اردو زبان کی نشوونما اور اسے بال و پر عطاکرنے میں شاعروں نے ایک اہم کردار اداکیا ہے۔برصغیرہندوپاک میں مختلف ادوار میں کئی مشہور و مقبول شاعرپیدا ہوئے جنھوں نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور پورے عالم میں شہرت عام و بقائے دوام پائی ۔صنفِ غزل میںغالبؔ،میرؔ،داغؔ،سوداؔ ،مومن ؔ،حسرتؔ،حالیؔ،فانیؔ،فراقؔ،اور نظم میں نظیر ؔ،اقبالؔ،فیض،مجازؔ،مخدومؔ،ن م راشدؔ،اخترالایمان وغیرہ کے اسم گرامی خاص ہیں۔اس طرح اردو کی دیگر اصناف میں بھی کئی نام قابل ذکر ہیں جن سے اردو زبان و ادب کی آبیاری اور پاسداری ہوئی۔لیکن غزل وہ صنف سخن ہے جو سب سے زیادہ پسند کی گئی اورجس نے تمام اصنافِ ادب پر برتری حاصل کی۔جیسا کہ مذکور ہوا ہے کہ غزل کو دوام بخشنے کے لیے ہر دور میں اہم شاعرگزرے ہیں۔موجودہ عہد بھی ایسے شاعروں سے خالی نہیں ہے ۔چنانچہ شاعرجس زمانے میںپیدا ہوتا ہے وہ اپنے وقت،حالات اور ماحول کا اثرضرور قبول کرتاہے۔بعض شعرا نے تو اپنی زندگی،زمانہ اور اس وقت کے حالات کا تذکرہ اپنی شاعری میں ایک نئے فنی تجربے کے ساتھ کچھ اس طرح کیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے جاویداں ہوگئے نیز جنھوں نے تاریخ کے زریں صفحات میں اپنا نام درج کرالیا۔آج بھی ان کاذکر سنہرے حروف میں کیا جاتا ہے۔البتہ غالبؔ،میرؔ،دردؔ،مومنؔ وغیرہ کو اپنے زمانے میں وہ شہرت نہیں ملی جو انہیں آج حاصل ہے۔ان باتوں کا برمحل تذکرہ آیا لیکن یہ با ت بھی ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ ایسے بہت کم شاعر گزرے ہیں جنہیں اپنے زمانے میںمقبولیت حاصل ہوئی ہو۔لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ان کی اہمیت اور قدروقیمت تسلیم کی گئی۔آج بھی ہمارے درمیان ایسے کئی غزل گو شاعر ہیں جوخاموشی کے ساتھ غزل کو وسعت بخش رہے ہیں۔وہ اگرچہ دواوین کے دواوین یادرگار نہیں چھوڑ رہے ہیں تاہم اردو غزل گوئی میں وہ ایک اور قابل قدراضافہ کررہے ہیں۔انہیں میں موجودہ دور کے ایک اہم شاعر یعقوب یاورؔ کوٹی ہیں جن کا پہلا شعری مجموعہ’’الف‘‘جون 1988میںشائع ہواتھا۔جبکہ اس کے بارہ برس بعد2000میں’’قلم گوید‘‘کے نام سے ان کا دوسرا شعری مجموعہ کلام شائع ہوکرمنظر عام پر آیا۔ان دونوں مجموعوں میں غزلیں زیادہ اور نظمیں موجود ہیں۔
