(Last Updated On: )
اردو شاعری کی دیگر اصناف کی طرح قطعہ نگاری کا فن بھی اپنے اندر ایک جہانِ معنی سمیٹے ہوئے ہے۔یہ وہ صنف ہے جو اپنے مختصر سے پیرائے میں ساری کائنات کی رنگا رنگی کا احساس دلاتی ہے۔جو قطعہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کم از کم چار مصرعوں کے چھوٹے سے کشکول میں بحرِ زخار کو کس طرح مقید کیا جاتا ہے۔عصرِ حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو قطعہ نگاری کا حق ادا کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ایسے افراد میں اگر بغیر کسی مبالغے کے کہا جائے تو یعقوب تصور کا اپنا ایک منفرد اسلوب ہے۔جس کے باعث وہ شعراء کے جمِ غفیر میں تنہاء نظر آتے ہیں۔اس بات کے ثبوت میں ان کی کتاب’’انحراف‘‘ پیش کی جاسکتی ہے جو ان کے قطعات کا مجموعہ ہے۔ایک تو یہ کہ انھوں نے روایت سے انحراف کیا اور قطعہ نگاری کے لئے بنائے گئے اصول و قوائد سے گریز اس معنی میں کیا کہ اس کے شروع کے دونوں مصرعوں کو مطلع بنا دیا بعض قطعات میں چاروں مصارع میں قوافی کا استعمال کیا تو بعض جگہ ایسا بھی کیا کہ پہلامصرعے میں قافیہ استعمال نہ کرتے ہوئے باقی کے تینوں مصرعوں کو ہم قافیہ بنا دیا۔لیکن یہ جدت قابلِ تعریف ہے کیونکہ ادب ایک بہتے ہوئے صاف و شفاف دریا کی مانند ہے اس میں جمود ناممکن ہے اور اگر ادب کی کسی صنف میں جمود پیدا ہو جائے تو اس کا زوال ہو جاتا ہے۔گویا کہ ادب کی تبدیلیاں ایک فطری تقاضے پر مبنی ہیں اور اس فطری تقاضے کو خوبصورتی کے ساتھ نبھانے والے ادیب یا شعراء ہی قابلِ ستائش ہوتے ہیں۔
یعقوب تصور کے قطعات کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے قطعات میںجہاں اخلاقی مضامین بیان کئے ہیں وہیںموجودہ دور کی مکمل عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کے یہاں وارداتِ عشق بھی موجود ہے اور غمِ زمانہ بھی ہے،،ہجرتوں کا کرب بھی موجود ہے اور روزی روٹی کے لئے کی جانے والی تگ و دو کا بھی ذکر ہے۔وہ رنج و الم کے عناصر سے بھی مشتق ہیں تو ساتھ ہی حوصلہ کن فکر کا پرچم بھی نہیں گرنے دیتے۔وہ انسان کو انسانیت کے دائرے میںرہنے کا پیغام دیتے ہیں نہ کہ فرشتہ صفت بن جانے پر مصر کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کے قطعات میں ان کے عقائد کی بھی جھلکیاں موجود ہیں۔اس مختصر سے مضمون میں ان کے قطعات کے حوالے سے ان کی شاعرانہ فکر کی تفہیم کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ شاعرعوام سے زیادہ حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے سماج و کائنات میں رونما ہونے والے واقعات اسے دیگر افراد سے زیادہ متاثر کرتے ہیں۔اگر کہیں وہ قتل و غارت گری،ناانصافی ،عیاری و مکاری،فریب کاری،دھوکا دھڑی یا غربت کا ماحول دیکھتا ہے تو اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ خود اس کے ساتھ ہو رہا ہے اور جب وہ کسی مخصوص کردار کا رنج و الم اپنے قلب میں محسوس کرنے لگتا ہے تو پھر تفریق کی حدیں ٹوٹ جاتی ہیںاور اس کے ماحول کا گرد و پیش ،اس کی فکر اور اس کی ذاتی زندگی ایک اکائی کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور اس کا تخیل اسے اشعار رقم کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ایک حساس شاعر ہی اس طرح کہہ سکتا ہے:
