’’شرم کرو بے غیرتو! ڈوب مرو‘‘
میں نے چیختے ہوئے کہا۔ جی چاہتا تھا ان کے چہرے نوچ لوں۔ ان کے جسم ٹکڑے ٹکڑے کردوں۔ ان کے گلے گھونٹ ڈالوں۔ انہیں دوبارہ زندگی ملے۔ دوبارہ مار دوں۔ انہیں قیامت تک کے لیے نشانِ عبرت بنا دوں۔ لیکن بے شرمی کی حد یہ تھی کہ آٹھوں کے آٹھوں ہنس رہے تھے۔ پیلے گندے دانت نمایاں نظر آ رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے باقی سات کو مخاطب کیا اور کہا۔ ’’اوئے! یہ بھی وہی ہے‘‘۔ باقی سات نے میری طرف دیکھا۔ پھر ایک دوسرے کو دیکھا۔ یوں لگتا تھا آنکھوں ہی آنکھوں میں یہ بدبخت بہت کچھ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے۔ پھر سب نے مل کر قہقہہ لگایا۔ غلیظ قہقہہ‘ جو غنڈے‘ بدمعاش اور اوباش لگاتے ہیں۔ پھر سب نے بیک آواز کہا۔ ’’اوئے‘ یہ بھی وہی ہے‘‘۔
میرے ذہن میں فلم چلنے لگی۔ فلیش بیک۔ سِن اس وقت میرا چھوٹا تھا۔ گائوں کی گلیوں میں کھیلتا پھرتا تھا۔ دن کھیتوں کھلیانوں پہاڑیوں پر ہم جولیوں کے ساتھ گزرتا تھا اور رات کہانیاں سنتے سناتے۔ انہی دنوں گھر میں رشتے کی ایک دادی آئی ہوئی تھی۔ دادی کی رشتہ دار۔ ایک شام‘ جب جھٹپٹے کی ملگجی روشنی غائب ہو چکی تھی اور ستارے پوری چمک کو پہنچ کر اِترا رہے تھے‘ اس مہمان دادی نے کہانی سنائی۔ ایک تھا بادشاہ‘ اسے راتوں کو بھیس بدل کر لوگوں کی باتیں سننے میں مزہ آتا تھا۔ ایک رات جب وہ شہر کی گلیوں میں پھر رہا تھا‘ ایک دروازے کی درز سے روشنی دکھائی دی جو زیادہ ہوتی تھی پھر کم ہوتی تھی۔ اس نے جھانکا تو تین جوان لڑکیاں دیے کی روشنی میں چرخے کات رہی تھیں۔ ایک نے کہا… ’’یہ تو جا رہا ہے‘‘ دوسری نے کہا ’’اس میں وہ جو نہیں ہے‘‘۔ تیسری نے کہا… ’’ہوتا تو کیوں جاتا؟‘‘
بادشاہ جیسا بھی ہو‘ جہاں بھی ہو‘ جب بھی ہو‘ اُسے ہر بات میں اپنا اقتدار ڈولتا دکھائی دیتا ہے۔ جمعہ کے دن عید آ جائے تو خوف سے گھگھی بندھ جاتی ہے۔ دس آدمی ایک جگہ جمع ہوں تو گولی چلانے کا حکم دے دیتا ہے۔ پچاس سال کے لیے دولت جمع کر لے تو بے یقینی بڑھ جاتی ہے ،یہاں تک کہ چار نسلوں کے لیے جمع کرنے لگتا ہے۔ ملک میں ہزاروں ایکڑ کے محلات ہوں تب بھی بے گھر ہونے کی فکر رات کو سونے نہیں دیتی‘ پھر سمندر پار ٹھکانے بنانے لگتا ہے‘ یہ بادشاہ بھی ایسا ہی تھا۔ بالکل دوسرے سارے بادشاہوں کی طرح۔ اسے ان تینوں عورتوں کی گفتگو میں اپنے اقتدار کا خاتمہ صاف سنائی دیا۔ ’’یہ تو جا رہا ہے‘‘۔ ہو نہ ہو‘ یہ میرے بارے میں کہہ رہی ہیں!