یعقوب یاورؔجدیدعہدکے ایک کہنہ مشق غزل گو شاعر ہیں۔جن کا شعری سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے۔یعقوب یاورؔ نے منفرد طرز کی غزلیں کہی ہیں۔ان کی شاعری میں ہمیں کلاسیکی رنگ و آہنگ نظر آتا ہے جس کاانھوں نے برملا اظہاربھی کیا ہے۔جہاں تقاضے جدید ہوںاورعصری تہذیبی حالات کاسامنا ہو وہاں شاعری میں کلاسیکی رنگ و اظہار کو مدغم کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔لیکن ایک اچھے شاعر کی یہی خوبی اسے اپنے معاصرین سے ممتاز کرتی ہے۔یعقوب یاورؔمیں یہ خوبی بدرجۂ اتم موجود ہے۔وہ شاعری میں جگہ جگہ میرؔ اور غالبؔ کا تتبع کرتے نظر آتے ہیں۔ان کاطرزِ سخن اگرچہ اپنے اندر کلاسیکیت کوجذب یا ضم کرچکاہے مگر موضوعی سطح پر ان کاطرزِ اظہار جدیدلب و لہجہ رکھتا ہے۔یعقوب یاورؔ کے شعری موضوعات،فنی و فکری رجحانات،دنیائے تصورات اورذہنی و فطری روّیے ان کے تازہ کار ذہن کے تراشیدہ ہیں۔پروفیسرمظفر حنفی ’’الف‘‘کے پیش لفظ میں چند اشعار کا حوالہ دے کریعقوب یاورؔ کی شاعری کے بارے میںاپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’خوابوں میںجھومتی ہوئی جنت کا تذکرہ اور پھر اُس سے دست برداری ، شیشے کے شوکیس میں بیٹھ کر آہن گری ،شب دیدہ عناصر کی سحر بینی، ننگِ زمانہ خواہشوںکے ہاتھ سربازار رسوائی اور بیمار زندگی کو غزل میں ڈھالنے کی کاوش پر چکر آنا بظاہر بالکل نئے تصّورات اور تازہ مضامین نظر آتے ہیں لیکن کیا یہ اشعار بالترتیب اقبالؔ(باغ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھاکیوں)،میرؔ(لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام)،فیضؔ(یہ داغ داغ اجالا یہ شب گذیدہ سحر)،غالبؔ(ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا) اور شاد ؔعارفی(زندگی کے لیے زہر پیا ہے میں نے) کی روایت سے جڑے ہوئے نہیں ہیں ؟ بے شک ہیں اور یہی حسنِ تضاد اور دہری خصوصیت میری نگاہ میں اُن کی اہمیت کا جواز ہے۔‘‘
مظفر حنفی بھی یعقوب یاورؔ کی شاعری میں غالبؔ ،اقبالؔ،میرؔ،فیضؔاور شادؔ عارفی کی جیسی خصوصیات پاتے ہیں اور ان کی شاعری کو اُس تہذیبی جڑ کے پاسدار قرار دیتے ہیں جس کی مذکورہ شعرا نے ترجمانی کی۔مظفرحنفی کے اس قول کومزید تقویت پہنچاتے ہوئے یہ مصرعہ کہنا بجا معلوم ہوتا ہے کہ’’لگا رہاہوں مضامین نوکے پھر انبار‘‘ ۔کیونکہ یعقوب یاورؔ کی بھی کوشش رہی ہے کہ روایت سے انحراف نہ کرتے ہوئے بھی شاعری اوراس کے موضوع میںجدت پیداکی جائے،جس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔یعقوب یاورؔکی غزلیں تاریخ،تہذیب،فلسفہ،اخلاق،اقدار، زندگی اورفطرت کا حسین امتزاج ہے۔شاعری میں شہرت و مقبولیت یا انفرادیت حاصل کرنے کے لیے شاعر کو اپنی تخلیق میں نیاآہنگ،جدت خیال،فنی و فکری سطح پر نیا تجربہ،منفرد موضوع اورلب ولہجے میں چاشنی و لذت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ان سب کے مجموعی اظہار سے شاعری کمال کی منزل کو پہنچ سکتی ہے۔یعقوب یاورؔ کی غزل گو شاعری بھی کسی درجہ مذکور خصوصیات سے متصف نظر آتی ہے۔انھوں نے دنیاکے اہم ترین اور ناقابل فراموش تاریخی واقعے کو بالکل زمانۂ حال سے جوڑتے ہوئے علامت کے پیرہن میںسنسنی پیدا کرنے والی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ان کا ایک شعرملاحظہ فرمائیں؎