یوں اندھیرے ہوئے ہیں جزوِ حیات
ہر بشر روشنی سے ڈرتا ہے
اب خدا سے نہ کوئی کھائے خوف
آدمی آدمی سے ڈرتا ہے
اندھیروں کا جزوِ حیات ہو جانا،بشر کا روشنی سے ڈرنا،خدا سے خوف نہ کھانا یعنی بے دینی اختیار کرنا او ر انسانیت کے لئے بنائے ہوئے قوانین کو توڑنا،آدمی سے آدمی کا ڈرنا ،آج کے سماج کے لئے انوکھا اور نیا نہیں ہے ہر شخص ایک خوف و ہراس کی دنیا میں جی رہا ہے اگر کسی پر کوئی ظلم کرتا ہے تو کوئی مظلوم کا حامی و ناصر نظر نہیںآتا بلکہ روز بہ روز ظلم و استبداد کا سیاہ اندھیرہ حق و انصاف کے اجالوں کو نگلتا جا رہا ہے۔
شاعری میں علامت نگاری کا ایک اہم کردار ہے علامت کی خوبی یہ ہے کہ اس کے توسل سے ایجازو اختصار وجود میں آتے ہیں اور جس کہانی کو بیان کرنے کے لئے ہزاروں صفحات درکار ہوتے ہیں علامتوں کی وجہ سے وہ چندالفاظ یا مصرعوں میں سمٹ آتے ہیں۔مندرجہ بالا قطعے میں اندھیرہ اور روشنی علامتوں کی صورت میںقارئین کے سامنے عصرِ حاضر کی مکمل داستان پیش کرنے میں معاون ہیں۔
یعقوب تصور نے اپنے قطعات میں علامتوں اور استعاروں کے ذریعے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرتے ہوئے زندگی جینے کے نقطۂ نظر کو بیان کیا ہے۔ان کی پسندیدہ علامت ’پرندہ‘ ہے جسے انھوں نے اپنے دورکے انسان کا اشاریہ قرار دیا ہے:
جیسے ہی باہر گیا گھبرا کے گھر میں آگیا
خوف کا طوفان کیسا یہ نگر میں آگیا
سمجھو اس کو مل گئی اک اور دن کی زندگی
جو پرندہ شام سے پہلے شجر میں آگیا
اس قطعے میں پرندہ آج کے انسان کی علامت ہے۔آج کل کی دنیا میں اس قدر حادثے عام ہو چکے ہیں کہ انسان جب صبح گھر سے باہر نکلتا ہے تو یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ صحیح سلامت اپنے گھر واپس پلٹ کر آئے گا۔اگر ایسا ہوتا ہے تو سمجھنا چاہئے کہ اس کو ایک دن کی اور زندگی مل گئی ہے۔حدیہ ہے کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مسکن میں عافیت سے ہے تو یہ اس کی خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ بلا و آفات یعنی حوادث انسان کو کہیں بھی اپنے شکنجے میں گرفتار کر سکتے ہیں:
ایسا آسیب بال و پر میں رہا
عمر بھر وحشتِ سفر میں رہا
وہ پرندہ بھی کب رہا محفوظ
پر سمیٹے جو اک شجر میں رہا
لیکن گھر پھر بھی گھر کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔کتنے ہی خدشات کا سامنا کیوں نہ ہو گھر کے بزرگوں سے مشکلات کے زمانے میںجو حوصلہ یا تعاون ملتا ہے اس کی کہیں مثال نہیں ملتی کیونکہ گھر کے بزرگ اپنے تجربات ِ زندگی اور شفقت کے باعث اپنے چھوٹوں کو رنجیدہ نہیں ہونے دیتے :
اپنے سینے سے بہر حال لگا رکھا ہے
