یہ میدان خُم میں جو من کُنتُ مولا کا نعرہ لگا تھا
تو مسجد میں کوفے کی
نفسِ مُحّمد علی کی شہادت
اُسی قول سرور سے تمہاری نسلوں کی تھی یہ عداوت
یہ من کُنتُ مولا کا نعرہ ہی تھا جس کی آتش کی حدت
ہمیں کربلا میں یزیدوں کی نسلوں کے سینوں میں اُٹھتی
نظر آ رہی تھی
سُنو بدر کے اُن شہیدوں کے بدلے کی باتیں
اسی کربلا میں یزیدوں نے کی تھیں
وہ اکسٹھ تھی ہجری
مگر آج چودہ سو تینتالیس ہجری میں بھی پھر سے تازہ وہی کربلا ہے
وہی مسجدِ گوفہ کا ہے تسلسل
اُسی ابنِ مُلجم کی نسلوں کی سینوں میں پلتی عداوت
وہی کربلا کے یزیدوں کی نفرت
مگر ان ہزیمت زدہ سب یزیدوں کی نسلوں کو پیغام پہنچے
ہمارے بُریدہ سروں سے بھی آواز آتی ہے ہائے حُسینا
ہمارے کٹےبازؤں نے لہو سے لکھا ہے وفا کا ترانہ
ہمیں یاد رکھے گا صدیوں تلک تا ابد یہ زمانہ
ہزیمت زدہ ان یزیدوں کی نسلوں کو پیغام پہنچے
تمہاری کمانوں میں جتنے بھی ہیں تیر سارے چلا لو
ہمارے سروں کو تنوں سے اُڑا دو
ہمارے لہو کو نچوڑو کھُلے پانیوں میں بہا دو
مگر یاد رکھو
ہمیں عشقِ حیدر سے تم باز رکھو یہ ممکن نہیں ہے
حُسین ابنِ حیدر کے ماتم سے روکو یہ ممکن نہیں ہے
ہمارے لہو کو ہوا میں اُچھالو یہ ممکن نہیں ہے
یزیدوں کی نسلوں کو پیغام پہنچے
ہمارے سروں پر عَلَم حشر تک ہو گا عباس کا
ہمارے لہو سے صدا ہائے اکبر کی آتی رہے گی
ہمیں ٹکڑے ٹکڑے ہوئی لاشِ قاسم رُلاتی رہے گی
یزیدوں کی نسلوں کو پیغام پہنچے
کہ ہائے حُسینا کا ماتم ابد تک رہے گا
یزیدوں کی نسلوں کو پیغام پہنچے
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...