یتیمی کو آج دو برس بیت گئے!
ابو جان سے ساری زندگی ایک مقابلے کی فضا رہی، ابو کو خبر نہ ہو۔۔ بس یہ کام۔ہو جائے ابو نہ دیکھ لیں کے خوف کے ساتھ بڑھے ہو گئے جو باپ اپنی گود میں کھلاتا تھا اپنی ویسپا ہر لیے لیے گھومتا تھا اسے سمجھانے والی عمر میں داخل ہو گئے۔ ابو اب ایسا نہیں ہوتا۔۔ابو آپ کو تو کچھ پتہ ہی نہیں بحث در بحث! اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگے باپ ہر ایورڈ ہر کامیابی پر فخر کرتا اور ہم۔اس فخر کو اپنا حق سمجھتے۔ ابو کب بوڑھے ہوتے چلے گئے مقابلے کی دوڑ میں احساس ہی نہیں ہوا۔ گھر کے کام کیسے ہو جاتے ہیں سودا کب آ جاتا ہے فروٹ گوشت ہر چیز کس وقت میں آ جاتی ہے معلوم نہیں چلا۔۔ پانی کی موٹر جینریٹر گاڑی کچھ بھی کب خراب ہوئی کیسی مشقت سے صحیح ہوئی یہ ادراک کبھی نہیں ہوا۔۔باپ اس احساس کے ساتھ کہ میرا بیٹا 18 18 گھنٹے کام کرتا ابھی اسے سونے دو اسے اے سی کی ٹھنڈک میں چھوڑ کر کراچی کی 45 ڈگری کی گرمی میں بتائے بنا باہر جا کر گھر کے کئی کام نمٹا آتے۔تنخواہ جلد ختم ہو جانے کی کوئ پریشانی نہیں ہوتی کہ ابو جان سے ادھار لے لیں گے۔ادھر ابو کو سب پتا چل جاتا تھا کے بیٹے کی جیب کب خالی ہے اور کب اس میں مال ہے!
عمر بھر اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنے والے چیخنے چلانے مارنے والے خیال کرنے والے محبت کرنے والے ماں باپ جب مر جائیں تو دنیا آپ کے منہ کو آ جاتی ہے جیسے ہر پریشانی ہر بدمعاش کو علم ہو جاتا ہے کہ اب اس کا باپ نہیں اس کے پیچھے چیخنے والا اب نہیں رہا۔۔۔!
دھوپ ہے کیا اور سایہ کیا ہے اب معلوم ہوا
یہ سب کھیل تماشہ کیا ہے اب معلوم ہوا۔۔۔
ابو جان آپ کو سلام آپ نے ایک بھرپور زندگی گزاری آپ کو سلام کے آپ نے ہر ذمے داری بہترین طریق پر سر انجام دی۔ آپ کو سلام کہ آپ نے ہمیں ایک رکھا! آپ نے ہمیں سکھایا کہ انسان کوئی بھی ہو اس سے محبت اور اخلاق سے پیش آو۔۔۔ آپ کا شکریہ ابو جان آپ نے ہمیں زندگی دی سر اٹھا کر جینا سچ بولنا سکھایا۔۔۔!
سلامتی رحمت مغفرت! میرے ابو ڈاکٹر مقصود احمد خان(مرحوم)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