میڈیکل سائنس کے شعبے میں ولیم ہاروے کی خدمات ہیں لیکن ان کے سائنسی ذہن نے ایک اور بہت اہم معاملے میں دنیا کو بدلنے میں کردار ادا کیا۔ ہم لوگ (نوعِ انسان) لاکھوں افراد کو ان کی زندگیوں سے محروم کر چکے ہیں، اس الزام میں کہ وہ جادوگر تھے۔ قدیم مصر اور میسوپیٹیمیا سے لے کر یورپ، امریکہ، افریقہ، برِصغیر اور لاطینی امریکہ تک یہ روایت نہ صرف عام معاشرے میں بلکہ قانون کا حصہ رہی۔ اس الزام پر سزا موت ہوتی تھی اور کئی بار یہ آسان موت بھی نہ تھی۔ ولیم ہاروے کو ان سب کہانیوں پر یقین نہیں تھا۔ انہوں نے تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
ایک جادوگری کا دعویٰ کرنے والی سے انہوں خود کو جادوگر ظاہر کر کے واقفیت بنائی۔ اس جادوگرنی کے پاس ایک مینڈک تھا اور اس کا دعوی تھا کہ یہ مینڈک اصل میں قابو کیا ہوا جِن ہے۔ جادوگرنی نے مینڈک جیسی آواز نکال کر اس کو دودھ پینے کے لئے بلایا۔ ہاروے نے بہانے سے جادوگرنی کو گھر سے باہر بھیجا۔ پیچھے سے اس مینڈک کا پکڑ کر آپریشن کر دیا۔ یہ بس ایک عام مینڈک ہی نکلا۔ واپس آ کر اپنے مینڈک کا حال دیکھ کر غصے میں بپھری جادوگرنی کو یہ کہہ کر ٹھنڈا کیا کہ اصل میں وہ جاسوس ہیں اور اگر یہ مینڈک ایسا نہ ہوتا تو آج کا دن گرفتاری کا ہوتا۔
اپنے کیرئیر میں جادوگری کے الزام میں گرفتار چار خواتین کی جان ان الزامات کا سائنسی جائزہ لے کر بچائی۔ اٹھارہویں صدی کے آخر تک یورپ سے ان قوانین کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ یورپ میں پندرہویں سے اٹھارہوں صدی تک جادوگری کے الزام میں قانونی طریقے سے سزائے موت پانے والوں کی تعداد پینتیس ہزار تھی۔
سکاٹ لینڈ میں جادوگری کے جرم میں آخری کیس 1727 میں جینٹ ہارن کا تھا۔ یہ ذہنی طور پر کچھ ٹھیک نہ رہی تھیں۔ ان کی بیٹی ہاتھ اور پاوٗں سے مفلوج تھی۔ ان پر ہمسائیوں نے الزام لگایا تھا کہ یہ بیٹی ایک گدھے میں بدل جاتی ہے اور جینٹ اس پر سواری کر کے شیطان سے ملنے جاتی ہیں۔ گاوٗں میں آنے والے مشکلات ان کی وجہ سے ہیں۔ ماں بیٹی دونوں کو سزائے موت ہوئی۔ جینٹ کو برہنہ کر کے جسم پر تارکول مل کر ایک پیپے میں ڈال کر شہر بھر میں گھمایا گیا اور پھر نذرِ آتش کر دیا گیا۔
یورپ کا آخری کیس 1782 میں سوئٹزرلینڈ کی گھریلو ملازملہ اینا گولڈی کا تھا۔ وہ جس کے گھر میں کام کرتی تھیں، اس نے ساحری کا الزام لگایا تھا۔ اینا فرار ہو گئیں تھیں۔ اشتہاری قرار پائیں۔ گرفتار ہوئیں۔ تشدد کے ذریعے ان سے اعتراف کروایا گیا کہ انہوں نے کالے کتے کے بہروپ میں آنے والے شیطان سے معاہدہ کیا ہے۔ بعد میں انہوں نے یہ اعتراف واپس لے لیا لیکن فیصلہ ہو چکا تھا۔ اڑتالیس سالہ اینا کا سر تلوار سے قلم کر دیا گیا تھا۔ اس سے 226 سال بعد 27 اگست 2008 کو سوئٹزرلینڈ کی پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد منظور کی کہ اینا گولڈی بے قصور تھیں۔ قصوروار سوئٹزرلینڈ تھا۔ جس عدالت نے یہ فیصلہ سنایا تھا، آج اس کی عمارت کے باہر اینا کی یادگار میں ایک کتبہ ان کی کہانی کے ساتھ نصب ہے۔
پاپوا نیوگنی نے 2013 میں اپنے قوانین میں ترمیم کر کے اس کو جرائم کی فہرست سے نکالا ہے۔ اب صرف دو ممالک، سعودی عرب اور کیمرون، بچے ہیں جہاں جادوگری اب بھی جرم ہے۔ قانون کی وجہ سے آخری سزائے موت سعودی عرب میں ایک خاتون آمنہ بنت عبدالحلیم ناصر کو 2011 میں دی گئی۔ دنیا کے کئی حصوں میں ابھی بھی لوگ اس الزام میں مشتعل ہجوموں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ صرف گیمبیا میں اس وجہ سے اکیسویں صدی میں ایک ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے کہ وہ قحط کی وجہ تھے۔ (یہ کام لوگوں کو سونگھ کر کیا گیا)،
دنیا میں جو افراد اس الزام میں مار دئے گے، وہ تھے جو کمزور تھے اور اپنا دفاع نہیں کر سکتے تھے۔ ان میں بڑی تعداد تنہا رہ جانے والی خواتین کی رہی ہے، ذہنی عدم توازن کا شکار ہونے والوں کی رہی ہے، ان بچوں کی رہی ہے جن کے والدین نہ تھے، اقلیتوں کی رہی ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کو بچانے کوئی نہیں آتا۔
سائنس سے ہمیں بس یہ پتا لگتا ہے کہ مینڈک تو بس مینڈک ہی ہوتا ہے۔ بیماریاں جراثیم سے پھیلتی ہیں۔ طلاق ان افراد کے درمیان ہوتی ہے جن میں ہم آہنگی نہ ہو سکے۔ سیلاب اس وقت آتے ہیں جب دریا بارش کا پانی نہ سنبھال سکیں۔ ہر شخص کے جسم کی بو کے پیچھے کوئی وجہ ہے۔ نفسیات ہمیں ان واقعات کی اصل وجہ سے آگاہ کرتی ہے۔ سوشل سائنس ہمیں مرنے والوں کی اصل غلطی سے۔
اس سے آگے سائنس بالکل خاموش رہتی ہے۔ یہ سائنس کا فیلڈ ہی نہیں۔
دسمبر 2011 میں الجزیرہ پر سعودی خاتون کی سزائے موت کی خبر