ماضی میں انسان کو فلک بوس چوٹیاں ڈراتی تھیں اور اپنی عظمت کا احساس دلاتی تھیں،اور اُسے وسیع و عریض صحرا، گھنے جنگلات بہت بڑے لگتے تھے۔ ۔
کبھی انسان کے لیے اُسکا مسکن و مدفن زمین ہی بہت بڑی ہوا کرتی تھی۔۔ یہ تب کی بات ہے جب اس نے آسمانوں پر نظریں دوڑائیں تو تھیں چاند ستاروں کو دیکھا تو تھا مگر اس نے ستاروں کو اپنے رہنما، چاند کو رات کے گھپ اندھیروں کے ساتھی کے طور پر ہی دیکھا تھا، اور سورج کو فقط روشنی کا منبع سمجھا تھااور سبھی اجرام فلکی کو زمین سے چھوٹا ہی سمجھا تھا۔۔۔۔
اس وقت انسان کو چاند اور زمین کے درمیان کا فاصلہ معلوم نہیں تھا، اُسے مشتری،، سورج اور زمین کا موازنہ کرنا بھی نہیں آتا تھا۔۔۔
اور جب اُسے یہ معلوم ہوا کہ زمین مشتری سے 1300 گنا اور سورج سے 13لاکھ گنا چھوٹی ہے تو اُسے احساس ہوا زمین بہت بڑی نہیں۔۔۔
نظامِ شمسی کے کل ماس کا 86۔99فیصد ماس سورج میں ہے۔۔۔
اب اس کی نظر میں سورج بہت بڑا تھا۔۔
کچھ اور وقت گزرا کچھ مزید دور خلائے بسیط میں جھانکنے کے قابل ہوا تو اس کی آشنائی نظامِ شمسی سے باہر انٹرسٹیلر اسپیس کے کچھ بڑے ستاروں سے بھی ہوئی
جیسے ہماری رات کے آسمان کا سب سے روشن ستارہ Sirius جو سورج سے دگنا ہے۔۔۔
تب اُسے احساس ہوا کہ کچھ سورج سے بھی بڑا ہوسکتا ہے،
اور پھر انسان کی دعا سلام شمالی برج Lyra کے ستارے ویگا سے ہوئی تو اُسے پتہ چلا یہ تو sirius سے بھی بڑا ہے۔۔۔۔۔
اب اسکی متجسس طبعیت پوری طرح ہوشیار ہو چکی تھی، اُسکے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ آخر عظمت کی انتہا کیا ہے ؟ کون ہے جو سب سے بڑا ہے۔۔۔؟ اسطرح عظمتوں کی تلاش میں ایک سلسلہ ہائے دراز میں انسان نے قدم رکھ دیئے اور وُہ اسی دھن میں کائناتی صحرا میں شُتر بے مہار بن کر سرگرداں ہوگیا۔۔۔۔
اور پھر ہر قدم حیرتیں تھیں اور وہ تھا۔۔۔
پھر وقت کے ساتھ ساتھ لوگ جوق درجوق اس کائناتی دوڑ میں شامل ہوتے رہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئیے میں اور آپ بھی اس کائناتی قافلے کا حصہ بننے کیلئے ابھی اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں اور اس قافلے کے ساتھ مل جانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔
ماہرین کا یہ قافلہ بہت آگے نکل چکا ہے دریافتوں کا ایک سلسلہ ہائے دراز ہے جو اب ہمارے اور اس قافلے کے بیچ میں موجود ہے چلیے اپنے تصور کے تیز گام گھوڑے کو دوڑاتے ہیں۔۔۔
اس سلسلہ ہائے دراز میں باضابطہ طور پر داخل ہونے کے لیے بالترتیب سورج سے کچھ بڑے ستاروں سے ملاقات کرتے ہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیریس Sirius
ہماری زمین کی رات کے آسمان کا سب سے روشن ستارہ سیریس ہے
یہ کانسٹلیشن کینس میجر دی گریٹر ڈاگ (کلب اکبر) میں موجود ہے
سورج سے حجم میں دگنا بڑا اور نیلی اور سفید رنگ کی روشنی پر مشتمل سورج سے 25 گنا زیادہ چمکدار ہے
یہ دو ستاروں( سیریس A اور سیریس B) والا نظام ہے سیریس A بہت روشن اور B بہت مدھم ہے
تقریباً 8-6نوری سال دور موجود ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پولکس pollux