زمانہ ابرہَہ ہے کعبہَ دل توڑ جائے گا
ابابیلوں کے لشکر کا کوئی امکان بے معنی
اس شعر میں شاعر نے ایک اہم تاریخی واقعے کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہی ہے کہ اُس وقت تو ا للہ تعالیٰ نے ابابیلوں کالشکربھیج کرابرہہ کے کعبہ ڈھانے کے منصوبے کو ناکام بنادیا تھا مگر یہاں پر معاملہ اس کے برعکس ہے۔زمانے کو ابرہہ سے تعبیر کرتے ہوئے اور دل کو کعبہ مانتے ہوئے شعر میںجاذبیت پیدا کردی گئی ہے۔دراصل ترکیب ’’زمانہ ابرہہ‘‘کو زمانے کے ظالم و جابر لوگوں سے مرادلے سکتے ہیں۔داغؔ دہلوی نے کہا تھا’’اس کعبہَ دل کو کبھی ویران نہیں دیکھا‘‘،جبکہ یہاں کعبہَ دل توڑا جا رہا ہے۔دورِ حاضرمیں میں ابرہہ خصلت وسوچ کے لوگ بھی موجودہیں جو جذبات و احساسات کو نہیں سمجھتے اور جس قوم کے لوگ اللہ کے فرماں برداراور تابع دار نہیں ،اللہ ان پر اپنا قہر نازل کرتا ہے۔شاعر بھی اس شعر میںدراصل یہی کہنا چاہتے ہیں کہ ابابیلوں کے لشکر کا امکان نہیں جو اِن ابرہہ خصلت وسوچ کے لوگوں کو نیست و نابود کردیتا۔اس شعر کو مزید سمجھنے کے لیے ظالم و جابر لوگوں کے مظلوم و محکوم پر حاوی ہونے کی بھی ایک اہم مثال بھی دی جاسکتی ہے۔اس شعرمیںشاعرناامیدسا نظرآتاہے کہ ابرہہَ پرستوںکے نام و نشاں مٹانے کے لیے اب ابابیلوںکے کسی لشکرکی امید نظرنہیں آتی۔اللہ نے فرمایا ہے کہ جب کوئی قوم میری نافرماں براداری کرتی ہے یا کسی معاشرے میں برائی بڑھ جاتی تو ان پر وقتاً فوقتاً میرا عتاب مختلف شکل و صورت میں نازل ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جب وہ چاہے کسی قوم و معاشرے کو مٹاکر اس کی جگہ ان کے جانشین مقرر کرسکتا ہے۔اس لیے کہاجا سکتاہے کہ انسانی تہذیب کے المیے کی مختلف صورتیں ہیں جس کی ایک صورت درج بالا شعر کے پس منظر میں بھی موجود ہے۔
یعقوب یاورؔ اپنی دوسری غزل کے ایک شعر میں اس تاریخی اور تاقیامت دوہرائے جانے والے واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں؎
اُڑے تو تھے فضا میں کچھ طیور کنکری بکف
حرم پہ ابرہہَ کا اختیار کیسے ہوگیا