بوجھ پیہم یہ درختوں نے اٹھا رکھا ہے
خشک سالی کے ستم دورِ خزاں کا نرغہ
پھر بھی شاخوں پہ پرندوں کو بٹھا رکھا ہے
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے گھر سے ہی وحشت ہونے لگتی ہے اور وہ سکون کی تلاش میں اپنا گھر چھوڑ کر در در کی خاک چھانتا ہے۔کیونکہ اس کو سکون کی تلاش ہوتی ہے۔یہ سکون معاشی مسائل حل کرنے کے لئے بھی ہو سکتا ہے یا کسی اور سبب سے بھی کیونکہ انسان جہاں گھٹن محسوس کرتا ہے وہاں سے راہِ فرار اختیار کرنے میں عافیت محسوس کرتا ہے:
جانے یہ سنی کیسی آواز پرندوں نے
اڑنے کے بدل ڈالے انداز پرندوں نے
اب اپنے نشیمن کی جانب بھی نہیں جاتے
یوں وقت کو پایا ہے ناساز پرندوں نے
پرندے کے ساتھ ان کے یہاں’شجر‘’درخت‘اور’ نشیمن‘جیسے الفاظ بھی علامت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اس کے علاوہ ’آفتاب‘’بادل‘’دیا‘’طوفان‘ جیسے الفاظ سے بھی انھوں نے بڑا کام لیا ہے:
ٹھنڈ کے ہر سو علم لہرا گئے
آفتاب ابھرا تو بادل چھا گئے
اک دیا روشن کیا تھا طاق میں
اور طوفاں ہر طرف سے آگئے
قطعے میں ظاہر ہے کہ آفتاب اور دیا ان روشن دماغ شخصیتوں کی علامت ہے جو اپنی جدید اور مثبت فکر سے زمانے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسے افراد کو مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی راہوں میں ہزاروں مشکلات سر اٹھاتی ہیں۔یہاں ’ٹھنڈ کے علم‘’بادل‘اور ’طوفان‘ ایسے ہی افراد کی علامت ہیںجو محدود فکر کی راہوں کے مسافر ہیںاور ترقی پسند ماحول یا ترقی یافتہ لوگوں سے انھیں سروکار نہیں ۔
یعقوب تصورؔ جب اپنے گرد و پیش میں ناانصافی،ظلم و جورکی زیادتی،قتل و غارت گری وغیرہ دیکھتے ہیں تو انھیں کربلا یاد آجاتی ہے۔کیونکہ کربلا ہر دور کے بشر کے لئے حق و باطل میں امتزاج پیدا کرتی ہے۔جہاں ظلم پر صبر کا مظاہرہ کیا گیا لیکن بہادری اور شجاعت کے اظہار کے ساتھ ساتھ اور باطل کی بیعت سے انکار کرکے بتا دیا گیا کہ مسافرانِ راہِ حق کبھی باطل کی طاقتوں کے آگے سر نگوں نہیں ہوتے:
حق و صفا کبھی باطل میں ضم نہیں کرتے
شکستِ زیست کے ساماں بہم نہیں کرتے
ہمارا سلسلہ کرب و بلا سے ملتا ہے
سو ہم سروں کو کٹانے میں خم نہیں کرتے
انھیں جب اپنے معاشرے میں کہیں بے وفائی،فریب،دھوکا ،ظلم و قتال ا ور جور و ستم دکھائی دیتے ہیں تو انھیں اپنا شہر ارضِ کربلا کی مانند لگتا ہے:
بجھایا کس نے وفا کا دیا کسے کہئے
چلا رہا ہے ہر اک ہی ہوا کسے کہئے
ہر ایک سمت ہے ظلم و قتال و جور و ستم
تو اپنا شہر کسے،کربلا کسے کہئے
ان کا خیال ہے کہ کربلا اپنے علامتی پیرائے میں ہر دور میں اپے وجود کا احساس دلاتی ہے۔دنیا میں جس دور یا جس زمانے میں ظالموں یا حکمرانوں نے اپنی طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اس نے ایک نئی کربلا کی تشکیل کی ہے:
صداقتوں کے ڈگر پرجہاد میں حائل
قدم قدم پہ نیا اک فساد ہوتا ہے
ہر ایک دور میں ہوتے ہیں کربلا کے شہید
ہر ایک دور میں ابنِ زیاد ہوتا ہے
