سال گزشتہ ی طرح امسال بھی پہلے خواص کا "ادبی میلہ" سجایا گیا جس کے بارے میں یہ ناچیز اپنے تاثرات ارسال کر چکا کہ اس میں ادب کا بس نام تھا جو تھا وہ سیاست تھی ۔ہم عوام کیلۓ "کتاب میلہ" چند دن کے فرق سے سجایا گیا۔اپنے تاثرات جو رقم کۓ وہ کسی پر اسرار قوت کی ریشہ دوانی کے نتیجے میں یوں غایب ھوۓ کہ ناطقہ سر بگریباں۔۔کمپوٹر کی سمجھ بوجھ کاحال یہ ھے کہ لیپ ٹاپ کو جدید قسم کے ٹایُپ رایٹر کے سوا کچھ نہ سمجھا نہ جانا۔۔اب مداوا اور کچھ نہ تھا بجز عرض مکرر کے۔جانتا ہوں کہ ؎غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ھیں اور گزرے وقت کی روداد کیلۓ کویؑ گوش بر آواز نہیں لیکن غالب کے پیروکار ہیں ؎ خط لکھیں گے گر چہ مطلب کچھ نہ ہو
چلۓ یاران نکتہ داں سے ایک سوال کرتے ھیں۔۔کیا کتاب میلہ کی تاریخ انعقاد 23 اپریل رکھنے کی کویؑ وجہ ھے؟۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔ ہے جناب ۔۔ جو خود سوال کرنے والا نہیں جان سکتا تھا اگر ہمارے چلتے پھرتے انسایکلو پیڈیا عقیل عباس جعفری نہ بتاتے کی یہ شیکسپیؑر کی تاریخ ولادت بھی ھے اور تاریخ وفات بھی۔۔ تاریخ ادب کے سب سے بڑے ڈرامہ نگار کی زندگی اور موت بھی ایک ڈراماٰیؑ واقعہ۔۔
مختصرا" سابقہ روایات کے مطابق یہ کتاب میلہ نیشنل بک فاونڈیشن کی قابل صد ستایش روایات کی تاریخ میں ایک اورتمغہؑ امتیاز۔۔ایک چھت تلے سینکروں نہیں ھزاروں کتاب
کی جستجو میں سرگرداں نظر انے والوں کیلۓ سب کی جستجو اور ذوق کی تکمیل و تسکین کا وافر ساماں تھا اورحسن طلب کی تسکین کیلۓ قیمت کو دسترس میں رکھا گیا تھا چنانچہ یہ نظارہ چشم حیران کو اس دور میں اور اس دیس میں ناقابل یقین لگا کہ کتاب خریدنے والے قطار باندھے نظر آییں۔۔مگر ایسا تھا
جو بات مجھے گزشتہ سالوں کے تجربے سے مختلف لگی بچوں کے ادب کی فراوانی تھی۔مجھے ہر عمر کے بچوں کے ذوق کی تربیت کا ساماں نظر آیا۔اس سال متعدد اہل علم کی تصنیفات کا قابل صد ستایش ذخیرہ کتب ایک امید افزا مستقبل کی نشاندہی کرتا تھا چنانچہ میں نے بھی بچو کی کتابوں کی ریکارڈ خریداری کی اور خاندان کے سب بچوں کو کتابوں کا تحفہ دیا،اس میں عالمی ادب کا انتخاب بھی تھا اور موضوعاتی افادیت کے ساتھ طبع زاد کھانیاں بھی۔۔بچوں کیلۓ پیش کۓ جانے والے بیشتر پروگرام تربتیی پھلو بھی رکھتے تھے اور تخلیقی بھی۔ایک سیشن میں بچوں کے تین اسٹیج ڈرامے پیش کۓؑ گۓؑ دوسرا کہانیوں کا علمی و عالمی انتخاب تھا جو سنایا گیا ۔تیسرا تخلیقی صلاحیت کیلۓ آزمایش کا پروگرام تھا بچون کو ان کی عمر کے مطابق ایک موضوع دیا گیا کہ وہ اس پر کہانی لکھیں اور مقابلے میں انعام پاییںؑ۔کس کے پاس صلاحیت ہے اور کس کو خوش فہمی۔۔ ثابت ہو جاۓ گا
علاوہ ادبی کتب کے جس چیز نے حسن ظاھری سے مجھے مسحور کیا۔۔حسن باطن کا سحر توقایم و دایم ھے۔۔وہ دیوان غالب کا ایک مرصع ایڈیشن تھا بڑے ساٰٰیز میں آرٹ پیپر پر وسیع منقش حاشیہ کے درمیان فرمودہؑ غالب اور مقابل کے صفحے پر مشرق کی کلاسیکی مصوری میں اس کی تفسیر۔۔ میرے پاس اور پرستارون کی طرح دیوان غالب کے چارمختلف ایڈیشن تھے لیکن اس نسخے نے جو 2500 کے بجاۓ 1500 میں دستیاب تھا مجھے خرید لیا یہ موٹے گتے کے منقش رنگین ڈبے میں بند تھا اور میرا خیال ھے کسی اھل ذوق کا دوسرے اہل شوق کیلۓ ۔اس قیمت میں کویٰ متبادل تحفہ نہیں ہو سکتا۔
نیشنل بک فاونڈیشن نے اسی حسن ذوق کے ساتھ "ہیر وارث شاہ" اور چند دیگر کتابیں بھی شایع کی ھیں جو قابل دید ھین ۔۔ قابل مطالعہ ہونے کی بات میں تو شک ھی نھیں وہ مختلف شہروں میں اپنے مراکز اور منتخب بک اسٹالزسے خریداری پر 55 فیصد ڈسکاونٹ یعنی نصف سے بھی کم قیمت پر کتابیں فراہم کرتے ھیں اور یہ کتابیں وہ نہیں ہوتیں جن کو خریدار نہیں ملتے،یہ ادب عالیہ میں شمار ہوتی ہیں۔اب سنا ہے کہ ملتان کے علاوہ دیگر ریلوے اسٹیشن بھی ان کے مراکز بن گۓ ھیں۔میلے کے دیگر پروگرام بھی بہت معیاری تھے
میلہ ختم ہوا۔۔ آیندہ سال پھر ملیں گے اگر خدا لایا۔۔میں نے آزاد کشمیر سوات اور علاقہ غیر سے انے والے ادب کے رہ نورد شوق بھی دیکھے ۔ میری طرح ان سب کو بھی بشرط زندگی یہی شوق پھر کھینچ لاے گا ۔
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1007876472627704