صبح ہوئی تو ہرکارے آن پہنچے۔ تینوں گستاخ لڑکیوں کو تلواروں کے سائے میں دربار لایا گیا۔ بادشاہ نے پوچھا‘ رات کس کے بارے میں کہہ رہی تھیں کہ ’’یہ تو جا رہا ہے‘‘۔ تینوں لڑکیوں نے بادشاہ کی طرف دیکھا‘ پھر ایک دوسرے کو دیکھا۔ ایک نے کہا ’’یہ بھی وہی ہے‘‘۔ دوسری نے کہا ’’لیکن وہ تو نہیں ہیں‘‘ تیسری نے کہا ’’اُن کے بغیر بھی تو ہوتے ہیں‘‘۔ پھر تینوں نے مل کر زوردار قہقہہ لگایا۔ اتنا بے خوف اور اس قدر بلند کہ بھرے دربار پر وہ قہقہِ پتھر کی طرح گرا اور ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ اُن میں سے ایک نے کہا۔ ’’یہ جو میں نے کہا تھا کہ یہ تو جا رہا ہے‘ تو دیے کی لو بھڑک رہی تھی۔ روشنی کم ہوتی تھی، پھر زیادہ‘ مطلب یہ تھا کہ دیا بجھنے لگا ہے۔ میری دوسری سہیلی نے کہا ،اس میں تیل جو نہیں ہے۔ تیسری نے لقمہ دیا کہ تیل ہوتا تو بجھتا ہی کیوں‘‘۔ بادشاہ کو اطمینان نہ ہوا۔ پوچھا‘ اور یہ جو تم ابھی میرے سامنے کہہ رہی تھیں کہ یہ بھی وہی ہے۔ اس کا مطلب کیا تھا؟ لڑکیاں پھر ہنسیں۔ ہم بے وقوف مرد کو بیل کہتی ہیں۔ تمہاری باتیں سن کر ہمیں یقین ہو چکا تھا کہ تم بے وقوف ہو۔ ہم میں سے ایک نے کہا، یہ بھی وہی ہے۔ یعنی یہ بھی بیل ہی ہے۔ دوسری نے کہا ،لیکن اس کے سینگ تو نہیںہیں‘ تیسری نے یاد دلایا کہ بیل، روڈ مروڈے یعنی بغیر سینگوں کے بھی ہوتے ہیں۔
کہانی یاد آئی اور میں جھِلّا اُٹھا۔ بے غیرتو! تمہارے ماں باپ نے تمہیں ڈاکو بنایا۔ میرے بارے میں کیا بکواس کر رہے ہو‘ کیوں کہہ رہے ہو ’’اوئے یہ بھی وہی ہے؟‘‘ ان میں سے ایک نے‘ جو زیادہ معتبر تھا‘ مجھے مخاطب کیا… ’’تم بھی ان لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کی طرح عقل کے اندھے ہو جو صرف ہمیں ڈاکو سمجھتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم نے ایدھی سنٹر پر ڈاکہ ڈالا۔ عبدالستار ایدھی پر ریوالور تانا‘ پانچ کلو گرام سونا اور کروڑوں کی کرنسی لوٹی لیکن یہ کام کون نہیں کر رہا؟ ہم تمہیں اس لیے ڈاکو دکھائی دیتے ہیں کہ ہم نے قیمتی‘ ڈیزائنر‘ اعلیٰ برانڈوں کے سوٹ نہیں پہنے ہوئے‘ ریشمی نکٹائیاں نہیں لگائی ہوئیں‘ باس اور ارمانی کی قمیضیں نہیں پہنی ہوئیں‘ ہمارے پیروں میں چرچ کے جوتے نہیں‘ ہمارے دہانوں میں ایک ایک فٹ لمبے سگار ٹھنسے ہوئے نہیں‘ ہم لیموزینوں سے اتر کر ایدھی سنٹر نہیں گئے‘ ہمارے پیچھے ہمارے نوکر بریف کیس اٹھائے نہیں چل رہے تھے۔ یہی کام جو ہم نے کیا‘ اور ملک بھر سے پھٹکار اور لعنت سمیٹ رہے ہیں‘ یہی کام خوش لباس اور عالی مقام ڈاکو کر رہے ہیں لیکن تمہارے سمیت کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ عبدالستار ایدھی ایک بوڑھا شخص ہے‘ خادمِ خلق ہے‘ فرشتہ سیرت ہے‘ ہم نے ڈاکہ ڈالا‘ بُرا کیا۔ ہم واقعی لعنت کے مستحق ہیں‘ لیکن وہ جو ملک کے لاکھوں بوڑھوں‘ کروڑوں بیوائوں اور ہزاروں یتیموں کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین رہے ہیں‘ انہیں ڈاکو کیوں نہیں کہا جاتا۔ کل ہی کی بات ہے‘ بجلی تیس پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی ہے۔ یہ ڈاکہ ایکولائزیشن سرچارج کے نام سے ڈالا جا رہا ہے۔ یہ ڈاکو اس بھوکی ننگی سسکتی بلکتی کراہتی مرتی قوم سے‘ بوڑھوں کے جبڑوں سے‘ عورتوں کی مٹھیوں سے‘ بچوں کے دہانوں سے اس سرچارج کے نام پر چار ارب روپے نکالیں گے اور یہ ڈاکہ ایک بار نہیں‘ ہر مہینے ڈالا جائے گا۔ سندھ کے وزیر نے ہمارے بارے میں درست کہا ہے کہ ہم پورے معاشرے کے مجرم ہیں‘ اس لیے کہ ہم نے پانچ کلو گرام سونا اور دو کروڑ روپے لوٹے ہیں۔ کیا وزارت پانی و بجلی کا ترجمان جو دن دیہاڑے ڈنکے کی چوٹ کہہ رہا ہے کہ چار ارب روپے کے ماہانہ ڈاکے کا صارفین پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا‘ پوری قوم کا مجرم نہیں؟
افسوس! صد افسوس! ہم تمہیں ڈاکو نظر آتے ہیں اس لیے کہ ہمارے لباس گندے ہیں۔ وہ جو دمکتے ملبوسات پہن کر‘ ہماری جیبوں سے پیسے نکال کر‘ جہازوں میں بیٹھ کر‘ بحرِ اوقیانوس کو پار کر کے‘ آئی ایم ایف کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور ہمارے زیورات‘ ہمارا مال و دولت‘ ہمارا کھانا پینا‘ ہماری عزت و حرمت‘ یہاں تک کہ ہماری زندگیاں گروی رکھ آتے ہیں‘ وہ ڈاکو نہیں‘ صاحب ہیں!! واہ واہ! تم بھی وہی ہو!!‘‘
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“