یش پال کا جھوٹا سچ
ناول فسادات اور اس کے نتیجے میں جلاوطن ہونے والے کچھ کرداروں کی کہانی بیان کرتا ہے۔
برطانوی ہند کی نو آبادیاتی حکومت اور بڑی سیاسی پارٹیوں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنم کانگریس کی منظوری سے برصغیر کی دو ریاستوں میں تقسیم کا اعلان ہونے کے بعد بھیانک فسادات شروع ہو گئے۔ ان فسادات کے بڑے مرکز بنگال اور پنجاب کے صوبے تھے کیونکہ باقی صوبوں کے برعکس انہی دونوں کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ان فسادات کی شدت پنجاب میں سب سے زیادہ تھی۔ مارچ 1947ء میں راولپنڈی کے گردونواح سے شروع ہونے والے فسادات رفتہ رفتہ پورے مغربی اور پھر مشرقی پنجاب میں پھیلنے لگے۔ اگست 1947ء میں نوآبادیاتی حکومت کے اقتدار مقامی سیاسی پارٹیوں کو سونپ دینے کے بعد فسادات کی اس آگ نے اور تیزی سے بھڑک کر کئی مہینوں تک پنجاب کے دونوں حصوں کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا اور ان کے نتیجے میں مشرقی اور مغربی پنجاب کے درمیان مذہبی بنیاد پر آبادی کے مکمل تبادلے کا فیصلہ کیا گیا۔ قابل اعتبار تخمینے کے مطابق خانہ جنگی کی سطح کو پہنچنے والے ان فسادات میں پنجاب میں تقریباً آٹھ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور ایک کروڑ کے لگ بھگ لوگوں نے سرحد پار کر کے اِس طرف یا اُس طرف پناہ لی۔
ہندی ادیب یش پال کا ناول جھوٹا سچ ان فسادات اور اس کے نتیجے میں اکھڑ کر جلاوطن ہونے والے کُچھ کرداروں کی زندگی کی کہانی بیان کرتا ہے۔ اُردو کے پڑھنے والوں کے لیے اس ناول کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا محل وقوع تقسیم سے پہلے کا لاہور ہے جس کا سماجی اور ثقافتی تانا بانا ان فسادات اور تبادلۂ آبادی کے نتیجے میں بکھر کر رہ گیا۔ یہ کہانی کسی اُردو ناول میں اتنی تفصیل سے نہیں لکھی گئی۔ یہ ناول 1940ء کی دہائی کے لاہور کے پس منظر میں شروع ہو کر تقسین کے واقعات سے گُزرتا اور اپنے وطن سے اکھڑے ہوئے کرداروں کی نئی جگہوں پر نئی زندگیوں میں اپنے قدم جمانے تک کا حال حقیقت نگاری کے اسی اسلوب میں سامنے لاتا ہے جس کی روایت کا آغاز اُردو اور ہندی دونوں میں پریم چند سے ہوا اور جس کی مضبوط بنیاد پر اُردو فکشن کے تمام بڑے ادیبوں نے ایک شاندار عمارت تیار کی۔ اس ناول کا پنجابی ترجمہ چند سال پہلے لاہور سے شائع ہو چُکا ہے۔
یش پال کی پیدائش 1903 میں کانگڑا کے پہاڑی علاقے (ہماچل) کے ایک گاؤں کاشی پور میں ہوئی۔ ان کی والدہ پریم دیوی نے تنگدستی کے عالم میں یش پال اور ان کے بھائی کی تن تنہا پرورش کی۔ وہ چاہتی تھیں کہ یش پال آریہ سماج کے مبلغ بنیں، سو انہوں نے یش پال کو بچپن میں کانگڑا کے ایک روایتی ہندو مدرسے (کرُوگل) میں داخل کرا دیا۔ لیکن وہاں اپنی غربت اور کمزور صحت کے باعث یش پال کو اپنے ساتھی طلبا کے مذاق اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس لیے وہ جلد ہی اپنی والدہ کے پاس لوٹ آئے۔ انہوں نے اپنی اسکول کی تعلیم فیروز پور میں مکمل کی اور 1917ء میں لاہور آ کر ڈی اے وی کالج میں داخل ہو گئے۔ یہاں ان کی ملاقات بھگت سنگھ اور سُکھ دیو تھاپڑ سے ہوئی اور وہ ان کی انقلابی تحریک میں شامل ہو گئے۔ ان کی نظریاتی اور انقلابی سرگرمیوں کا سلسلہ لاہور، کانپور، الٰہ آباد، سہارن پور وغیرہ میں 1932ء تک جاری رہا جب انہیں الٰہ آباد میں گرفتار کر لیا گیا۔ دہشت گردی کے الزام میں انہیں چودہ سال کی سزا دے کر بریلی جیل بھیج دیا گیا۔ قید کے دوران ہی ان کی انقلابی ساتھی اور محبوبہ پرکاش دتی نے جیل قوانین میں ایک رخنے سے کام لیتے ہوئے جیل پہنچ کر ان سے شادی کی جو برصغیر میں اپنی نوعیت کا اکلوتا واقعہ تھا۔ بعد میں قانون میں ترمیم کر دی گئی اور اس قسم کا کوئی واقعہ اس کے بعد پیش نہیں آیا۔ چھ سال بعد عام معافی کی بنیاد پر بہت سے سیاسی اور انقلابی قیدیوں کو رہا کیا گیا اور اس طرح 1938ء میں یش پال رہا ہو گئے۔ لیکن ان کے پنجاب میں داخل ہونے پر پابندی تھی۔ اس لیے انہوں نے لکھنؤ میں رہ کر صحافتی سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ انقلابی تحریک کی ناکامی اور خاتمے کے بعد ان کی سیاسی ہمدردیاں کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہو گئیں۔ انہوں نے 1940ء میں لکھنؤ سے ایک ہفتہ وار اخبار جاری کیا جو ہندی میں وِپلو (Viplav) اور اُردو میں باغی کے نام سے چھپتا تھا۔ لیکن یہ سال بھر بعد ہی پابندی کا شکار ہو گیا کیونکہ حکومت نے اس سے بھاری ضمانت طلب کر لی تھی۔ یہ ہفتہ وار آزادی کے بعد دوبارہ جاری ہوا۔
قید سے رہا ہونے کے بعد ہی یش پال نے فکشن نگاری کا آغاز کیا۔ ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ پنجرے کی اُڑان 1939ء میں اور پہلے دو ناول دادا کامریڈ 1941ء اور دیش دروہی (غدار) 1943ء میں شائع ہوئے۔ کہانیوں کے دیگر مجموعے ترک کا طوفان، پھولوں کا کُرتا اور دھرم یُدھ کے عنوانات سے چھپے اور باقی ناول وِدیا، گیتا آدمی کے روپ، امیتا، جھوٹا سچ، اپسرا کا شراپ، میری تیری اُس کی بات، وہ طوفانی دن اور کیوں پھنسے شائع ہوئے۔ ان کی دیگر تحریروں میں دو سفرنامے راہ بیتی اور دیکھا سوچا سمجھا، اور تین جلدوں میں سوانح حیات سنہا ولوکن شامل ہیں۔ اس آپ بیتی کی چوتھی جلد نامکمل تھی جب 1976ء میں یش پال کا انتقال ہوا۔
یش پال کے اس عظیم ناول کا اُردو ترجمہ منیرہ سورتی نے کیا جو اُردو میں کہانیاں اور سٹیج اور ٹی وی کے ڈرامے تحریر کرتی رہی ہیں۔