اللہ تعالیٰ نے ابابیلوں کی شکل میں ابرہہَ اور اس کے لشکر پہ جو قہر نازل کیا تھااس کوشاعر نے مزید طول دیاہے۔انھوں نے سنگ بردار پرندوں کی تعریف اور ابرہہَ کی کوشش کی ملامت و تذلیل کرتے ہوئے کہنا چاہا ہے کہ حرم پر ابرہہَ کا کیسے اختیار ہوگیا یاہوسکتا تھا جبکہ ہوا میں اُڑے کچھ سنگ بردار پرندوں نے تو اس کا اور اس کے لشکر کا وہ حشر کیا کہ تاریخ کے پنیں آج بھی ذہن سے اُس نہ مٹتے ہوئے واقعے کی گواہی دیتے ہیں۔عرب میں چھٹی صدی عیسویں کے نصف اوّل میں پیش آئے اس عبرت ناک اور نصیحت آموز واقعہ کو دراصل شاعرکا مقصد یاد دلاناہی نہیںہے بلکہ لوگوں کو یہ باور بھی کرانا ہے کہ جس شخص یا جس قوم کی بری نظریں اللہ کی مقدس اور سب سے پیاری جگہ کی طرف اُٹھیں گیں اس کا اانجام ابرہہَ سے بھی برا ہونا ہے۔ یہود قوم کی جانب سے بھی ابرہہ جیسے بلند بانگ دعوے ہوئے تھے ۔اس ضمن میں یہاں پر یہ شعرصادق آتا ہے ،ملاحظہ فرمائیے؎
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
یعقوب یاورؔ زندگی کے بہت سے معاملوں میں نامانوس نظر آتے ہیں۔ان کے کئی غزلیہ اشعار میں ہمیں احساسِ تشنگی ملتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ زندگی کے پُر کیف لمحات انہیں میسرنہیں ہیں۔ان کے دل میں اکتاہٹ کی سی کیفیت معلوم ہوتی ہے،زمانے کے نت نئے تقاضے ،بدلتے رجحانات اور نئی سوچ بھی شاعرکے فکرواحساس پر حاوی دکھائی دیتی ہے۔یاورؔ اس عہدکے ہر واقعے کی خبر رکھتے ہیں،کچھ سے اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اس لیے بہت سے معاملاتِ زندگی میں وہ اپنے آپ کو دور رکھنا چاہتے ہیں،البتہ اس معاملے میں شاعر بے ضمیر نہیں کہ وہ سماجی برائیوں پر خاموشی اختیار کریں یا ہرظلم کو چُپ چاپ سہتا رہے،وہ بے مروت و بدکردار اشخاص کے کردار پر بھی گہراطنزکرتے ہیں۔مظفرحنفی نے برسوں پہلے یعقوب یاورؔ کومحبوب راہی اور شجاع خاور کے بعد واشگاف گفتگو اور بے محاباطرزِ بیان کا غزل گو شاعرقراردیاتھااور ان کی کوشش کو شاد عارفی سے جوڑتے ہوئے اُس وقت غزل کی اُس نئی کھیپ کاخیر مقدم کیا تھا۔یاورؔکی غزل کے چند ایسے اشعارذہن نشین کریں جن سے آپ اضطراب ،بے چینی
اور دل شکستگی کی کیفیت پائیں گے،یہ شعردیکھئے؎
سحر کی دھوپ کا احساس مجھ سے دور لے جاؤ
میں شب پروردہ ہوں مجھ پر ترا احسان بے معنی
میں اپنی بے ضمیری پر نہ خوش ہوں اور نہ شرمندہ
مری بے چہرگی بس دیکھ لو پہچان بے معنی
تنہائی کی جنت سے جی اوب گیا اس کے بدلے میں
بھانت بھانت کے انسانوں کو چڑیا گھر اچھا لگتا ہے
محرومی کی دوڑ میں یاورؔ منزل کا غم کون کرے گا
ایسی راہوں میں راہی مصروف سفر اچھا لگتا ہے
وہ دانشور ہے اسمیں شک نہیں ہے
اُسے یوں چُپ نہ رہنا تھا مگر ہے
وہ شخص اپنے غم کی تازہ کاریوں میں مبتلا
صحیفۂ حیات کا برہنہ اقتباس ہے
میں دوستوں سے ابھی تک کنارہ کش نہ ہوا
مگر یہ سب مری مجبوریاں سمجھتے ہیں
