میں نے بالاخر ان خدایؑ فوجداروں کے خلاف آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جو ادب کو درجوں میں تقسیم کرنے اور ادبی تخلیق کے حوالے سے ایک خود ساختہ نمبر دار بن کے ہمیشہ فیصلہ صادر کرتے رہے ہیں کہ کون درجہ اول میں ہے۔کون دوسرے درجے کا اور کون تھرڈ کلاس۔۔ یہ نمبر لگانے کا ان کے نزدیک ذاتی راۓ کے سوا کون سا معیار ہے؟ شاید کویؑ نہیں۔۔
تقریبا" نصف صدی میں نےلکھنے میں گزاری اور اس فیصلے کواحکام الہٰی کی طرح حتمی تسلیم کرتا رہا کہ ابن صفی کی طرح میں بھی سرے سے ادیب ہی نہیں کیونکہ۔۔۔ میں ڈایجسٹ میں لکھتا ہوں۔۔ مرحوم و محترم شوکت صدیقی اوراے حمید جیسے صف اول کے ناول نگار ان ادب کے نمبرداروں سے سند لینے کے بعد ڈایجسٹ میں لکھنے آۓ۔۔تاہم اپنی "ادبی عصمت" پر داغ لگا بیٹھے۔۔آج اس عہد کے مستند ناول نگار مشرف عالم ذوقی نے ان نمبرداروں کے خلاف ۔۔جن کو وہ شہنشاہ کہتے ہیں ۔۔۔ جہاد کا آغاز کیا تو میں نے لبیک کہا اور ان کی پوسٹ پر اپنا موقف دلیل کے ساتھ رکھا جو ذرا بھی مختلف نھیں تھا ۔۔پھر مجھے ان کی تایید و حمایت کیسے حاصل نہ ہوتی
ایک عالمی صداقت کے مطابق ؎ وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔۔۔ تو حادثہ بنی وہ تقریب جو 'اسلام آباد ہوٹل' میں منعقد ہوٰیؑ اور جس میں پاکستان بھر سے میرےفین یا مداح آۓ۔۔صرف مجھ سے ملنے۔۔ میرے دستخط میری کسی کتاب پر لینے۔۔میرے ساتھ ایک تصویر بنوانے۔۔ حالانکہ سفر کی صعوبت اور اخراجات کے علاوہ ہوٹل میں داخل ہونے کی فیس بھی 500 روپے تھی،،ان کے اژدھام،،ان کی عقیدت ان کی خوشی۔ ان کی وارفتگی کا یہ اجتماعی مظاہرہ مجھے جذباتی طور پرآبدیدہ کرنے کیلۓ کافی تھا ،،اگرچہ انفرادی سطح پر اس عقیدت مندی کا اظہار بے شمار لوگ کر چکے تھے ۔میں کسی کا نام لینا نہیں چاہتا لیکن ان میں سفارت کار ہیں ۔ اعلیٰ ترین سرکاری عہدے ہر فایزبیورو کریٹ ہیں۔۔نامور شاعر اور صحافی ہیں ۔ڈاکٹریٹ کی سند رکھنے والے یونیورسٹی کے پروفیسر اور اسکالر ہیں ۔ براڈ کاسٹر ھیں۔۔ کراچی سے جنوبی پنجاب اور علاقہ غیر میں مالاکنڈ سے ڈیراور خیبر تک اور ہر جگہ پھیلۓ ہوۓ لاکھوں قاری ہیں جو یہاں مجھ سے ملنے آۓ۔۔اب ،یؐ کیا بتاوں۔۔ ان میں ایسے ہیں جنہوں نے میری 14 سال چلنے والی 20 حصوں پر مشتمل تقریبا 60 لاکھ الفاظ پر مشتمل کہانی کو مجلد صورت میں کتاب مقددس کی طرح سنبھال کے رکھا ہوا ہے اور جو اسے وقفے وقفے سے اول تا آخر پڑھتے ہیں۔۔۔۔ ۔ناقابل یقین ۔۔۔ناقابل تصور۔۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔میں تو بالکل بھول گیا کہ میں نے کیا لکھا تھا۔۔مجھے کچھ بھی یاد نہیں کہ میں ان کے کسی سوال کا جواب دے سکوں۔۔ مگر ایسا ہے۔۔ بالکل ہے۔۔یقینا" "دیوتا " کے خالق مرحوم محی الدین نواب کے دیوانے دوگنا ہوں گے جن کی کہانی 33 سال شایع ہویؑ اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا کی سب سے طویل مطبوعہ تحریر ہے۔۔اور رہے گی
لیکن ادیب ہونے کی سند نہ انھیں ملی اور نہ مجھے حاصل ہوگی
اپنی مقبولیت کا میں نے کویؑ سروے کرایا نہ یہ ممکن تھا۔۔ میں 1986 میں ایک کال آفس کے باہر اپنی باری کا منتظر تھا کہ پیسے دے کر کال کر سکوں ( مجھے زاتی ٹیی فون 1986 میں میسر آیا )۔۔ اور دیکھ رہا تھا کہ کال افس کا مالک جس مصنف کی مزاحیہ
