کہتے ہیں ایک سکھ کو شراب کی پہچان کا بڑا دعویٰ تھا۔ایک بار اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس کوشراب پیش کی گئی تو اس نےفوری شراب کے برانڈ کا نام بتا دیا۔یہ تجربہ مختلف برانڈ پیش کرکے کیا گیا ہر بار سکھ کا جواب درست ہوتا تھا۔کسی ستم ظریف نے بہت سی شرابیں مکس کرکےایک گلاس دیا تو سکھ بار بار شراب کا گھونٹ بھرتا اور سوچ میں پڑجاتا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ شراب کا کون سا برانڈ ہے۔جب کافی دیر ہوگئی تو سکھ نے آنکھوں پر بندھی پٹی کھول دی اور شکست خوردہ لہجے میں کہا کہ یہ تو پتہ نہیں ہے کہ یہ شراب کون سی کمپنی کی ہے مگر ایک بات واضح ہے کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔
یہی کچھ معروف سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے ساتھ ہوا۔جب تمام تر صحافتی تجربے اور سوجھ بوجھ کے باوجود سہیل وڑائچ موجودہ تبدیلی سرکار کی ہیئت ، کیمسڑی ، تانے بانے کو نہیں سمجھ سکے تو تھک ہار کرانہوں نے اپنے شائع شدہ کالموں کی کتاب کا نام ہی یہی رکھ دیا کہ کمپنی نہیں چلے گی۔یہاں تو آدھا سچ بولنے پر لوگ جان کے درپے ہوجاتے ہیں اب پورا سچ کس سے برداشت ہوتا تھا لہذا کتاب مارکیٹ سے غائب کردی گئی۔مدعا یہ نکلا کہ کتاب کا سرورق قابل اعتراض ہے ۔اس اعتراض نے سہیل وڑائچ کو منٹو کی صف میں کھڑا کردیا۔وڑائچ صاحب بھی دل میں خوش ہوں گے کہ چلو کچھ تو ایسا ہوگیا ان سے جو قابل اعتراض ہے۔اب سہیل وڑائچ جیسی مشہور ومعروف شخصیت کو شہرت کی طلب تو ہر گز نہیں ہوسکتی تاہم بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نا ہوگا والی بات ان پرصادق آہی گئی۔
مفاہمت کے بادشاہ سابق صدر آصف زرداری سےکسی نے پوچھا کہ حکومت کب تک چلے گی تو انہوں نے الٹا سوال ہی پوچھ لیا کہ کیا حکومت چل رہی ہے۔اب آصف علی زرداری کے سوال کا جواب کون دے ۔ویسے اس سوال کا جواب بھی یہی تھا کہ کمپنی کی حکومت نہیں چل رہی ۔اور جوکچھ ہورہا ہے وہ حکومت نہیں کچھ اور ہی ہے ۔ایک ایسا نیا تجربہ ہے جس کی نشاندہی ڈاکٹر عائشہ صدیقہ اپنی کتاب میں کرچکی ہیں کہ طاقتور حلقوں نے براہ راست حکومت کی بجائے درپردہ رہ کر حکومت کرنے کو ترجیح دی ہے اور اس حکمرانی کا چہرہ سیاسی رکھا ہے۔مگر یہ تجربہ بھی ناکام ہوچکا ہے ۔سادہ الفاظ میں یہ کمپنی نہیں چل سکی۔
ایک عام آدمی کا سوال توبنتا ہے کہ ملک کی سیاسی اشرافیہ پر کرپشن کے الزامات لگا کر جب 62اور63 پر پورا اترنے والی صادق و امین سیاسی قیادت کو اقتدار سونپا گیا ، جب کرپشن کےسارے دروازے بند کردئیے گئے ،جب عیاشیوں کے تمام خفیہ فنڈز بند کردئیے گئے ،جب وزیراعظم ہاوس کی گائے بھینسوں اور گاڑیوں کو برسرعام نیلام کردیا گیا،جب ککس بیک کی خاطر شروع ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کا سلسلہ روک کر ضروری اور ناگزیر منصوبے شروع کیئے گئے ، جب صفحہ بھی ایک ہی تھا تو پھر ایسے میں کمپنی کیوں نہیں چل سکی ۔ایسی کیا وجہ تھی ایسی کون سی کمی تھی جس نے کسی خفیہ تھنک ٹینک کے اعلیٰ وارفع منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔حکومت پرفارم کرنے کی بجائے کہانیوں والا وہ کمبل کیوں بن گئی جس سے جان چھڑانا مشکل ہورہا ہے۔
