آپ میں سے بیشتر نے پیشہ ور نقادوں کا دور استبداد نہیں دیکھا۔۔
1960 کے آگے پیچھے اک زمانہ ادب کیؒۓ انتھایؑ زرخیز تھا۔۔ کچھ ایس ہی سلسلہ موسیقی کا رہا کہ 1960-1980 کی فلمی موسیقی آج بھی اپنا جادو جگاتی ہے۔۔میں اپنے ہم عمروں کی بات نہیں کرتا جو اس عمر میں اپنی جوانی کو تاریخ کا سب سے سنہرا دور قرار دیتے ہیں تو ان کی مجبوری۔۔نیؑ نوجوان نسل کی پوپ ۔۔ یا پاپ موسیقی پرٹھرکنے مچلنے جھومنے بے خود ہونے والے ٹیں ایجرز نے 1951 کی فلم" البیلا" کا گانا 'شعلہ جو بھڑکے دل میرا دھڑکے' پر ایک مجمع کی دیوانگی بھی دیکھی ہے
میں پٹری سے اترکے ادب سے موسیقی کی طرف چلا گیا۔۔اب کیا کروں ۔۔وہ بھی ایک مردانہ کمزوری ہے۔۔ ادب میں وہ زمانہ نقادوں کے راج کا تھا۔ممکن ہے کچھ نام اُ نے سنے ہوں۔۔ڈاکٹر عبادت بریلوی۔۔ ممتا زحسین۔۔ وقار عظیم۔۔شوکت سبزواری۔۔ڈاکٹر سید محمد عبد اللہ۔۔
احتشام حسین،،کس کس کا نام لوں ۔۔ایک سے بڑھ کر ایک ۔۔ عالمی ادب کے حافظ اور اردو ادب کے عالم۔۔ تقابلی میلانات اور امکانات وغیرہ پر حرف آخر۔۔یہ میں نعوذ باللہ طنز نہیں کر رہا ۔۔ وہ ایسے ہی تھے۔ چناںچہ ؎ مستند تھا ان کا فرمایا ہوا۔۔ قلم اٹھاکے کوۓ ادب کی خاک چھاننے والون کیلۓ اصل آزمایش قاری کی پذیرای نہیں بلکہ ان عظیم نقادوں کی منظوری تھی جو بہ یک جنبش قلم کسی بھی تحریر کو معیاری یا غیر معیاری اور ادبی یا غیر ادبی قرار دے سکتے تھے۔۔ اور گویا شاعری ہو یا افسانہ۔۔ اس کتاب کی قسمت کا اور مصنف کے قد و قامت کی بلندی کا حتمی فیصلہ ہو جاتا تھا
میں کسی کا حوالہ نہیں دوں گا۔یہ میری ذاتی راۓ ہے جو حتمی بہر حال نہیں ہو سکتی،،یعنی نہ سوفیصد ایسا ہوتا تھا نہ اب میؐں مرحومین پر فرد جرم عاید کر سکتا ہوں کہ انہوں نے فلاں فلاں کا "ادبی قتل" کیا۔۔جیسے جوڈیشل مرڈر کی اصطلاح مروج ہے۔ لیکن ایک بات حتمی ہے۔۔یہ نقاد خود ٹخلیق کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔۔اگر میں انکو کسی "گایؑنی اسپیشلسٹ" سے تشبیہ دوں جو بانجھ ہو یا کسی "جس نے شادی نہ کی ہو تو غلط نہ ہوگا،۔۔۔ (ایک آدھ کے سواٗ) نہ کویؑ شاعر تھا نہ افسانہ نویس نہ ناول نگار ۔وہ تخلیق کے کرب سے اتنے ہی نا اشنا تھے جتنے ہم مرد درد زہ کی اذیت سے ہیں۔۔ اردو میں ایک محاورے کی بات تھی کہ ؎ بگڑا شاعرہوا مرثیہ گو اور بگڑا گلوکارہوا قوال۔۔ متمظاہر ہے ایسا ہرگز نہیں۔۔انیس اور دبیر کی مرثیہ گویؑ یا غلام فید سابری جیسے قوالوں کا فن کسی سند کا محتاج نہیں۔۔لیکن ان نقادوں کا تخلیقی بانجھ پن مسلمہ حقیقت ہے چنانچہ کہا جا سکتا ھہ کہ بگڑا ادیب ہوا نقاد ۔۔ اس بات کو کسی نے جھٹلایا تو وہ ہیں جناب احسن فاروقی جنہوں نے نقاد کی شہرت رکھتے ہوۓ "کیؑ چاند تھے سر آسماں" جیسا لازول ناول لکھ کے یوں غلط ثابت کیا کہ گویا سارے نقادوں پر سے داغ ندامت مٹادیا۔۔لیکن شاید یہ تاریخ میں ایک ہی مثال ہوگی۔۔ممکن ہے دو چار ہوں لیکن یہ عمومی حقیقت بہر حال نہیں