کہانی پر ہنس ہنس کے بے حال ہورہا ہے اس کا مصنف سامنے لاین میں کھڑا ہے۔ اپنے دکھ یا بے عزتی کا گلہ میں نے شکیل عادل زادہ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ تم شو بزنس میں نہیں ہو۔یہاں تو کرشن چندر یا ندیم قاسمی کسی سڑک سے گزریں تو کویؑ نہ پہچانے۔۔1987میں اپنی بڑی بیٹی (صبا احمد کی کہانیاں تو آپ نے پڑھی ہیں) ۔۔کی شادی پر مجھے شبہہ سا ہوا کہ میں مقبول ہوں جو میرے اور خاندان کے دوسرے بچون کی شادی تک یقین میں بدل گیا تھا کہ میری کہانیاں پڑھنے والے ہر گھر میں یا گلی محلے میں ہیں۔ایک جگہ تو خاصا ہنگامہ ہوا کہ رشتے کی بات کرنے کیلۓ آنے والون میں احمد اقبال بھی تھے اور کسی نے بتایا نہیں ؟۔۔اسلام آباد آنے کے بعد کی صورت حال میں نے آپ کوپہلے بتادی
میں نے فیض کا جادو دیکھا تھا جن سے میری تین بار ملاقات ہویؑ کہ عقیدت مند ان کےسامنے کھڑے انہیں دیکھتے رہتے تھے یا ہاتھ ملاتے تھے تو اپنے ہاتھ کو۔۔میں نے خود
عبداللہ حسین ۔ تارڑ ۔انتظار حسین یا امجد اسلام امجد جیسے ادیبوں اورشاعروں کے گرد پرستاروں کے حلقے میں اپنی موجودگی پر فخر کیا ہے لیکن ایسا میرے جیسے "ڈایجسٹ رایٹر" کے ستھ ہوسکتا ہے؟ اس کا تصور؎ خیال است و محال است و جنوں والی بات تھی۔۔میں نے جو سینکڑوں کہانیاں لکھیں اس میں خالص بعض اوقات فارسی آمیز اردو لکھی جو میری تعلیم اورادب میں غالب سے فیض اور شبلی نعمانی سے کرشن چندر( اورپھر قرۃالعین حیدر) تک سب کی ذہنی تربیت کا نتیجہ تھی۔نثر میں شاعری کا استعمال عادت تھی اور ہے۔خطوط میں میرے منفرد اسلوب کو سراہا گیا اور کہا گیا کہ میری تحریر اردو لکھنا سکھاتی ہے۔۔میں نے نہ مانا ۔اب چند بےحد معروف لکھاری صحافی اور شاعریہ میرے منہ پر کہتے ہیں تو فخر سے زیادہ ان کی وسعت قلبی پر شرمندگی ہوتی ہے
اسلام آباد ہوٹل کی تقریب میں شریک ڈاکٹر فتح محمد ملک جیسے دیگر دانشورون کے ساتھ میرا مکمل اتفاق راےؑ نھا کہ فیس بک آنے سے ایک بہت بڑا ادبی اور معاشرتی انقلاب برپا ہو چکا ہے جس سے اردو کا مستقبل تاریک نہیں رہا
1۔ نوجوان لکھنے والوں افسانہ نگاروں اورشاعروں نے اس ذریعہ اظھار کو اپنا لیا ہے جس میں انہیں کسی ادبی رسالے کے نمبردار مدیر محترم کی مہر قبولیت درکار نہیں۔۔اچھے برے کا فیصلہ قاری کریں گے
2۔ادبی ماہانہ رسالے مقبول تھے اور بہ آسانی بک اسٹال پر دستیاب بھی۔اب 400 یا 600 روپےوالے سہ ماہی کتابی سلسلے مختلف شہروں سے یہی ادب کے نمبردار شایع کرتے ہیں مگریہ اسٹال کی چیز نہیں۔یہ انہی میں تقسیم ہوتے ہیں جو اس کا پیٹ بھریں۔۔اسے نہیں مل سکتے جس کیلۓ اپنا اور اہل و عیال کا پیٹ بھرنا مسؑلہ ہو۔ان کے قاری کتنے ہوں گے؟ چند سو یا چند ہزار،، شاید سویرا نقوش دور میں تعداد لاکھوں بھی ہو مگر وہ اپنے دور عروج میں فیس بک کے قاریؑین کا عشر عشیر بھی نہیں تھے۔اس سے زیادہ اشاعت والا اردو میگزین کونسا ہو سکتا ھے جو ہر روز نیؑ شاعری اور نۓؑ افسانوں کے ساتھ نمودار ہو
3 دیکھتے دیکھتے رومن کے بجاۓ اردو اسکرپٹ کو اپنانے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا اورہوتا جارہا ہے۔اس تحریک کو آگے بڑھاتے ہوۓ آپ بھی ان پیج انسٹال کر لیں۔صرف دو ہفتے میں آپ کا لکھا کروڑوں لوگ ساری دنیا میں پڑھیں گے۔آپ کی راہ میں ادب کا کویؑ نمبردارحایل نہیں ہو سکتا
4۔اگرچہ میری پوسٹ نے رفتہ رفتہ ادب کے نمبرداروں کو چونکایا ضرور ہے کہ یہ "ڈایجسٹ رایٹر" ادب شناس بھی ہے اور لہجہ بتاتا ہے کہ ادب تخلیق بھی کر سکتا ہے مگر ضرورت ہے مہرتصدیق کی تو آۓ غرض مند بن کر۔۔مگر عزیزو۔۔ اب وقت بدل گیا ہے ۔ دنیا بدل گیؑ ہے۔اب میں بتاوں گا کہ وہ کتنے پانی میں ہیں ۔ ان کی نمبرداری کے دن پورے ہوۓ