ان کے یہاںقدم قدم پر ہجرت کا کرب اور نقلِ مکانی کا احساس نظر آتا ہے۔لیکن یہ ہجرت یا نقلِ مکانی معاشی مسائل کے حل تلاشنے کے باعث ہے۔ انھیں رزق کی تلاش میں اپنی عزیز سرزمین کو الوداع کہنا پڑا لیکن جب انھوں نے نئی زمین پر قدم رکھا تو انھیں اپنا گھر بہت یاد آیا:
ہوا کے دوش پہ آئے شجر کو چھوڑ دیا
فضائے غیر میں آئے نگر کو چھوڑ دیا
تلاشِ رزق و سکوں،امن کی ضرورت نے
کیا کچھ ایسا پریشان گھر کو چھوڑ دیا
یہاںیہ کرب صرف ان کا ہی نہیں بلکہ یہ اس دنیا میں رہنے والے سیکڑوں انسانوں کی داستاں ہے جو روزی روٹی کی تلاش میں اپنے گھر اپنے وطن اپنے عزیز و اقارب سے دور کسی غیراجنبی سرزمین میں رات دن کڑی محنت کر کے زندگی کی آسائشیں خریدتے ہیں۔اور جب وطن لوٹتے ہیں تو عزیزوں کے لئے تحائف لیکر جاتے ہیں لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عزیز اس تکلیف کو نہیں سمجھ پاتے جسے برداشت کرکے ان کے لئے آسائشوں کی فراوانی کی گئی ہوتی ہے:
نئے شالے دشالے دیکھ لینا
یہ جھومر اور جھالے دیکھ لینا
تحائف جب نرالے دیکھ لینا
مرے ہاتھوں کے چھالے دیکھ لینا
ایسے ماحول میں ایک صاحبِ شعور ہی جانتا ہے کہ معاشی مسائل کے حل کرنے میں کتنی دقتوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے اسی لئے جو دور بین اور قناعت پسند ہوتے ہیں وہ اپنی ضرورتوں کو مختصر کر لیتے ہیںکیونکہ انھیں یہ بخوبی علم ہوتا ہے کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا اور انسان کی زندگی عروج و زوال کے ساتھ اپنا سفر طے کرتی رہتی ہے:
طے کئے فاصلے سائے کی طلب میں لیکن
جسم سے دھوپ مسائل کی لپٹتی جائے
شمس کا قہرِ تمازت ہے مسلسل جاری
چادرِ زیست کہ ہر لمحہ سمٹتی جائے
وہ بخوبی جانتے ہیں جب تک زیست باقی ہے انسان کی راہوں کے پیچ و خم کا خاتمہ نا ممکن ہے لیکن اس کی راہ میں حائل دشواریوں سے اسے ایک عزم و حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئے کیونکہ یہی اصل انسان کا جوہر ہے:
طلب ہے گر ساحلِ وفا کی ستم تو ہر آن جھیلنے ہیں
کہیں گرداب کاٹنے ہیں کہیں طوفان جھیلنے ہیں
ہوا کے جھکڑ ،سلگتے موسم،بگولے،آندھی،نوکیلے پتھر
رہِ وفا کے سبھی مصائب سفر کے دوران جھیلنے ہیں
وہ بے عملی کی سخت مزمت کرتے ہیں اور جب کسی کو خوابِ غفلت کا شکار دیکھتے ہیں تو انھیں غصہ آجاتا ہے اور ان کا بیباک انداز انھیں مصلحت کے دائروں سے نکال کر تنبیہ کرنے پر آمادہ کرتا ہے:
بے حسی کے عذاب دیکھے جا
بے عمل صرف خواب دیکھے جا
ریت میں فصل تشنگی کی اگا
پھل کی صورت سراب دیکھے جا
لیکن وہ اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی ساری زندگی آرام و آسائش کے حصول میں لگا دیتا ہے ۔وہ ہزاروں خواب دیکھتا ہے لیکن پھر بھی اس کی تمنائوں کا پیمانہ نہیں بھرتااور وہ خواب در خواب دیکھتا ہی رہتا ہے۔ہزاروں نعمتوں کے حصول کے بعد بھی اس کی خواہشات کی زنبیل نہیں بھرتی:
ضو فشاں چہرۂ تقدیر کہاں کر پائے
