یہ آخری کارواں نہیں ہے ….
اردو تنقید کی بات کریں تو یہ سوال لازمی ہو جاتا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی ،گوپی چند نارنگ ،شمیم حنفی کے بعد کی نسل کہاں ہے ؟ ابو الکلام قاسمی سے مولا بخش تک کچھ اور نام شامل کر لیں تو یہ نسل بھی بزرگ ہو چکی ہے .افسانے میں اقبال مجید سے لے کر حسین الحق ،سلام بن رزاق اور ابرار مجیب ،صغیر رحمانی تک ..یہاں زیادہ تر پچاس کی عمر سے آگے کے افسانہ نگار ہیں ..یہ کارواں بھی گزر گیا تو کیا اردو ادب کا سفر تھم جائے گا ؟ اس سوال پر غور کرنا ضروری ہے .شمس الرحمن فاروقی ،گوپی چند نارنگ ،شمیم حنفی کے معیار اور قد کا کویی نام ہمارے سامنے نہیں .ہمارے بعد دور تک لمبی خاموشی کا بسیرا ہے ..میں فکشن کا آدمی ہوں .اس لئے ذرا فکشن کی بات کر لوں .پاکستان میں کیی نام ہیں جو متاثر کرتے ہیں .سیمیں کریں ،منیزہ احتشام ،سبین علی ،اقبال خورشید .رابعہ الربا ،.فیس بک پر کہانیاں لکھنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں .ہندوستان میں نیی نسل سے ہاشم خان کا نام احترام سے لے سکتا ہوں .ہاشم کی دو کہانیوں نے متاثر کیا .ایک کہانی کشمیر کے بیک گراؤنڈ میں تھی .ہاشم کی خوبی ہے کہ وہ بیانیہ کے درمیان سے زیریں لہروں کو برآمد کرتے ہیں ..یہ جو زیریں لہریں ہیں ..یہ کہیں علامت بن جاتی ہیں ،کہیں فنتاسی کی شکل میں ہوتی ہیں .ایک میچیور افسانہ نگار کو ابھی صرف لکھنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے .فارس مغل ،راجہ یوسف ،شہناز رحمٰن ،فائق احمد ،آدم شیر ،ہما فلک ،کیی نام ایسے ہیں جو تیزی سے راستہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ..مگر یہ سوال اہم ہے کہ انکی شناخت کب بنے گی ؟ در اصل نقاد غایب ہو گئے .ان پر لکھنے والے نہیں رہے .یہ المیہ ہے .
فیس بک کی کہانیوں کو شامل کریں تو ہمارے پاس ناموں کی کمی نہیں .لیکن مشکل یہ ہے کہ ان میں سے کویی بھی نام ایسا نہیں جسے مستند ،بڑے ناموں میں شمار کیا جا سکے ؟ ایسا اسلئےبھی ہے کہ نیے فکشن کا مطالعہ کرنے والے گنتی کے چند نام ہیں .ہمارے یونیورسٹی کے پروفیسر اور نقاد ان میں سے بیشتر ناموں سے واقف نہیں .
ضرورت اس بات کی ہے کہ اب ان ناموں کو بھی سامنے لیا جائے ..ابرار مجیب ،صفدر زیدی ،سمین کریں ،سبین علی ،منیزہ احتشام ،جمیل حیات ،صائمہ شاہ وغیرہ کی ایسے نام ہیں جن میں زبردست تنقیدی صلاحیتیں موجود ہیں .اب ایسے لوگوں پر گفتگو کرنے کا وقت آ چکا ہے .
کل زبان و ادب میں فاریحہ ارشد کی ایک کہانی پڑھی اور جھوم گیا . .عینی بی کی پہلی کہانی میں جو سرور کا رنگ تھا ،وہی سرور اس کہانی میں نظر آیا .حقیقت ہمیشہ پر فریب ہوتی ہے .اسلئے حقیقت جب کہانی میں بیان ہو ،تو علامت ،فنتاسی کے ساتھ کیی دوسرے چولے بھی زیب تن کر لیتی ہے .کہانی بیانیہ اور ویژن کا ایک حسین کولاز ہے .
مجھے اس افسانے میں عینی بی کا عکس نظر آیا .امید نظر ایی — -یہ احساس ہوا کہ فاریحہ ارشد تک ہمارے پاس لکھنے والوں کی ایک قطار موجود ہے .اس قطارپر توجہ دیں تو ان میں سے ہی کیی نام منٹو ،عصمت ،بیدی بن کر ابھرینگے .اس نسل کے ساتھ ایک آسانی ہے کہ انہیں وقتی شہرت بہت جلد فیس بک کے توسط سے مل جاتی ہے .لیکن یہ دائمی شہرت نہیں ہے .ان کے افسانے ابھی بھی سنجیدہ قاری اور نقاد تک نہیں پہیچ رہے .اس راستے کو آسان بنانا ہوگا .
ایک وقت اے گا جب ہماری نسل سے بیشتر نام نہیں ہونگے .کیونکہ موت ایک حقیقت ہے .لیکن لکھنے والوں کا کارواں موجود ہوگا .فیس بک ایک بڑی حقیقت ہے . فیس بک پر اچھے رسائل کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے .سبین علی اور نقاط کے مدیر، قاسم یعقوب, ا عجاز عبید کا رسالہ سمت نے اچھی روایت شروع کی ہے .اس سلسلے میں اہم نام ابرار مجیب کا بھی ہے .ابرار کو بھی سخت رویہ اپنانا ہوگا .تنازعات کا سلسلہ چلتا رہیگا ..لیکن اب ان نیے ناموں پر سنجیدگی سے گفتگو کرنے کا وقت آ چکا ہے ..
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“