اس کے لئے ہمیں تھورا سا پیچھے جانا پڑے گا۔ قصہ ابو سفیان اور ابو ہاشم کے دو کزن ابا و اجداد سے شروع ہوتا ہے۔ قبیلہ ایک ہی قریش کا ہے، دونوں 'شریکا قبائل' ہیں۔ یعنی کہ گرینڈ گرینڈ فادر ایک ہی ہے۔ لیکن اس سے دو شاخیں الگ الگ ہو جاتی ہیں۔ ابو سفیان اور ابو ہاشم۔ رسول پاک ص مدینے 622 میں ہجرت کرگے، ابو سفیان ایک کھاتا پیتا تجارتی خاندان ہے۔ ان کے تجارتی قافلے ارد گردکے ممالک مین چلتے ہیں۔ جب کہ ہاشم قبیلہ خانہ کعبہ کا متولی خاندان ہے۔ جیسے ہمارے ہاںمزار اور ان کے متولی ہوتے ہیں۔ یعنی ایک ہی باپ دادا کی دو اولادیں ایک دوسرے سے جدا ہوگئی۔ ایک اپنے وقت کی سرمایہ دار تجارتی اور سیاسی لحاظ سے طاقت ور ہو گئی اور دوسری اولاد ایک مزار ٹائپ مقدس جگہ خانہ کعبہ کے متولی ہیں اور اس حوالے سے احترام رکھتے ہیں۔ ۔ اب دونوں خاندانوں کے طبقاتی کریکڑ کو سامنے رکھنا ہے۔ جس نے ایک 'شریکے' کی صورت اختیار کرلی تھی۔ ابو سفیان کا تجارتی قافلہ شام کو جا رہا تھا۔ اور مدینے کو کراس کرگیا۔ تو نبی پاک ص نے 300 ساتھیوں کے ساتھ اسے راہ میں روکنے کی کوشش کی۔ مکہ میں ابوسفیان نے اپنے قبیلے کو مسلمانوں کے خلاف تیار کیا ہوا تھا۔ جن کی تعداد 1000 تھی۔ یہاں پر جنگ بدر ہوئی۔ جس میں مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اس کے بعد جنگ احد اور جنگ خندق ہوئی۔ یاد رہے کہ یہ دونوں کزن قبائل ہیں۔ اس کے بعد صلح خدیبیہ ہوئی، جس کے بعد مسلمانوں کو مکہ خانہ کعبہ جانے کی اجازت ملی۔ فتح مکہ کے بعد ابوسفیان نے اسلام قبول کرلیا، اور نبی پاک ص نے اعلان کردیا کہ جو خانہ کعبہ اور ابوسفیان کے گھر پناہ لے گا اسے معاف کردیا جائے گا۔۔۔ فتح مکہ کے بعد ابو سفیان بطور مسلمان جنگی کمانڈر کے طور پر لڑتا رہا، کہتے ہیں کہ طائف کے محاصرے میں اس کی ایک آنکھ بھی ضائع ہو گئی تھی۔ جنگ یرموک میں ابو سفیان کی (مسلمانوں کی طرف سے) لڑتے ہوئے دوسری آنکھ بھی ضائع ہو گئی تھی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایک قریش قبیلہ ہے جو عبدالمطلب اور معاویہ خاندان میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اگرچہ رسول پاک ص کے تحت دونوں مسلمان ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان کے درمیان ایک پرانی چپقلش مسابقت جاری ہے۔ اور ان دونوں کا طبقاتی کریکڑ بھی مختلف ہو جاتا ہے۔ ایک تاجر پیشہ ہے دوسرا ایک مقدس درگاہ کا متولی ہے۔
