نہیں!یہ محض ایک تصویر نہیں۔ یہ تاریخ ہے۔ تاریخ ہی نہیں انسائیکلوپیڈیا ہے۔ یہ تصویرِ پاکستان کی تاریخ ہے اور تحریک پاکستان کی بھی۔ اور سچ پوچھیے، تو اس سے ایمان بھی تازہ ہوتا ہے۔
یہ تصویر ملک کے سارے اخبارات میں صفحۂ اول پر شائع ہوئی ہے۔ نمایاں ترین اس میں مولانا فضل الرحمن ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ فوٹو گرافر نے کیمرے کا زیادہ فوکس ان کی دلفریب شخصیت پر کیا ہے۔ وہ مسکرا رہے ہیں۔ لیکن کُھل کر نہیں۔ یہ مسکراہٹ نیم بازکلی کی طرح ہے۔ ادھ کھلی کلی! چہرے پر نُورہے ۔ کوہستانِ سیاست سے آبشاروں کی شکل میں گرتا، شور مچاتا ، دائرے بناتا نور!اور یہی وہ نُور ہے جس سے ایمان تازہ ہورہا ہے!
ان کے بائیں طرف میاں محمد نواز شریف ہیں۔ کیا سنجیدگی اور کیا متانت ہے! سبحان اللہ ! سبحان اللہ! ڈائس پر مائیک ہیں۔ بہت سے مائیک۔ میاں صاحب ، تصویر میں یوں لگتاہے ، کچھ کہہ رہے ہیں۔ میاں صاحب کے ساتھ، بائیں طرف ، چودھری نثار علی خان ہیں لیکن وہ ذرا پیچھے کھڑے ہیں۔ ان کے آگے شہباز شریف ہیں۔ چودھری نثار علی خان زیرک انسان ہیں۔ پیچھے اس لیے کھڑے ہیں کہ آگے کھڑا ہونا، پارٹی سربراہ کے بھائی کا حق ہے۔ مانا کہ نثار علی خان کی خدمات زیادہ ہیں، لیکن ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں خون کا رشتہ، خدمات کے رشتے سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے!
یہ تصویر ، جو دودن پیشتر پورے ملک کے بڑے اورچھوٹے، قومی اور علاقائی، اردو اور انگریزی ، تمام اخبارات کے پہلے صفحوں پر چھپی ہے ، ملکی سیاست میں بہت اہم ہے۔ دونوں بڑے رہنما مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں تعاون پر اتفاق ہُوا ہے۔ نوازشریف نے مولانا کی مجوزہ اے پی سی میں شرکت کی دعوت قبول فرمالی ہے۔ مولانا نے فرمایا ہے کہ قومی امور پر ہماری سوچ ایک ہے۔
جیسا کہ ہم نے کہا ہے یہ تصویر تاریخ ہے۔ تاریخ ہی نہیں انسائیکلوپیڈیا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا ہی نہیں، جہانِ حیرت ہے۔ حیرتوں کا ایسا جہان‘ ہم جس کے ایک کنارے پر کھڑے ہیں اور وہ مناظر دیکھ رہے ہیں جو دلچسپ ہیں اور عبرت ناک بھی !
