’’ہم تعلیم یافتہ تھے! تعلیم ہمارا زیور تھا! تیس سال میں ہم جاہل ہو گئے!‘‘
مصطفی کمال نے یہ کہا تو کون سا غلط کہا۔ یہ کہہ کر وہ روپڑا اس لیے کہ بات ہی رونے کی ہے۔
جس کمیونٹی نے دانشور، عالم، فقیہہ، محدث، مفسر، خطیب، طبیب، شاعر اور ادیب پیدا کیے، اُسکمیونٹی میں جاوید لنگڑا اور اجمل پہاڑی پیدا ہونے لگے۔ کہاں سلیمان ندوی، کہاں عبدالماجد دریابادی، کہاں شبلی نعمانی، کہاں محمد علی جوہر، کہاں حکیم اجمل خان اور کہاں صولت مرزا اور نامنہاد سیکٹر کمانڈر! اِنا للہ و اِنا الیہ راجعون!
دوسروں پر کیا گلہ، خود اہلِ کراچی بھول گئے کہ ان کے اجداد کیا تھے؟ وہ کس درخت سے ٹوٹےاور پیوند کاری کا شکار ہو کر کہاں پہنچ گئے۔ جتنے منتظم، دانش ور، فقہا، محدثین، شاعر اور نثرنگار زمین کے اس مختصر ٹکڑے نے، جو دہلی اور پٹنہ کے درمیان ہے، پیدا کیے، عالمِ اسلام میںزمین کے کسی اتنے مختصر ٹکڑے نے شاید ہی پیدا کیے ہوں۔ مشہور مورّخ ضیاء الدین برنی لکھتاہے کہ علائو الدین خلجی کے دور میں جو علماء دہلی میں پائے جاتے تھے ان کی مثال اُس وقت کےبخارا، مصر، دمشق، اصفہان اور تبریز میں نہیں ملتی تھی۔ برنی لکھتا ہے کہ…’’بعض علما غزالی اوررازی کی ٹکر کے تھے اور فقہ کے بعض ماہرین کو امام ابویوسف اور امام محمد کا درجہ حاصلتھا‘‘
امیر خسرو نے دہلی کو قبّۂ اسلام لکھا۔ محمد تغلق کے دسترخوان پر دوسو فقہا موجود ہوتے تھے۔سکندر لودھی کے پاس روزانہ رات کو ستر علما تبادلۂ خیال کے لیے جمع ہوتے تھے۔ آگرہ کے کئیمدرسوں میں شیراز سے اساتذہ پڑھانے آتے تھے۔ صرف دہلی میں ایک ہزار تعلیمی ادارے تھے۔جونپور سے (جس کا آج نام بھی کوئی نہیں جانتا) سید عبدالاول جونپوری نے صحیح بخاری کی شرحفیض الباری لکھی۔ یہاں سے دیوان عبدالرشید اور ملا محمد جونپوری پیدا ہوئے جن کے بارے
میں شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ علامہ تفتازانی اور علامہ جرجانی کے بعد اس پائے کے دو علماءکبھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ مغلوں کے عہدِ زوال میں صرف نجیب الدولہ کے ہاں نو سو علماء تھے۔سرہند کے فرزند شیخ احمد نے تو سلطنتوں کی کایا پلٹ ڈالی۔ مجدد الف ثانی بن کر ابھرے۔ مجددیسلسلہ اب بھی شام، ترکی اور افغانستان موجود ہے۔ دہلی کے شاہ ولی اللہ کے خاندان نے علماء اورمجاہدین کی جتنی نسلیں اور جتنے گروہ پیدا کیے ان پر آج تک کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ پٹنہ کےصرف ایک محلے صادق پور نے تحریک مجاہدین کو کتنے ہی غازی اور شہید دیئے۔ مولانا ولایتعلی اور عنایت علی جن کا شمار بہار کے نوابوں میں ہوتا تھا فقیر ہو گئے۔ ان کی حویلیوں پر ہل چلادیئے گئے مگر بہار اور پٹنہ کے نام تاریخ کے صفحات پر ثبت کر گئے۔