بنو ہاشم اور بنو امیہ کے درمیان مسلسل تضاد اور تصادم کو ہم تاریخی تناظر میں ہی رکھ کر سمجھ سکتے ہیں۔ مذہبی تاریخ تقدیسی تاریخ ہوتی ہے۔ مذہبی دائرے میں رہ کر عقلی تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔ کہ کون کیا ہے اور کس کا کیا کردار ہے۔ اسلام کے بانی بنو ہاشم ہے، لیکن قبائلی، معاشی، سیاسی اثررسوخ بنو امیہ قبیلے کے پاس ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت بھی ہے اور مفادات کا ٹکراو بھی ہے۔ اور اپنی اپنی قبائلی وابستگی بھی ہے۔ ہر کوئی اقتدار کا بڑا حصہ اپنے خاندان میں رکھنا چاہتا ہے۔۔۔ یہ باہمی لڑائی رسول پاک کی اسلامی جدوجہد کے دوران بھی رہی، اور رسول پاک کی وفات کے بعد بھی مسلسل جاری رہی۔ کربلا کا واقعہ کوئی Isolated واقعہ نہیں تھا۔ اس سے پہلے ہر خلیفہ کے چناو ، اس کے دوران اقتدار اور ہر خلیفہ کے خاتمے پر یہ دشمنی مزید بڑھک اٹھتی تھی۔ چاروں خلفا کا دور انہیں دو گروہوں کے درمیان مسلسل چپقلش اور ٹکراو کی خونی داستان ہے۔ جنگ جمل کربلا سے کم چھوٹا واقعہ نہ تھا۔۔۔
ہم سیکولر نقطہ نظر سے جب اسلام کی ابتدائی زمانے کی تاریخ (ایمپائر بننے تک) کو دیکھتے ہیں۔ تو ان دونوں گروہوں کا طبقاتی کریکڑ اگر سامنے رکھیں، تو ایک کی ہار اور دوسرے کی جیت میں جو تاریخی عوامل ہمیں ملتے ہیں۔۔۔ وہ کچھ یوں ہیں۔ جو انٹی بنو امیہ گروہ ہے۔ اس میں قبائلیت کا عنصر غالب تھا،وہ اپنے مقامی اور قبائلی کلچر کو برقرار رکھنے کے حامی تھے۔ ایک تو امیہ خاندان پہلے سے امیر تجارت پیشہ خاندان تھا۔ انہین اپنے وقت کے لحاظ سے ترقی پسندانہ رحجان کا حامل بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو خانہ کعبہ کے متولی ہیں۔۔ چنانچہ اسلامی سلطنت کا پھیلاو ہوا۔۔۔ تو حالات کے مطابق خود کو بدلنے کی پہل کاری بنو امیہ خاندان میں ہی آئی۔۔۔ امیہ خاندان پرانے پس ماندہ طرز معاشرت اور قبائلیت کو چھوڑ کر جاگیردارنہ سماج کے سیاسی نظام بادشاہت کی طرف رحجان رکھتے تھے۔۔ کیونکہ کے صحرائے عرب سے باہر آس پاس بڑی بڑی شہنشائیت پر مبنی سلطنتیں تھی، جن پر اب اسلام کا قبضہ ہورہا تھا۔ اب اسلامی سلطنت کو 'مدینے کی قبائلی پس ماندہ سٹی اسٹیٹ' کی طرح نہیں چلایا جا سکتا تھا۔۔ جہاں نہ کوئی پولیس تھی، نہ کوئی ریاستی ادارے تھے، خلیفہ مسجد میں بیٹھتا تھا۔۔ اور کسی کچے مکان میں رہتا تھا۔۔۔ اٹھ کرمسجد میں آتا تھا۔ راستے میں قتل ہوجاتا تھا۔۔۔خلیفہ سے مراد ایک بزرگ بندہ تھا۔۔ لیکن اب مسلم فاتحین کے سامنے پہلی دفعہ ترقی یافتہ تہذیبوں کا رہن سہن اور طرز حکمرانی کا ماڈل آ رہا تھا۔۔۔اس پرغور کریں، اسلامی سلطنت قائم ہونے کے بعد مدینہ خالی اور اجاڑ ہوگیا
چنانچہ ایک گروہ اپنی پس ماندہ طرز زندگی کا حامی ہونے کی وجہ سے شکست کھا گیا، اور اسلام کی فتوحات اور اسے ایمپائر میں بدلنے کا رول بنو امیہ کو مل گیا۔۔ جو تاریخی لحاظ سے خود کو نئے حالات میں ڈال گے
“