رات کے آسمان کا سترھواں روشن ستارہ پولکس ہے،
یہ سورج سے رداس میں 9گنا زیادہ اور 43 گنا زیادہ روشن ہے
کانسٹلیشن Gemini (گیمنی) میں موجود ہے،یہ زمین سے 34نوری سال دور ہے
۔۔۔۔۔۔
ارکٹورس Arcturus
رات کے آسمان کا چوتھا روشن ترین ستارہ ہے کانسٹلیشن بوٹیز boötes کا سب سے روشن ستارہ ہے
سورج سے 110گنا زیادہ روشن اور حجم میں 26 گنا زیادہ ہے
51 نوری سال دور ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویگا Vega
رات کے آسمان کا پانچواں اور شمالی کانسٹلیشن لیرا Lyra کا سب سے روشن ترین ستارہ ہے
سورج سے اڑھائی گنا بڑا ہے
25نوری سال دور ہے
۔۔۔۔۔
ریگل Rigel
رات کے آسمان کا ساتواں اور اورائن کانسٹلیشن کا سب سے زیادہ روشن ستارہ ہے
روشنی کا رنگ نیلا ہے
کمیت میں سورج سے 21گنا اور رداس میں 75گنا بڑا ہے
چمکدار اتنا ہی کہ 860نوری سال دور ہونے کے باوجود صاف نظر آتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت انسان بہت حیران ہوا جب اس نے
انٹارس Antares کو ڈھونڈا
رات کے آسمان کا 15 واں روشن ترین ستارہ ہے
یہ دو ستاروی نظام کا حصہ ہے
انتارس A ریڈ سپر جائنٹ اور انتاریس B چھوٹا مگر انتہائی گرم
کانسٹلیشن سکارپیئس میں موجود ہے سورج سے 10000 گنا روشن اور 800 گنا بڑا ہے
600نوری سال دور ہے۔۔۔۔
وہ ابتدا تھی تو حیران ہونا جائز تھا اب تو دریافتوں کا سلسلہ بہت دراز ہو چکا ہے اسلئے آپ ابھی سے حیران ہونا شروع مت کیجئے گا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
آئیے
بیٹلیجیوز (بیت الجوز) Betelgeuse سے ملتے ہیں
رات کے آسمان کا دسواں اور اورین Orion کانسٹلیشن کا ریگل کے بعد دوسرا روشن ترین ستارہ ہے اسکی چمک سورج سے لاکھوں گنا زیادہ ہے
یہ بڑا سرخ جن سپرنووا ہونے کے قریب ہے، اسکا رداس سورج 950 گنا بڑا ہے،
زمین سے 650 نوری سال دور ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسی رہی ملاقات؟؟؟ بور تو نہیں ہوئے کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟ ڈرے تو نہیں؟
جو بور یا پریشان ہوئے وہ بلا جھجھک ہمیں چھوڑ کے جا سکتے ہیں
اور جو ڈر گئے اُنہیں تو میں خود ہی مشورہ دوں گا کہ واپسی کی راہ لیں۔۔۔
کیونکہ یہ تو بڑائی اور عظمتوں کے سلسلہ ہائے دراز سے واقفیت کے انتہائی ابتدائی لمحات ہیں۔۔۔ ہم نے تو ابھی ایسی کائناتی ہستیوں سے ملنا ہے جن کے سامنے اوپری ذکر کی گئی ہستیاں کچھ بھی نہیں۔۔۔۔
جن کی ہولناک جسامتوں اور صورتوں کو دیکھ کر مضبوط اعصاب کے بھی چٹخ جانے کا خطرہ ہے۔۔۔
ایک اور بات اس سفر کے دوران اپنی حیرتوں پر بھی کنٹرول رکھئے۔۔۔
کیونکہ آگے آپ کو بہت حیران ہونا ہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میں جس ہستی کی بات کر رہا ہوں وُہ اب تک ذکر شدہ ریڈ جائنٹ Betelgeuse کو بھی اپنی کشش ثقل سے پاش پاش کر سکتا ہے جی ہاں اُسے کہتے ہیں UY Scuti۔۔۔۔۔
ہمارے سورج سے 4 سے 5ارب گنا تک بڑا ستارہ UY scuti ایک ہائپر جائنٹ ستارہ ہے۔۔۔
اسکا رداس سورج سے 1700 گنا بڑا ہے۔۔ اگر اسے سورج کی جگہ رکھ دیا جائے تو اس کے کنارے مشتری کے مدار سے بھی آگے نکل جائیں گے۔۔۔