ایک ایسی سرکار جس نے مغربی بارڈر پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے مشرقی بارڈر سے منہ موڑ لیا مقبوضہ کشمیر پر کڑوا گھونٹ بھرلیا۔پہلے بھی کہا تھا ایک بار پھر دہرا رہا ہوں کہ تبدیلی سرکار کو مقبوضہ کشمیر پر اپنائی گئی پالیسی پر جواب دینا ہوگا۔اور مغربی بارڈر پر بھرپورتوجہ دینے کے باوجود حالات سنبھل نہیں رہے ۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کابل کے پی سی ہوٹل میں بنائی گئی چائے کےکپ کی تصویر پر تنقید بلاجواز نہیں ہے پوری دنیا اور خاص طورپر امریکہ اور یورپ افغانستان میں ناکامی کا ملبہ ہم پر گرانا چاہتے ہیں ۔آئی ایم ایف اور فیٹیف کے زریعے دباو میں رکھ کر بہت کچھ منوانا چاہتے ہیں ۔کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو افغانستان کو سہارا دینےکےلیے تیار ہو۔افغانستان کا بحران آہستہ آہستہ ہم میں سرایت کررہا ہے۔اور ہم ہیں کہ سو جوتے اور سو پیاز کھا کر کالعدم کو قانونی بنا رہےہیں۔
بھان متی نے کنبہ جوڑا کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا کی طرح اس کنبے میں بھی پھوٹ پڑرہی ہے۔ایم کیو ایم اور ق لیگ ایسے نہیں بول رہی ہیں۔ان کی بھی سننی پڑے گی ان کی بھی ماننی پڑے گی اگر حکومت کرنی ہے تو۔اپوزیشن دوبارہ لانگ مارچ کےلیے کمربستہ ہورہی ہے۔قومی اسمبلی میں دو بلوں میں شکست کے بعد حکومت مشترکہ اجلاس سے راہ فرار اختیار کرچکی ہے۔ملکی تاریخ کے بھاری ترین قرضے لیئے جاچکے ہیں اور مزید لینے کی تیاری ہے۔اشیائے خورد ونوش عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں۔بجلی ،گیس اور پٹرول کی قیمتوں نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔نت نئے ٹیکسز کا چابک برس رہا ہے اور ہر پیٹھ لہولہان ہوتی جارہی ہے۔
پھر وہی بات کہ اس سب کے باوجود کیا یہ کمپنی چلے گی تو ہارون رشید کے مطابق کپتان کی ناکامی اظہر من الشمس ہے تو طے ہوگیا کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی ۔اب یہ حالات ٹھیک بھی کرنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ حالات ان کی دسترس سے باہر ہوچکے ہیں دوسرا یہ کہ یہ اس قابل ہی نہیں کیونکہ جوبہتر صورتحال کو نہیں سنبھال سکے وہ بگڑٰی ہوئی صورتحال کو کیسے ٹھیک کریں گے۔خواہشیں ، بیانات اور تقاریر سے حالات ٹھیک نہیں ہوتے ۔عملی اقدامات کرنے پڑتے ہیں مسائل کے حل کےلیے تگ و دو کرنی پڑتی ہے اور اس کے لیے لیڈر شپ کا ایک ویژن ہوتا ہے جو مسائل کا تعین کرتا ہے اور ان کو حل کرتا ہے۔دوسروں کے کندھوں پر سوار ہوکر کب تک حکومت کی جاسکتی ہے۔اب تو وہ کندھے بھی میسر نہیں رہے جن پر بیٹھ کر سارا میلہ دیکھا ۔اب وقت آگیا ہے کہ کھلے دل سے ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کمپنی کی ناکامی کو تسلیم کیا جائے اور بڑۓ دل کے ساتھ یہ اعلان کردیا جائے کہ یہ کمپنی اب مزید نہیں چلے گی ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...