یہی خطہ تھا، پٹنہ اور دہلی کے درمیان کا، جس نے بیدل، خسرو، فیضی اور ابوالفضل پیدا کیے جنکے نام سن کر ایرانی اہلِ علم بھی جھک جاتے ہیں۔ تاریخ، تہذیب، ثقافت اِس خطے کے آگے صدیوںہاتھ باندھ کر کھڑے رہے۔ نام گننے میں نہیں آ سکتے۔ میرؔ اور دردؔ سے شروع ہوں، غالب، شیفتہ،مومن، ذوق، انیس، دبیر، مفتی صدر الدین آزردہ، سرسید احمد خان اور ان کی قیادت میں لکھنے والوںکی پوری کہکشاں، ڈپٹی نذیر احمد، فرحت اللہ بیگ، سجاد حیدر یلدرم، شبلی، سلیمان ندوی، حمید الدینفراہی، محمد علی جوہر، حسرت موہانی، جگرمراد آبادی۔ سب کے نام یاد رکھنا اور اس فہرست کومکمل کرانا ممکن ہی نہیں، ممکن ہو بھی تو ازحد مشکل! ہفتے درکار ہیں۔ مصطفی کمال رویا! نہ روتاتو کیا کرتا! اب جو ہمارے دوست یہ کہہ رہے ہیں کہ اتنا عرصہ مصطفی کمال ایم کیو ایم میں رہا،پہلے کیوں نہ بولا تو یہ عجیب منطق ہے۔ یہ وہی اعتراض ہے جو قائد اعظم پر کیا گیا تھا کہ آپ پہلےفلاں جماعت میں تھے۔قائد اعظم کا جواب تھا کہ کسی زمانے میں وہ پرائمری سکول میں بھی پڑھتےتھے۔ جب کسی کو ہوش آ جائے اور جب کسی میں ہمت پیدا ہو جائے اور پلٹ پڑے تو اس بیداری کیتحسین ہونی چاہیے نہ کہ مذمت۔ ایک دوست نے تو اعتراض کرتے وقت حد ہی کر دی کہ مصطفیکمال نے جس مکان میں پریس کانفرنس کی وہ زیر تعمیر تھا۔ پلستر نہیں ہوا تھا۔ مرمت مکمل نہ تھی۔ان باتوں کا پریس کانفرنس کے مندرجات سے کیا تعلق ہے؟ کیا پریس کانفرنس کرنے سے پہلے کےڈی اے سے لکھوا کر لانا چاہیے تھا کہ مکان مکمل ہو چکا ہے۔ ایک نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ یہچوہدری نثار کا آخری پتا ہے۔ محمد علی جوہر یاد آ گئے۔ بغاوت کا مقدمہ زیر سماعت تھا۔ انگریزمجسٹریٹ نے پھبتی کسی کہ یہ غنڈے ہیں۔ محمد علی جوہر نے جواب دیا کہ ہاں! غنڈے ہیں، مگر اللہمیاں کے غنڈے ہیں، ملکہ برطانیہ کے غنڈے نہیں! اگر مصطفی کمال چوہدری نثار کا پتا ہے تو ’را‘کا پتا ہونے سے تو پھر بھی بہتر ہے۔ ایک طنز یہ کیا گیا کہ یہ تو ٹیلی فون آپریٹر تھا۔ اب یہ کونپوچھے کہ جن کے اہلِ خانہ لاس اینجلز کے گراں ترین حصوں میں رہائش پذیر ہیں، کیا وہ خاندانیرئیس ہیں؟ اِن حضرات میں سے بہت سوں کے اصل گھر اب امریکہ اور کینیڈا میں ہیں۔ کروڑوں میںکھیلتے ہیں۔ ایک جہاز سے اوقیانوس پار کرتے ہیں تو دوسرے سے بحرالکاہل کے اوپر پرواز کررہے ہوتے ہیں۔ مڈل کلاس؟ کون سی مڈل کلاس؟ بھائی! یہ مڈل کلاس نہیں تھی۔ لوئر کلاس تھی اوراب اَپر کلاس سے بھی کوسوں اُوپر جا چکی ہے۔
اس کالم نگار نے کئی بار لکھا ہے اور کئی بار کہا ہے کہ ایم کیو ایم جن حالات میں وجود میں آئی اُنحالات کے ذمہ دار اہلِ کراچی نہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلے ہم، جو اردو سپیکنگ نہیں ہیں، پنجابی،کشمیری، سندھی، پٹھان، بلوچی، سرائیکی اور نہ جانے کیا کیا بنے۔ آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس تنظیمجب کراچی یونیورسٹی میں بنی ہے تو یونیورسٹی میں پندرہ طلبہ تنظیمیں لسانی، نسلی اور علاقائیبنیادوں پر پہلے سے موجود تھیں۔ سندھی اور بلوچ وڈیرے، بھیانک مونچھوں کو تائو دیتے، پجارو پرکراچی میں گھومتے تھے، محلات میں رہتے تھے۔ ان کے خوفناک بندوق بردار محافظوں کو دیکھ کرکراچی کے پڑھے لکھے، متین، سوبر نوجوان، دل میں پیچ و تاب کھاتے تھے۔ مہاجر سٹوڈنٹس تنظیمنہ بنتی تو کیا مہاجروں کے بچے سرائیکی یا بلوچ طلبہ تنظیموں میں جاتے؟ ایم کیو ایم ردِ عمل میںبنی۔ ردعمل ہمیشہ شدید، غیر منطقی اور انتہا پسندانہ ہوتا ہے۔ مگر افسوس! الطاف حسین انتہا سےبھی کہیں آگے نکل گئے۔ جو کمیونٹی برصغیر کی ذہنی قیادت کرتی آ رہی تھی، جس کی ایک تاریخیجھلک اوپر دکھائی گئی ہے، اس کمیونٹی کو انہوں نے مجبور کیا کہ وہ گھر کا سازو سامان فروختکر کے کلاشنکوفیں خریدے۔ الطاف حسین میں ذہنی پختگی اور وژن ہوتا تو وہ پورے ملک کے تعلیمیافتہ طبقے کو ساتھ ملا کر ملک کی تقدیر بدل سکتے تھے۔ اس ملک کے پڑھے لکھے لوگ وڈیروں،جاگیرداروں، سرداروں، اسمبلیوں کے جدی پشتی ارکان سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ شورش کاشمیرینے ہفت روزہ چٹان کا اجراء کیا تو کسی نے کہا تھا کہ چٹانوں سے ٹکرانے والا شورش چٹان کا سہارالے کر بیٹھ گیا۔ افسوس! تاریخ نے الطاف حسین کو موقع دیا تھا کہ وہ بڑے لیڈر بنتے، ملک کی کایاپلٹ دیتے، مگر وہ ذہنی طور پر عزیز آباد سے نکل ہی نہ سکے۔
کراچی کے دوستوں سے بات ہوئی ہے۔ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کا مینڈیٹ اتنا بڑا ہے کہکچھ فرق نہیں پڑنے والا! اپنے آپ کو طفل تسلی دینے والی بات ہے۔ آخر اسی مینڈیٹ سے آٹھ لاکھووٹ پی ٹی آئی کے لیے نکلے۔ مصطفی کمال نے تالاب میں جو کنکر پھینکا ہے، اس سے پیدا ہونےوالا ارتعاش تھمنے والا نہیں! وقت آگے بڑھتا ہے، پلٹتا نہیں، یہ 2016ء ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار پررحم آتا ہے۔ کیا عجیب و غریب ذمہ داری ان کے سر آن پڑی ہے۔ بکری کو خرگوش ثابت کرنا ہےاور کوشش پوری کر رہے ہیں مگر ہائے افسوس بکری خرگوش بن نہیں سکتی۔
تردید اور شے ہے۔ الزامات کا مسکت جواب اور شے! مصطفی کمال نے کہا ہے… ’’سابق وزیر داخلہرحمن ملک کو 2013ء میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ارکان نے ’’را‘‘ سے رابطوں کے بارےمیں بریفنگ دی تھی۔ اس بریفنگ میں میں اور انیس قائم خانی بھی موجود تھے۔ لندن سے طارق اورمحمد انور بھی آئے تھے۔ محمد انور اور طارق میر نے رحمن ملک کو بتایا کہ ہم نے سکاٹ لینڈ کےسامنے اعتراف کر لیا ہے کہ ہمارے ’’را‘‘ سے رابطے ہیں۔ اب کیا کیا جائے؟‘‘
اس کا پس منظر بھی مصطفی کمال نے تفصیل سے بتایا۔ ایم کیو ایم پر لازم ہے کہ اس کا جواب ہاں یانہیں میں کسی ابہام کے بغیر دے۔
تصحیح: کل کے کالم میں سید سلیمان ندوی کی کتاب کا نام خطباتِ مدراس کے بجائے خطباتِ مدارسچھپ گیا ہے۔ یہ کمپوزنگ کی غلطی تھی۔ کتاب اُن خطبات کا مجموعہ ہے جو سید صاحب نے مدراسشہر میں دیئے تھے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