تاریخ مصر ہے کہ یہ تصویر کانگرس اور مسلم لیگ کے اشتراک کی تصویر ہے!کانگرس!کون سی کانگرس؟ وہی کانگرس جس میں گاندھی تھے، نہرو تھے، پٹیل تھا اور حضرت مفتی محمود تھے!مفتی صاحب جمعیت العلما ء ہند میں تھے۔ اور جمعیت العلماء ہند کانگرس کی زبردست حامی تھی ۔ دونوں جماعتیں یک جان دوقالب تھیں۔ جمعیت العلماء ہند پاکستان کے قیام کی شدید مخالف تھی۔ مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کا مناظرہ یا مناقشہ ، یا معاملہ ، جوکچھ بھی تھا، سب کو معلوم ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے، جواسی مکتب فکر کے سرکردہ عالم تھے‘ 1945ء میں جمعیت العلماء اسلام کی بنیاد ڈالی‘ وہی اس کے صدرتھے۔ یہ جمعیت ، جمعیت العلماء ہند کی سیاسی مخالف تھی۔ یہ پاکستان کی حامی تھی۔ وہ دشمن۔ مفتی محمود اس جمعیت میں تھے جو کانگرس کے ساتھ تھی!مولانا فضل الرحمن مفتی صاحب مرحوم کے فرزند ارجمند ہیں اور خلف الرشید !ان کا یہ قول زریں پاکستان میں کسے نہیں یاد کہ ’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں نہیں شریک!‘‘
آج تک یہ راز نہیں کھل سکا کہ جو جمعیت العلماء اسلام پاکستان کے قیام کی حامی تھی، قائداعظم کی دستِ راست تھی، جس کی بنیاد مولانا شبیر احمد عثمانی نے رکھی تھی اور جس کے صدر مولانا عثمانی ہی رہے، یہاں تک کہ انہوں نے جان‘ جان پیدا کرنے والے کے سپرد کردی، یہ جمعیت مفتی محمود صاحب کی آغوش میں کیسے آگئی؟
قیس کے محمل سے لیلیٰ کو اٹھا لیتے ہیں لوگ
یوں بھی ہوتا ہے کہ آزادی چرالیتے ہیں لوگ
کیا المیہ ہے اور کیا طلسم ہوشربا ہے کہ جس جمعیت العلماء اسلام کی بنیاد مولانا شبیر احمد عثمانی نے رکھی، اس کی سربراہی مولانا فضل الرحمن کے پاس ہے جو پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک ہی نہیں تھے۔ نہ صرف یہ کہ شریک نہیں تھے، اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ مسلم لیگ کا اتحاد ہوا ہے!جی ہاں! اسی مسلم لیگ کا جس کے سربراہ کو، ان کے معتقدین کا گروہ قائداعظم ثانی کہتا ہے !ایک طرف قائداعظم کی مسلم لیگ ۔ دوسری طرف پٹیل کی کانگرس کی حامی جمعیت العلماء اسلام !دونوں نے قوم کو اعتماد میں لیا ہے کہ قومی امور پر ہماری سوچ ایک ہے !
ہم نے کہا تھا کہ یہ تصویر تاریخ ہے۔ یہ بتانا تو ہم بھول ہی گئے کہ یہ تصویر فلم بھی ہے۔ فلم چلتی ہے اور منظر ایک ایک کرکے سامنے آتے ہیں ۔ ایک منظر میں ڈیزل کے ٹینکر کے ٹینکر چلے جارہے ہیں۔ دوسرا منظر دیکھیے اس میں پرویز مشرف کی الاٹ کردہ سرکاری، زرعی زمینیں ہیں جو ڈیرہ اسماعیل خان کے نواح میں ہیں۔ اگلے منظر میں کشمیر کی لائن آف کنٹرول کے بارے میں وہ ارشادات ہیں جو بھارت جاکر کہے جاتے ہیں۔