اس سے نکلنے والی گیس اور دھول کے بادل پلوٹو کے مدار سے بھی آگے پھیلے ہوں گے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیے اب اپنے وطن یعنی ملکی وے کو خیر باد کہہ کر اس سے باہر نکلتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی وے کے باہر کا پہلا عجوبہ آپکا استقبال کرنے کو تیار ہے ۔۔۔ یہ انسانی آنکھ سے نہیں نظر آنے والا آئیے ناسا کی فرمی اسپیس ٹیلیسکوپ کو اپنی تصور کی آنکھیں بنا کر اسکا نظارہ کریں کیونکہ اسے روشنی کی جس مخصوص طول موج میں دیکھا جا سکتا ہے یہ ٹیلیسکوپ اُسی طول موج میں دیکھتی ہے۔۔
2010 میں اسی ٹیلیسکوپ کے ذریعے اسے دریافت کیا گیا یہ ملکی وے سے ابھرنے والا بھاری بھرکم اسٹرکچر ہے جسے فرمی ببلز کہتے ہیں
یہ blobs پچیس ہزار نوری سالوں پر پھیلے ہوئے ہیں
ماہرین کا اندازہ ہے زمانہء قدیم میں جب ملکی وے کے مرکزی بلیک ہول نے ملکی وے کے بہت سارے مادہ کو تر نوالہ سمجھ کر نگلنا شروع کیا ہوگا تو اس مادہ نے اپنی آخری چیخ کے طور پر بہت ساری توانائی کا اخراج کیا ہوگا جس سے ان bubbles یا blobs کی تشکیل ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہم ملکی وے سے 1لاکھ 70 ہزار نوری سال آگے آ چکے ہیں تو ہماری ملاقات ہوتی ہے
ٹرینٹولا نیبولا سے
یہ اب تک کا معلوم شدہ سب سے بڑا نیبولا ہے اور سرگرمیوں کے لحاظ سے بھی سب سے زیادہ سرگرم نیبولا ہے۔۔۔ اس میں بہت ہی تیزی سے ستاروں کی تشکیل جاری ہے۔۔
یہ ہم سے ایک لاکھ 70ہزار نوری سال دور ہے۔۔
اسے 30 ڈورڈس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے
یہ 1800 نوری سال کے علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔۔
ستاروں کی یہ نرسری نہایت خوبصورت اور رنگین گیسی بادلوں سے ڈھکی ہوئی ہے
چلیں اس کے حسن کے سحر اور اس کی عظمت کی ہیبت سے دامن بچا چلتے ہیں۔۔۔
یہ نیبولا جس چیز کا پروردہ ہے اور جس میں پناہ گزین ہے اسے ماہرین فلکیاتی خزانہ کہتے ہیں، خوبصورتی اور رنگت اور عظمت میں اس نیبولا سے کہیں زیادہ ہے
یہ فلکیاتی خزانہ لارج میجلینک کلاؤڈ ہے جو ملکی وے کی ایک سیارچہ کہکشاں ہے ایک لاکھ ستر ہزار نوری سال دور ہے
قطر 14000 نوری سال ہے
جو شائقین کائنات کو سمجھنا چاہتے ہیں وہ اپنی ابتدا ان حسین بادلوں کے مشاہدات سے کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ملیں اینڈرومیڈا سے۔۔۔۔۔
ملکی وے کی ہمسائی کہکشاں جو ہم سے 25لاکھ نوری سال دور ہے ملکی وے سے دوگنا بڑی 2لاکھ نوری سال کا قطر رکھنے والی۔۔۔۔
معلوم کائناتی اشیاء کی معراج کی طرف یہ سفر ابھی جاری ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی وے کا قطر ایک لاکھ نوری سال،اینڈرومیڈا کا قطر 2لاکھ نوری سال ہے اور اب تک کی معلوم شدہ کہکشاں IC 1101 ملکی وے سے 60 گنا بڑی ہے، تقریباً 5۔5 ملین نوری سالوں پر پھیلی ہوئی۔۔۔۔
اگر اسے ملکی وے کی جگہ پر رکھ دیا جائے تو اس کے کنارے اینڈرومیڈا سے بھی بہت آگے نکل جائیں گے
کیسا لگ رہا ہے عظمت کے ان نشانوں سے ملکر؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب دل کو تھام لیجئے۔۔۔۔
