پچیس تیس سال قبل محلوں کے ہر گلی کوچوں میں 'قلعی کرالو، قلعی والا‘ کی آواز سنائی دیتی تھی جبکہ قلعی کرنے والوں کو ہر گلی میں ایک نہ ایک گاہک ضرور مل جاتا تھا آپ نے کبھی نہ کبھی گلیوں میں یہ آراز سنی ہو گی ۔۔"بھانڈے قلعی کرالو۔ پرانے نوے بنا لو "۔کچھ عرصہ قبل گھروں میں مٹی، پیتل اور تانبے کے برتن کا استعمال ہوتا تھا لیکن آج کل بہت کم گھروں میں پیتل اور تانبے کے برتنوں کا استعمال ہوتا ہے۔ پرانے دور کی کئی چیزیں اب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں ایسے میں تانبے کے برتنوں کو قلعی لگاکر چمکا کر دینے والے ان گنے چنے قلعی والوں نے ان روایات کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ لوگ کبھی کی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ اکثر بڑے اور لذیذ کھانے والے ھوٹل میں کھانے کی لذت کا راز کشتہء قلعی ھے۔۔۔جہاں تانبے اور پیتل کے برتن استعمال کیے جاتے ہیں۔۔۔وہاں کا کھانا کمال کا لذیز ھوتا ھے۔۔
برتن بنانے والے کارخانوں سے گزارش ھے کہ سلور سٹیل کی جگہ تانبے اور پیتل کے برتن بنائیں۔۔۔لوگوں کو زندگی لوٹائیں۔۔
اگر آپ لوگ واقعی زندگی اور صحت حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں تو سلور اور سٹیل کے برتن آج ہی چھوڑ دیں اور پیتل و تانبے کے برتن خرید لائیں۔۔۔میں دعوی کرتا ھوں کے سلور کے قلعی شدہ برتن میں پکا کھانا کھا کر آپ خود کہیں گے کہ ایسا لذیذ کھانا کبھی نہیں کھایا اور ہر روز کہیں گے ۔۔۔اور ساتھ میں ہر روز صحت مند بھی ھوتے جائیں گے۔پشاور کے مشہورقصہ خوانی بازار کے عقب میں واقع شاہ ولی قتال میں کوئلہ دہکاتا جہانگیر استاد آج بھی اپنی دکان میں بیٹھا ہوتا ہے جو آج بھی اپنے آباﺅ اجداد کے اس فن کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اکا دکا روایت پسند آج بھی پیتل کے برتن چمکانے کےلئے جہانگیرکے پاس آتے ہیں۔ پشاور میں برتن قلعی کرنے والے اب صرف دو ہی کاریگر رہ گئے ہیں جوزیادہ تردیگیں قلعی کرکے دو وقت کی روٹی کمالیتے ہیں۔ برین قلعی کرنے والوں کا بھی کیا زبردست ہنر ہوتا تھا زمین میں مشک ادباکر یا ایک چرخی والی مشین { جیسے قیمہ نکالنے والی مشین ہوتی ہے}سے ہوا پیدا کرکے کوئلے سلگا کر برتنوں پر چاندنی یا قلعی کی جاتی تھی۔