محاورے کے مطابق جب میں نے ہوش سبھالا۔۔۔ تو ولی دکنی سے شروع ہونے والی غزل کی روایت غالب اور میر کے عہد سے گزرتی حالی اور اقبال تک پہنچ چکی تھی اور طلسم ہوشربا کا کہانی کار امراو جان اداوالے مرزا رسوا اور پریم چند سے بہت آگے کرشن چندر اور عصمت چغتایؑ کے دور میں داخل ہو چکا تھا۔ان سب کی ادبی عظمت پر میرا ایمان لیکن اس عرصے میں رشید اختر ندوی ۔ قیسی رامپوری۔عبدالحلیم شرر۔اور تیرتھ رام فیروزپوری جیسے متعدد ناول نگار قبولیت عامہ کی سند حاصل کر چکے تھے لیکن نقادوں نے ان کی ادبی حیثیت کو یکسر نظر انداز کیا تھا اور ان کی عوامی مقبولیت کے معیار کو اپنے خود ساختہ ادبی معیار کے مطابق اس قابل ہی نہیں جانا تھا کہ ان کو ادیبوں میں شمار کیا جاۓ۔۔ان کے ساتھ یہ امتیازی سلوک ایک روایت بن گیا
میں نے پڑھنا شروع کیا تو نسیم حجازی اور ایم اسلم کے ساتھ اب صفی کا طوطی بولتا تھا اور مین بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ نسیم حجازی اور ابن صفی اج بھی اتنے ہی مقبول ہیں گرچہ ایم اسلم نامعلوم کیوں گمنام ہوگۓؑ لیکن کیا نقادان گرامی نے ان کی ادبی حیثیت کو تسلیم کیا۔ ؟،ان کی کتب کی طلب اور اشاعت آج بھی بڑے بڑے سکہ بند ادیبوں سے زیادہ ہی ہوگی ۔ اب تو حال یہ ہے کہ غالب اقبال۔فیض اور فراز ساحر یاپروین شاکر ۔۔ امجد اسلام امجد۔یا افتخار عارف اورایسے ہیایک دو کے سوا کسی کی کتاب کا دوسرا ایڈیش تو کیا بس 500 کتابون والا آدھا ایڈیشن بک جاۓ تو بڑی بات ہے۔ مقبقلیت عامہ کو دیکھیں تو شاید وصی شاہ آگے نظر آۓ اور بھارت کے فلمی شاعر شکیل بدایونی۔مضروح سلطانپوری کیفی اعظمی آگے دکھایؑ دیں جن میں ان نقادوں کو خامی یہ نظر اتی ہے کہ "فلمی ہیں"
اس متعصبانہ رویہ کی وجہ سے سکہ بند نقاد متنازعہ حیثیت اختیار کرتے گۓ اوران کا فرمایا ہوا ذاتی راۓ سے زیدہ اہم نہیں رہا۔اس رد عمل کے نتیجے میں نقاد از خود پسپا ہوگۓ۔اب الیکٹرانک میڈیا کے دور میں ؎ کس نمی پرسد کہ بھیا کون ہو،، شاعر یا افسانہ نویس کسی نقاد یا مسلمہ ادبی حیثیت کے مالک جریدے کے مدیر محترم کی سند قبولیت کا محتاج نہیں رہا۔۔مجھے یا محی الدین نواب مرحوم کو وقت نے سند دی اور وقت کے ساتھ تھا قاری جوصرف قومی ہی نہیں عالمی اکثریت رکھتا تھا۔آج لکنے والا کسی گاون قریہ بستی یا شہر کی قید سے آزاد ہے۔وہ گلوبل ولیج کا باسی ہے اور اس کے قاری جغرافیایؑ سرحدون سے ماورا ہیں۔وہی اسے عظمت کی سند عطا کریں گے۔نقاد نہیں نہ وہ جو ادب میں اپنی خود ساختہ نمبرداری کا متروک سکہ چلانے کی کوشش کریں گے
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1028370533911631