اب آپ کو ایک کالی بلا سے ملواتا ہوں۔۔۔ ایسی چیزوں کو کالی بلائیں میں اپنے خوف کے سبب کہتا ہوں۔۔۔ ورنہ سائنس تو ایسی چیزوں کو بلیک ہول کہتی ہے۔۔
چھوٹے بلیک ہولز بھی کچھ کم خطرناک نہیں ہوتے، مگر سپر میسو بلیک ہولز جو کہکشاؤں کے مرکز میں پائے جاتے ہیں۔۔۔ اُنہیں خطرناک کہنا بہت ہی چھوٹے الفاظ ہیں۔۔۔۔
کئی ملین سے کئی بلین سورجوں کی کمیت کے حامل یہ بلیک ہولز کائنات کی سب سے حیران کن اور پراسرار چیزوں میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کے اندرونی علاقے جنہیں سنگولیریٹی (اردو میں وحدانیت یا یکسانیت) کہتے ہیں، ان کے بارے میں سائنس ایک فیصد بھی کچھ نہیں جانتی،
بہرحال ہم تو اس وقت عظمتوں سے واقفیت کیلئے مسافر بنے ہوئے ہیں۔۔۔ تو یہ باتیں پس پشت ڈالتے ہیں
جس بلیک ہول سے آپ نے اب ملنا ہے وہ ان سپر میسو بلیک ہولز کا بھی جد امجد لگتا ہے کیونکہ یہ اب تک کا دریافت شدہ انتہائی قدیم اور سب سے جسیم بلیک ہول ہے اسکا نام TON 618 ہے
اس کی سائز کا تخمینہ 66بلین سورج جیسے ستاروں کے برابر لگایا گیا ہے
یہ ایک كوئزار کی پاور سپلائی بنا ہوا ہے۔۔۔كوئزارز سے تو آپ واقف ہوں گے، بگ بینگ کے بعد ابتدائی کائنات کی سب سے توانائی بخش اور سب سے روشن چیزیں ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے یہ کیا ہوگیا؟؟؟؟…. اب تو مجھ پر بھی گھبراہٹ طاری ہو رہی ہے آپکو تسلیاں کیا دوں کائناتی بھول بھلیوں میں ہم راستہ بھول گئے شاید کیونکہ آگے ایک دل دہلا دینے والا خوفناک علاقہ ہے جو ہماری راہ روکنے کی کوشش کر رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس خوفناک علاقے کو سپر وائیڈ Supervoid کہتے ہیں۔۔۔ یہ ایک یہ ایک لہٰذا سے انتہائی عجیب، خلاف توقع بالکل خالی جگہ ہے
نہ سیارہ، نہ ستارہ، اور نہ ستارہ دھول یہاں تک کہ تاریک مادہ بھی نہیں موجود۔۔۔۔بس تاریکی ہی تاریکی اور ٹھنڈک ہی ٹھنڈک ہے۔۔۔
یہ علاقہ زمین اور سورج کے درمیانی فاصلہ جتنا نہیں، نظامِ شمسی کی کل لمبائی جتنا بھی نہیں۔۔
یہ تو میں گھبراہٹ میں بہت چھوٹے علاقوں کے نام لیے جاتا ہوں۔۔۔
اس کے آگے تو ملکی وے پوری کی پوری کچھ نہیں یار۔۔۔
اس کے ٹائپ کی کوئی چیز ذہن میں نہیں آرہی کیونکہ یہ تاریک اور خالی علاقہ 8۔1 بلین نوری سال پر پھیلا ہوا ہے۔۔۔
گھبرائے مت!!! جلدی سے اپنے تصور کی آنکھیں بھی موند لیجئے تاکہ یہ سفر بخریت کٹ جائے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے بڑے کائناتیوں سے آپ کا تعارف بھی ہوچکا،، اور اور اتنے بڑے خالی مقام (spervoid) کی بھی آپ سیر کر چکے۔۔۔۔
اور تو اور میری پہلی پوسٹ اور اس پوسٹ کے درمیانی وقفہ کے دوران آپ ریسٹ بھی کر چکے تو
چلیے اپنا آگے کا کائناتی سفر شروع کریں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی ہم تازہ دَم ہیں تو ڈائریکٹ ابتدائی کائنات کے کناروں کے قریب چلتے ہیں۔۔۔ آپکو پتہ ہے ہماری یہ تصوراتی تیز گامی ہمیں ٹائم ٹریول جیسا تجربہ کرا رہی ہے۔۔۔؟
ہمارے تخیل کے گھوڑوں کی رفتار روشنی سے لاکھوں گنا تیز ہے۔۔