جس قدر کرنا تھی تدبیر کہاں کر پائے
جہد ِتحصیلِ تمنا میں کٹی عمر تمام
پر کسی خواب کی تعبیر کہاں کر پائے
وہ انسان کو فرشتہ صفت نہیں بلکہ انسانیت کے دائرے میں دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ یہی انسان کی منزل معراج ہے کہ وہ جامۂ انسانیت میں رہے:
بہت کچھ کر رہے ہو کام یہ اک اور کر لو
کبھی افعال پہ اپنے ذرا سا غور کر لو
فرشتوں سا بنے کردار امکاں میں نہیں ہے
مگر انسان جیسے ہی تصورؔ طور کر لو
ان کا خیال ہے کہ انسان چاہے کتنی ترقی کر جائے یا ہزاروں بلندیاں چھو لے لیکن انسان پھر بھی انسان ہے اسے ایک روز خاک نشیں ہونا ہے چنانچہ اسے چاہئے کہ وہ کسی صورت میں اپنی حقیقت کو فراموش نہ کرے:
مشتری پرنہ کسی ماہِ مبیں پر رہنا
گم خلائوں میں نہ ہی عرشِ بریں پر رہنا
یہ حقیقت نہ کسی لمحہ بھی ہو محوِ نظر
پیکر ِ خاک کو ہے خاکِ زمیں پر رہنا
اور جب انسان یہ سمجھ لے کہ وہ پیکرِ خاک ہے تو اس کے سامنے دنیاکی حقیقت واضح ہو جاتی ہے اور وہ رضائے الٰہی کے حصول میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ وقف کردیتا ہے لیکن یہ رضائے الٰہی محض عبادات یا سجود تک محدود نہیں بلکہ خدمت ِخلق کے توسل سے بھی رضائے الٰہی حاصل کی جا سکتی ہے:
ہر تخیل کو عمل بھی چاہئے
قصر بردوشِ ہوا بنتا نہیں
بندگی کی ہیں شرائط اور بھی
صرف سجدوں سے خدا ملتا نہیں
انھیں یہ بھی علم ہے کہ خدمتِ خلق کرنا آسان نہیں ۔ممکن ہے اس راہ میں لوگ اس کے ساتھ بدسلوکی اور فریب سے بھی کام لیں لیکن جن کا مقصد رضائے الٰہی ہوتا ہے یا جن کے یہاں انسانیت کی خدمت کا جذبہ پایا جاتا ہے وہ لوگوں کی بداخلاقی سے اپنے ارادوں کو ترک نہیں کرتے البتہ وہ ایسے لوگوں سے قطع تعلق ضرور کر لیتے ہیں جو ان کے مقاصد کے خلاف ہوتے ہیںکیونکہ یہی وقت کا تقاضہ ہوتا ہے:
خطائیں در گذر کرنا بھلا ہے مانتا ہوں
عداوت کو عداوت ہی مگر گردانتا ہوں
کنارہ کر لیا ہے اس لئے لوگوں سے میں نے
کہ اب اس شہر میں ہر شخص کو پہچانتا ہوں
لیکن وہ قطع تعلق کی تکلیف کو بخوبی جانتے ہیں خصوصاً جب کسی وجہ سے اپنے کسی عزیز سے دوری اختیار کی جاتی ہے تو اس کے باعث جو اضطرابی کیفیت دل میں رونما ہے اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن پھر بھی بر بنائے مصلحت بعض رشتوں سے گریز کیا جاتا ہے۔یہ کام صرف وہی کر سکتا ہے جس کی نگاہ مقصدپر ہواور جس کے دلِ نازک میں برداشت کا مادہ موجودہو:
جفائیں یاد آتی ہیں ادائیں یاد آتی ہیں
بھلا دینا جسے چاہیں بہت آساں نہیں ہوتا
روابط منقطع کرکے تعلق ٹوٹتا کب ہے
یہ ایسا درد ہے جس کا کوئی درماں نہیں ہوتا
یقیناً روابط کے سلسلوں سے کنارہ کش ہونا سہل نہیں ہوتا کیونکہ اس کے پیچھے انسان کا ماضی اوراس کی مخصوص یادیں ہمہ وقت اس کے لئے سامانِ اذیت مہیا کرتی رہتی ہیں۔یہ یادیں کسی معشوق کی بھی ہوسکتی ہیں کسی عزیز کی بھی ہو سکتی ہیں اور خود اس کے گھر یا وطن کی بھی ہو سکتی ہیں۔شاید یہی سبب ہے کہ انھیں کبھی کبھی یہ بھی خیال آتا ہے کہ انسان کی زندگی مال و زر کے حصول میں کوشاں رہتی ہے کیونکہ اسی کے سبب بہت سی اشیاء اور آسانیوں کو اپنی دسترس میں لایا جا سکتا ہے۔چاہے وہ حسن ہی کیوں نہ ہولیکن جب مال وزر ضرورت کے مطابق نہ ہوتو زندگی بے رنگ بن کر رہ جاتی ہے:
