یاراں۔ مہرباں۔ قدر داں۔۔ لہور لہور ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شاعر نے اعتراف کیا تھا ؔ؎
زنداں میں بھی شورش نہ گیؑ اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
اپنے اندر کے آوارہ گرد کو اب بھی قرار راس نہیں۔۔ سکون میں جمود محسوس ہوتا ہے تو مسافتیں کھینچ لیتی ہیں۔۔۔۔ ؎ یونہی دل میں ایؑ کہ گھر سے نکل۔۔اور چل شہرنگاراں کواور اس کےحسن کا پرانا اسیر جا اترا اسی بستی میں جس کے لۓ اختر شیرانی نے کہا ؎یہی بستی وہ ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی۔۔ یادوں سے بھری اس نگری میں وقت سدا سہاگن ہے۔۔جوصورت ہے آج بھی کسی ریحانہ کی ہے۔۔ ہرنقش خیال میں وہی عکس رخ یار سامنے رہتا ہے ۔۔کب کہاں ان آنکھوں کو فیض کے اولیں دیدار نےفیضیاب کیا تھا تو کہاں سبط حسن اور خواجہ خورشید انورکی دید نے۔۔بس انہی بیتے دنوں سے گلے ملنےکیلےؑ میں نے پھر کچھ وقت" یادوں کے صنم خانے" پاک ٹی ہاوس: میں گزارا۔۔ ہر صاحب تصویر کا تصور کیا جو پیش نظر تھا۔۔ پرانی کتابوں کے ہفتہ وار عرس میں حاضری سے پہلے لاہوری خون کو گرمانےکے لےؑ کھاےؑ پرانی انارکلی میں نان سری پاۓؑ ۔۔۔ ۔پھر نقوش کا ایک یادگار افسانہ نمبر اور کچھ دیگر انمول کتب کا خزینہ سمیٹے لوٹا۔ دل کو سمجھایا کہ پھر ملیں گے اگر خدا لایا۔۔کچھ تاریخ کے گم شدہ خزانے تلاش کےؑ۔ان کا احوال پھر سہی۔یار زندہ صحبت باقی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