ہم وہاں تک آ پہنچے ہیں۔۔۔ جب کائنات نے اپنی موجودہ عمر کا ابھی دسواں حصہ گزار ا تھا یعنی ہماری پیاری یہ 60 سالہ بوڑھی مگر نفیس خاتون جیسی کائنات اس وقت انتہائی نوجوان اور الہڑ تھی۔۔
اب کائنات کی بوڑھی ہڈیوں میں ڈارک انرجی جیسا خطرناک مرض سرایت کر چکا ہے جو اسے روز بروز مزید کمزور، سرد اور ہے رونق کیے جا رہا ہے۔۔۔
تو ہم پہنچ گئے ماضی کے اس دور میں جب کائنات انتہائی نوخیز تھی۔۔۔۔یہاں آپ سے ملتا ہے قابل مشاہدہ کائنات کا معلوم سب سے بڑا ثقلی بندھن میں بندھا سنگل آبجیکٹ پروٹو کلسٹر SPT 2349-56۔۔۔۔
اس کی تشکیل 14کہکشاؤں کے آپس میں ٹکرا کر منہدم ہونے سے ہوئی۔۔۔۔۔
اس وقت کائنات کی عمر تقریباً 38۔1ارب سال ( ٹوٹل عمر کا صرف دسواں حصہ) تھی۔۔۔۔
اور یہ سنگل جسم ہماری ملکی وے سے 3گنا بڑا ہے یعنی 3لاکھ سے 3لاکھ 60ہزار نوری سال کے درمیان کے قطر کا حامل۔۔۔
۔۔۔ اتنا بڑا سنگل جسم؟
کیا یہی عظمتوں کی معراج تونہیں؟؟
نہیں بالکل نہیں۔۔۔۔تھوڑا حوصلے سے کام لیجئے ۔۔
۔۔ آپ کائناتی سفر پر نکلے ہیں تو اپنا حوصلہ بلند اور اڑان کو معلوم کائنات کے کناروں کے اس پار نکل جانے کے قابل بنانا ہوگا۔۔۔۔
اس لیے جلد بازی میں ابھی سے کوئی رائے قائم مت کیجئے۔۔
تو جناب!!! یہ پروٹو کلسٹر 10ٹریلین سورج جیسے ستاروں کے برابر کمیت کا مالک ہے۔۔
اس کے گرد 50 اضافی کہکشائیں موجود ہیں جو کبھی اس کلسٹر میں مدغم ہوجائیں گی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کہکشائیں بھی گروپس کی شکل میں رہتی ہیں جو ایک دوسرے کے ثقلی شکنجے میں پھنسی ہوتی ہیں۔۔۔ کہکشاؤں کے ایسے گروپ کو “گلیکسی کلسٹر” کہتے ہیں جیسے ہماری ملکی وے جس کلسٹر کا حصہ ہے اُسے “لوکل گروپ” کہتے ہیں۔۔۔ یہ 54 کہکشاؤں کا چھوٹا سا کلسٹر ہے۔۔۔
ایسے ہی ایک کلسٹر سے آپ نے ابھی آگاہی حاصل کرنی ہے جسے 1930 میں ہارلو شیپلے نے دریافت کیا تھا۔۔۔
اسی کے نام پر اس کلسٹر کا نام ” شیپلے سپر کلسٹر” رکھا گیا ہے
800 سے زیادہ کہکشاؤں کی شمولیت سے بنا یہ سپر کلسٹر معلوم کائنات کا دریافت شدہ سب سے بڑا گلیکسی کلسٹر ہے۔۔۔
اس کلسٹر میں 10 ملین بلین سورج جیسے ستاروں کے برابر کمیت کا مادہ موجود ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی بھی عظمت کی انتہا نہیں آئی۔۔۔؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں بالکل نہیں۔۔۔۔۔
وسیع ظرف کائنات سے جی لگا ہی لیا ہے تو اپنے ظرف کا پیمانہ بھی تھوڑا تو وسیع رکھیں
اس حیرت سرا میں ابھی کچھ اور ناقابل یقین عظمتوں کی حامل ہستیاں بھی آپکو شرف دیدار بخشنے والی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو جناب۔۔!!! گلیکسی کلسٹرز بھی مل کر ایک کلسٹر کی تشکیل کرتے ہیں، ہمارا لوکل گروپ جس کلسٹر کا حصہ ہے اُسے “ورگو سپر کلسٹر” کہتے ہیں
اس کلسٹر میں ہمارا لوکل گروپ تقریباً اتنی ہی حیثیت رکھتا ہے جتنی حیثیت ہمارے نظامِ شمسی کی ملکی وے کے اندر ہے۔۔۔
ابھی آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
ویرگو سپر کلسٹر 100 گیلکسی کلسٹرز کا مجموعہ ہے اور یہ 10کروڑ 10لاکھ نوری سالوں پر پھیلا ہوا ہے….