کیمرہ مولانا فضل الرحمن سے ہٹ کر میاں نواز شریف پر پڑتا ہے۔ منظر آرہے ہیں منظر جارہے ہیں۔ یہ منظر دیکھیے ، یہ میاں صاحب کی مسلم لیگ ہے۔ یہ دوسرا منظر دیکھیے ، یہ قائداعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ ہے۔ ایک منظر میں محلات پر مشتمل پُورا شہر ہے جسے جاتی امراکہا جاتا ہے۔ دوسرے منظر میں قائداعظم کراچی آکر گھر بناتے ہی نہیں، بناتے تو اس کا نام یقینا بمبئی نہ رکھتے۔ ایک منظر میں جدہ کے کارخانے ہیں دوسرے میں قائداعظم جرابیں واپس کررہے ہیں کہ مہنگی ہیں۔ ایک منظر میں کابینہ کی اسلام آباد میٹنگ کے لیے لاہور سے کھابے آرہے ہیں۔ دوسرے میں قائداعظم کہہ رہے ہیں کہ کابینہ کے ارکان گھر سے چائے پی کر آیا کریں۔ ایک منظر میں لندن کی وسیع وعریض جائیدادیں‘ فلیٹ اور کاروبار ہیں دوسرے منظر میں قائداعظم پاکستانی سفیر سے سرکاری گاڑی کی خریدکے سلسلے میں پیسے پیسے کی بچت پر اصرار کررہے ہیں۔ ایک منظر میں باورچی جہاز پر سوار ہوکر جدّہ جارہا ہے۔ اس کا کام صرف باقرخانیاں بنانا ہے۔ دوسرے منظر میں قائداعظم لاہور سے منگوائے گئے کپورتھلہ کے باورچی کو واپس بھجوارہے ہیں جو ان کے آخری ایام میں کوئٹہ منگوایا گیا تھا۔ ایک اور منظر دیکھیے، پنجاب کے وزیراعلیٰ جہاز پر بیٹھ کرطبی معائنے کے لیے سمندر پار تشریف لے جارہے ہیں۔ (طبی معائنے کے لیے ایسے سفر کتنے ہوئے ، تعداد شمار سے باہر ہے) دوسرے منظر میں ایک مفلوک الحال گائوں ڈسپنسری کا کشکول لیے لاہور کی طرف دیکھ رہا ہے اور وزیراعلیٰ کی حکومت کے پاس اس کے لیے بیس لاکھ روپے کی رقم نہیں!
قیام پاکستان کے جرم میں شریک نہ ہونے والی جمعیت العلماء اور مسلم لیگ (ن) میں ’’انتخابی تعاون‘‘ ظاہر ہے کراچی کے لیے تو نہیں کہ اس مقتل گاہ میں میاں صاحب دلچسپی لے رہے ہیں نہ مولانا صاحب ۔ یہ انتخابی تعاون پنجاب کے لیے بھی نہیں کہ پنجاب کے میدان مولانا صاحب کی جولانگاہ ہی نہیں! پنجاب میں ان کی دلچسپی اتنی ہی ہے کہ ان کا بھاری بھر کم لمبا چوڑا سرکاری پروٹوکول والا قافلہ اسلام آباد سے نکلے تو پنجاب کے مغربی علاقوں سے ہوتا ہوا ڈی آئی خان کی کچھار میں پہنچ جائے۔ یہ انتخابی اتحاد بلوچستان کے لیے بھی نہیں کہ مسلم لیگ نو ن وہاں وجود ہی نہیں رکھتی ۔ مولانا صاحب نے وہاں مدرسوں کا جال بچھایا ہوا ہے اور صوبہ ان کی مٹھی میں ہے۔ یوں بھی سیاسی مولانائوں کا جادو وہیں چلتا ہے جہاں نہ تعلیم ہو نہ صنعت !
اندھا بھی دیکھ رہا ہے اور بچہ بھی سمجھ رہا ہے کہ یہ انتخابی تعاون خیبرپختونخوا کے لیے ہے جہاں مولانا اور میاں دونوں کو تحریک انصاف سے خطرہ ہے۔ یہ وہ واحد علاقہ ہے جہاں مولانا اور میاں دونوں صاحبان کی مشترکہ دلچسپی ہے۔
اگر میاں صاحب اس خوش فہمی میں ہیں کہ خیبرپختونخوا میں عمران خان کا مقابلہ کرکے، مولانا سے وہ کچھ سیاسی فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ تو اس پر تبسم ہی کیا جاسکتا ہے ! کہاں میاں صاحب اور کہاں مولانا صاحب! میاں صاحب کاروبار میں ایک کے لاکھ بناتے ہوں گے، لیکن یہ تو سیاست ہے اور سیاست میں مولانا سے فائدہ اٹھانا شیر کے منہ سے گوشت نکالنے والی بات ہے۔ جن مولانا صاحب نے آٹھ سال پرویز مشرف کو جیب میں اور پانچ سال آصف زرداری کو مٹھی میں رکھا، میاں صاحب کو فارسی شاعری کا ذوق ہوتا تو ان مولانا صاحب کو اقبال کا یہ مصرع ہی سنادیتے۔ ع
مہرو بے مہری و عیاری ویاری ازتست
http://columns.izharulhaq.net/2013_02_01_archive.html
“