
کہتے ہیں جہاں آگ لگی ہو جگہ وہی جلتی ہے۔باقی سب تپش کو دور سے محسوس ہی کر سکتے ہیں۔حسیبہ کی وڈیو دیکھ کر میری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہوئی ہے کہ اس بچی کا رونا دیکھا نہیں جاتا۔جن ماؤں بہنوں کے سینوں میں اپنے جگر کے ٹکڑوں کی جبری گمشدگی کے سبب الاؤ جلتے ہوں،ان کا کیا حال ہوگا۔اس تصور کو ڈہن میں لایا جائے تو عجب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔حسیبہ قمبرانی کی رقت آمیز باتیں سنتے ہی دکھ کا ایک تلاطم دل کے اندر موجزن ہو جاتا ہے۔ وقفے وقفے سے آنکھوں میں نمی سی آجاتی ہے۔گیلی پلکوں کو جھپک کر حوصلہ مجتمع کرتا ہوں اور پھر تازہ دم ہوگر حسیبہ کی گفتگو سننے کی جسارت کر لیتا ہوں۔سچ پوچھو تو مجھے اس بچی کا ہر لفظ ہر جملہ توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔
حسیبہ کی دہائی یہ ہے کہ، وہ اس ملک کی شہری ہے۔اسی ریاست کی مسلمان بچی ہے۔ مگر پھر سوچتا ہوں یہ ریاست آخر کیوں ڈائن کی طرح اپنے بچوں کو دھیرے دھیرے نگل رہی ہے۔یہ کیسی ماں ہے جس کی گود سے اس کے بچے اٹھا لیے جاتے ہیں اور ماں ٹوٹ پھوٹ نہیں جاتی۔حسیبہ کا کہنا ہے کہ اسے بار بار کیوں باور کرانا پڑ رہا ہے کہ وہ اس ملک کے آئین اور قانون کو مانتی ہے،پھر بھی اس کی ذرا نہیں سنی جاتی۔
حسیبہ کی ریاست،آئین اور قانون سے متعلق باتیں سن کر میرے ذہن میں مسلسل یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ جب بچی نے آئین اور قانون کی پاسداری کی بات کی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ آخر خرابی کہاں پر ہے؟
خرابی یہ ہے کہ گوادر پورے ملک کے لیے گیم چینجر ہے مگر اس کے زمین زادے اب بھی بھوگے ننگے پیاسے ہیں۔ وہ اب بھی ماہی گیری سے ہی اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔وہاں کی عورتیں اب بھی دور دراز سے پینے کا پانی بھر کر لاتی ہیں۔جہاں انسان اور جانور ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے ہیں۔جہاں پڑھے لکھے نوجوانوں کو نقص امن کا بہانہ گھڑ کر پورٹ کے ثمرات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ریگودک ہو یا سیندگ،وہاں بھی کام کرتے بلوچوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔سوئی گیس پاکستان کے کونے کونے تک جاتی ہے مگر آدھے سے زائد بلوچستان اب بھی اس بنیادی سہولت سے محروم ہے۔یہاں تک کہ بلوچستان کے عوام کو اپنی مرضی کے ساتھ، اپنے نمائندے بھی منتخب کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ بھی بلوچوں پر اکثر تھونپے ہی جاتے ہیں۔تو صاحب ایسا نہیں کہ بلوچ کوئی پیدائشی باغی ہیں یا ماں کے پیٹ سے ہی آئین اور قانون سے منحرف پیدا ہوتے ہیں۔اصل معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنا حق مانگتے ہیں اور دہشت گردی یا غداری کا لیبل لگا کر اٹھا لیے جاتے ہیں۔
حسیبہ نامی بچی اور دیگر ماؤں کا دکھ بھی یہی ہے کہ ان کے بچے اور بھائی محض حقوق مانگنے کی پاداش میں لاپتہ ہوئے ہیں۔یہی دکھ لیے وہ بچی ہر جگہ کہتی پھرتی ہے کہ وہ پاکستانی ہے، مسلمان ہے، اس پر ترس کھایا جائے، اس کے بھائیوں کو بازیاب کرایا جائے یا عدالتوں میں پیش کیا جائے۔مگر افسوس گونگے بہرے حاکموں کو اونچا سنائی دیتا ہے۔وہاں کوئی نہیں جو اس بچی اور دیگر ماؤں کا حال سنے، ان کے درد کو سمجھے،ان کی گیلی پلکوں پر ہی ترس کھائے،کوئی نہیں ہے۔
اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، کوئی ہو جو حبیب جالب کی طرح وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھے،عام پنجابی کو ہی سہی،جھنجھوڑ کر جگائے اور اسی انداز میں چلا کر کہے: "جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا" مگر افسوس اب تک وہاں قبرستان جیسی خاموشی ہے۔
اے شہر اقتدار کے گونگے بہرے، بے حس اور بے حمیت حکمرانوں، ذرا سنو! اس انسانی المیے پر دھیان دو۔ بلوچستان سے لاپتہ افراد اور اپنے بھائیوں کی بازیابی کی فریاد لیے اسلام آباد آئی یہ بچی تم سے مخاطب ہے۔
ویڈیو لنک