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلتے چلیے۔۔۔۔ اگر آپ گھبرا رہے ہیں تو اپنے تخیل کے گھوڑوں کی لگامیں کھینچ لیتے ہیں۔۔۔۔تھوڑا سستا لیتے ہیں۔۔۔ یقین کر لیتے ہیں یہ سب حقیقت ہے مجاز نہیں۔۔۔
دل و دماغ اور اعصاب کو مضبوط کر کے آگے بڑھتے ہیں….
۔۔۔۔۔۔۔۔
اب یہ کلسٹرز جو گلیکسی کلسٹرز کا مجموعہ ہیں یہ بھی اکیلے رہتے ہوئے گھبراتے ہیں، ڈارک انرجی کوئی ایسی خوفناک بلا ہے کہ عظمتوں کی انتہا کو چھونے والے یہ سٹرکچر بھی متحد رہ کر اس کا مقابلہ کر رہے ہیں
کلسٹرز کا اتحاد سپر کلسٹر کہلاتا ہے اب تک کا دریافت شدہ سب سے بڑا سپر کلسٹر” لانیاکا سپر کلسٹر” ہے
اس میں ورگو سپر کلسٹر بھی اتنا چھوٹا لگنے لگتا ہے جیسے کسی ہاتھی کے ساتھ کھڑا اُسکا چھوٹا سا بچہ۔۔۔۔
میرا دماغ تو گھوم رہا ہے۔۔۔ جانے یہ سلسلہ ہائے دراز کہاں ختم ہوتا ہے؟
یہ تقریباً 10لاکھ کہکشاؤں کا مجموعہ ہے اور 52کروڑ نوری سالوں پھر پھیلا ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں اگر آپ اب بھی آگے جانا چاہتے ہیں تو بھلا مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب یہ کیا ہے ؟
اتنی عظیم دیوار الامان الحفیظ۔۔۔۔۔
1989میں دریافت ہونے والی یہ دیوار سائنسدانوں کو پاگل کرنے لگی۔۔۔ یہ دیوار جو کوسما گریٹ وال اور CFA2 کے نام سے جانی جاتی ہے
کانسٹلیشن ہرکولیس، کورونا، لیو اور كوسما فلامنٹس سے بنی یہ دیوار 60 سے 70 کروڑ نوری سال لمبی اور 20 کروڑ نوری سال چوڑی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی دریافت کے بعد ماہرین کو لگا یہی عظمتوں کی انتہا ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
20اکتوبر 2003 کو سلون ڈیجیٹل سروے کے دوران ماہرین کی خوش فہمی اس وقت ہوا ہوگئ۔۔۔ جب انہوں نے کی کائناتی نقشے پر
ایک ارب 30 کروڑ نوری سالوں پر پھیلی ایک اور عظیم دیوار سی بنی ہوئی دیکھی۔۔۔ انہوں نے ، galactic filaments سے بنی اس چیز کو “سلون گریٹ وال” کے لقب سے نوازا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائینس دان اس کی دریافت پر حیرت سے ابھی گنگ ہی تھے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک كوئزار گروپ اُن کے ہوش اُڑا گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو میں آپ کو کائنات کے ایک کونے پر لیے کھڑا ان کے بارے میں صرف بتا رہا ہوں، آگے نہیں لے جا رہا…….. کیوں؟؟؟
سچ پوچھیں تو آگے جاتے ہوئے میں خود گھبرا رہا ہوں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس كوئزار گروپ کا نام ” ہیوج لارج كوئزار گروپ” رکھا گیا جسے اختصار کے ساتھ Huge-LQG بھی کہتے ہیں 4ارب نوری سالوں پر پھیلا ہوا ہے
سائنسدانوں نے ہوش کو سنبھالا اور زبانوں کو حرکت دی۔۔۔ خاموشی کا جمود توڑا
اور پکار اٹھے۔۔۔ یہی عظمتوں کی انتہا ہے
End of the Greatness
یہی ہے یہی سب سے بڑا کائناتی اسٹرکچر ہے