جتن ہزار کئے اور پھر دعائیں بھی
حصول سیم و زر و مال بس سے باہر ہے
زمیں ہے کوئی نہ جاگیر ہے نہ ہی دولت
سو وہ حسیں بھی مری دست رس سے باہر ہے
اردو شاعری کی کوئی بھی صنف ہو اس میں کہیںنہ کہیں تغزل یعنی عشقیہ مضامین ضرور بیان ہوتے ہیں ۔غزل تو عشقیہ شاعری کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے۔لیکن قطعات کا دامن بھی اس سے تہی نہیں۔چنانچہ جہاں یعقوب تصورؔنے اپنے قطعات کو زمانے کی تلخ حقیقتوں کا مظہر بنایا ہے وہیں ہلکے پھلکے انداز میں مضامینِ عشق بھی اس میں سموئے ہیں۔اس سلسلے سے ان کے تین قطعات دیکھے جاسکتے ہیں جن میں ان کا نظریۂ حسن و عشق واضح ہے:
آنکھ جب اٹھ کے ٹھہرتی ہے کسی پیکر پر
مرکزِ دید نہیں ہوتا لبادہ ہرگز
اور اتنا بھی نہیں ہوتا کوئی سادہ مزاج
کہ سمجھ پائے نہ آنکھوں کا ارادہ ہرگز
ان کا خیال ہے جب عشق جانبِ حسن نگاہیں اٹھاتا ہے تو اس کا منشا حسن بخوبی سمجھ جاتا ہے کیونکہ کسی دور کا حسن اتنا سادہ لوح نہیںکہ جو اٹھتی ہوئی نگاہوں کے راز سے واقف نہ ہو سکے۔چنانچہ جب یہ کیفیت ہوتی ہے تو دونوں کے لئے امتحان کی گھڑی ہوتی ہے:
آیا ہے روبرو جو وہ حسن و ادا و ناز سے
ہلچل ہے اک مچی ہوئی قلب و نگاہ و جان میں
اب کیفیت عجیب ہے دونوں طرف کریں تو کیا
وہ بھی ہے امتحان میں بھی ہوں امتحان میں
حسن و عشق کی نگاہوں کا تصادم جب مزید بڑھتا ہے تو عشق حسن کی ہر اک ادا پر حد درجہ دھیان دیتا ہے اس کے لباس سے بھی اسے ایک تحریک ملتی ہے:
پھر نظر آیا مجھے وہ بام پر
پھر سکون و صبر کی چھوٹی ہے باگ
سادگیٔ حسن قاتل ہے مگر
پیرہن بھی تو لگا دیتا ہے آگ
لیکن یعقوب تصورؔ اظہارِ محبت کے لئے ایک سلیقہ چاہتے ہیں۔انھیں معلوم ہے کہ اگر کوئی بات سلیقے اورشائستگی کے ساتھ کہی جاتی ہے تو اس کا اثر دلوں پر ضرور نظر آتا ہے:
بہرِ اظہار فکر لفظوں کا
حسن آمیز رنگ بھی تو ہو
دل کی گہرائی میں اترنے کو
بات کرنے کا ڈھنگ بھی تو ہو
غرض کہ یعقوب تصورؔ نے اپنے تخلیق کردہ قطعات میں ایک ایسی دنیا سمیٹ کر رکھ دی ہے جس میں فنی اعتبار سے جدتیں بھی ہیں،سماج اور معاشرے کے مختلف رنگ بھی ہیں،زندگی جینے کا ایک مخصوص منشور بھی ہے اور حسن و عشق کی وارادت بھی کارفرماء ہے۔ان کے قطعات محض چار مصرعوں کے لباس میں کسی مخصوص مضمون کی طرف اشارہ نہیں کرتے بلکہ ان کو دو اشعار کی مختصر سی نظم بھی کہا جا سکتا ہے ۔انھیں زبان و بیان پر مکمل دسترس حاصل ہے۔آخر میں ان کے ایک قطعے کے ساتھ اس مضمون اختتام کیا جاتا ہے:
کام یوں تو سہل آتا ہے نظر ہر اک مگر
عزمِ پیہم چاہئے مقصود کی تحصیل میں
فن جسے کہتے ہیں لمحوں کا عمل ہر گز نہیں
عمر کٹ جاتی ہے اک شہکار کی تخلیق میں