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2013 میں ماہرین کا بھرم ایک بار پھر ٹوٹا
جب اب تک کے سب سے بڑے کائناتی اسٹرکچر کی دریافت ہوئی
یہ بھی ایک عظیم کہکشانی دیوار ہے جِسے
“ہرکولیس۔کورونا۔بورلیس۔۔۔ گریٹ وال” کا نام دیا گیا۔۔۔۔
یہ دیوار 10 ارب نوری سالوں کی لمبائی رکھتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبارک ہو اب آپ ماہرین کے قافلے کے ہمدم ہوگئے ہیں۔۔۔ آپ نے (دریافت شدہ بڑے کائناتی مظاہر کے مطابق) عظمتوں کی انتہا کو بھی دیکھ لیا ہے، کیونکہ 9سال گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک اس سے بڑا کائناتی اسٹرکچر دریافت نہیں ہوا۔۔۔۔
مگر ۔۔۔۔ان دریافتوں کے بعد کائنات کی پراسراریت اور بڑھ گئی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ کائنات ہے ہی اتنی پراسرار اور پیچیدہ کہ۔۔۔۔
بڑے سے بڑا کائناتی ماہر بےبسی سے اقرار کرتا ہےکہ
“یہ کائنات میری سمجھ سے باہر ہے”
ایک فلکیاتی ماہر کے الفاظ “یہ کائنات اتنی پراسرار نہیں ہے جتنا آپ سوچتے ہیں، بلکہ یہ تو اتنی پراسرار ہے جتنا آپ سوچ بھی نہیں سکتے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو کیا واقعی یہی عظمتوں کی انتہا ہے ؟؟
نہیں۔۔۔۔!!!!!!
ہم قطعاً یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ دریافت شدہ عظیم ہستیاں ہی عظمتوں کی انتہا ہیں۔۔۔
کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کائنات کتنی بڑی ہے معلوم کائنات کے کناروں کے اس پار کیا ہے؟
کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔
ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ان عظیم ہستیوں کا یہ مجموعہ یعنی معلوم شدہ مکمل کائناتی ڈھانچہ ( جو 93 ارب نوری سالوں کا قطر رکھتا ہے) بھی اتنے بڑے یا ان سے بھی بڑے دیگر کائناتی ڈھانچوں کے درمیان ایک نقطے کی طرح نظر آتا ہو۔۔۔
ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔ 93ارب نوری سال پر پھیلا ہمارا یہ کائناتی ڈھانچہ(اسٹرکچر)، دیگر ڈھانچوں میں ایک درمیانے درجے کی حیثیت رکھتا ہو(جیسے ملکی وے کے ستاروں میں ہمارا سورج ایک درمیانے درجے کے ستارے کی حیثیت رکھتا ہے) اور ایسے اربوں، کھربوں ڈھانچے ملکر ایک مکمل کائنات کی تشکیل کرتے ہوں اور۔۔۔۔۔۔۔
ہماری یہ کائنات بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیگر بہت سی کائناتوں کے ساتھ مل کر ایک گروپ بناتی ہو۔۔۔
کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کچھ بھی تو نہیں کہا جا سکتا۔۔۔۔
کائنات کی ابتداء و ارتقاء اور انتہا کے بارے میں سوچنا
حیرت، تذبذب، بےبسی، بیچارگی، گھبراہٹ، سرسراہٹ، کپکپاہٹ اور ہے یقینی سے دوچار تو کرتا ہے۔۔۔۔۔مگر ساتھ ہی
ہماری تجسس کی حس کو اُکساتا ہے، حقیقت کی جستجو کی اگن کو بھڑکاتا ہے۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...