یعقوب یاورؔ کے درج بالا اشعار سے ان کے شعری افکار کی دلالت ہوتی ہے۔سحر کی دھوپ سے نفرت،شب پروردہ،بے ضمیری،بے چہرگی،تنہائی کی جنت،دل اوب جانا،محرومی کی دوڑ،غم کی تازہ کاری،زندگی کا برہنہ اقتباس،کنارہ کشی وغیرہ الفاظ بھی یعقوب یاورؔ کے شعری افکار و خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں۔اس قسم کے درجن بھر موثر اشعار یاورؔکی غزلوں میںملتے ہیں۔جس سے ان کے ذہن و دل،فکرو خیال،جذبہ و احساس اورفلسفۂ زندگی و کائنات کا علم ہوتا ہے۔ان کے یہاں بھرتی کاموضوع اور نہ ہی روایتی موضوعات کا تعاقب یا ارتکاب پایا جاتا ہے۔بلکہ ان کاکلام نیااحساس ،نئی جدت اور نئے آہنگ کابرملا اظہار ہے۔یاورؔ جدید غزل کے معماروںمیں ایک اہم نام ہے۔اوالذکر شعرپر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ شاعرکس دور سے گزررہا ہے اور نا امیدی اورمایوسی اسے کس قدراندھیرے میں دھکیلنے پرمجبورکررہی ہے۔یہاں تک کہ شاعرصبح کی دھوپ کے احساس یعنی روشنی کی کرن نزدیک آتے دیکھ یہ کہہ کر دوری اختیارکرتا ہے کہ وہ راتوںکا پالاہوا ہے نیز اس پر نویدِصبح کااحسان تک بے معنی ہے۔اس کے بعد والا شعر دیکھئے جس میں شاعر بڑی بے باکی سے قاری کے سامنے سچائی سامنے رکھ دیتا ہے۔دراصل شعر کے پس منظر میں معاشرے میں موجود بے شمار بدکردار اور بے حِس انسانوں پر گہرا طنز کیا گیا ہے۔ اس شعر میںشاعر اپنے اندرون کاجائزہ لیتا ہے اور ضمیرکا تعاقب کرتانظر آتاہے ۔بالآخراس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کا ضمیر اور اس کی خودی سوئی ہوئی ہے۔جس پر وہ خوش اورنہ ہی پشیماں ہیں اوروہ یہ کہہ کر اپنا راستہ ناپ لیتا ہے کہ آپ فقط میری بے چہرگی ہی کو لیں وگرنہ اس کی پہچان اور اس کی شخصیت کا احتساب کرنا ناممکن ہے۔اگر اس شعر کی مزید گہرائی میں جانا ہو تو سب سے پہلے ہماری نظر اُس سماجی ناسور کی طرف جانی چاہیے جس کی جڑیں اب ہمارے سماج میں بہت مضبوطی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔معصوموں کے ساتھ ناجائزفعل انجام دے کربھی کھلے عام گھومنا،مظلوموں اور بے کسوں کی حق تلفی ،لاچاروں پر جنسی زیادتی،مصیبت کے ماروں کوخدا کے رحم و کرم پر چھوڑنا،سڑک پرزخمی دردوکرب میں مبتلا ایک جیتے جاگتے انسان پر ترس نہ کھا اس کی مختلف زاویوں سے ویڈیو بنانا،اپنے کام کے ساتھ انصاف نہ برتنا،مرتبے کا خیال نہ رکھنا،بڑوں کی عزت نہ کرنا نیزبداخلاقی،بدکرداری،رشوت خوری،ناشائستگی وغیرہ پرخاموشی اختیاررکرنا اور کھلی آنکھوں سے اِس کا مشاہدہ کرنا ایک زندہ شخص کی بے ضمیری اور بے چہرگی کی مثال نہیں تو اور کیا ہے۔انسانی تہذیب کے المیے میں اس پہلوکو شامل نہ کرنا بھی غیر اخلاقی ذمہ داری کہلائے گی۔ جو موجودہ معاشرتی مسائل میں ایک اہم مسئلہ بن کرپنپ رہا ہے جس کی جڑیں اور نسیں دن دوگنی رات چوگنی کے مصداق مستحکم ہورہی ہیں۔ یعقوب یاورؔ ایک شعر میں غم کی تازہ کاری سے متعلق خامہ فرساہوئے ہیںجسے قاری کوغم کی انتہا اور اس کی شدت و حدت کااندازہ ہوجاتاہے۔شاعر کے بقول وہ شخص غم کی تازہ کاری میں اس قدر مبتلاہے کہ اُسے کتابِ زندگی کا ایک عریاں روشن استعارہ کہہ سکتے ہیں۔یعنی ایک ایسی کتاب ہے جس کے روم روم اور انگ انگ میں قاری کو غم ہی غم اور ہر غم ہرا بھرا نظر آجائے گا۔مطلب بھی واضح ہے کہ غم اس کے لیے اور وہ غم کے لیے لازم و ملزوم سا ہوگیا ہے۔اس طرح غم،خامشی،تنہائی،کرب،محرومی،بے چہرگی،لاچاری،بے کسی،دغابازی وغیرہ نے شاعر کے دل میں اضطراب و بے چینی کی کیفیت پیدا کرکے اسے غم کے اندھیرے میں دھکیل دیا ہے۔چونکہ شاعر صداقت شعار اور حساس کیفیت کا مالک واقع ہوا ہے اس لیے پل پل کروٹ کروٹ رنگ بدلتی دنیا اور ولوگوں سے اس کا دل اوب گیا ہے۔انسانی تہذیب کے اس پہلو کی طرف قاری کی شاذ ہی نظر پڑتی ہے۔
نئی تہذیب اور نئے کلچر نے انسان کے رہن سہن،طرزِ زندگی،طرزِ معاشرت ،اس کی فکر اور سوچ میں انقلابی تبدیلی پیدا کردی ہے۔جہاں اس تبدیلی سے انسان کو نت نئی سہولتیں اور آسانیاں میسر ہوئیںوہیں ان تبدیلیوں نے ایک انسان کو لاتعداد و بے شمار مسائل و مصائب میں گھیر کر اس کی زندگی کو جہنم سے سخت تر کردیا ۔ موجودہ دور کی نئی تہذیبی و تمدنی اور معاشرتی ثقافتی تبدیلوں نے ایک طرف انسان کی زندگی میں فکر انگیز تبدیلیاں رونما کیں ہیں تو دوسری طرف ان سے انسانی ذہن منتشر اور انتشاری کیفیت سے دوچار ہوا۔غرض کہ اس نئی تہذیب کی دوڑ میں انسان نے مقاصد کی تکمیل کے لیے سبھی اقدار کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔اب انسان مشین کا پرزہ بن گیا ہے اوراس کے ذہن و دل و دماغ کو دیمک چاٹ گئی ہے۔نفسانی خواہشوں کی تکمیل نے ایک انسان کودوسرے انسان کا دشمن بنا دیا اور اس کی مخالفت پر لاکھڑا کیا۔ اس کے دل میں جذبات و احساسات ،محبت و ہمدردی کی جگہ وحشی پن،گھٹن اور تشکیک نے لے لی۔وہ درندگی اور مرنے مارنے پر آگیا۔چھوٹابڑا،جوان بوڑھا،مردعورت،بھائی بہن،ماں باپ ،امیر غریب،اپنا پرایا،معصوم بے بس وغیرہ اسے کچھ نظر نہیں آیا اور وہ بے تحاشہ قتل و غارت گری پر آگیا۔انسان کو انسان سے وحشت ہوگئی۔اس نئی تہذیب کا ایک رُخ یہ بھی ہے جس کو شاعر نے بیان کرنا چاہا ہے۔یعقوب یاورؔ نے نئی تہذیب کا بے جا رونا نہیں رویا ہے ۔آئے دن انسان اپنے مذکورہ اعمال کی بنا پر سرخیوں میں رہتا ہے۔جسے سن کر انسانی طبیعت کراہ اٹھتی ہے۔انسان کا یہ رنگ و روپ دیکھ کر شاعر کچھ یوں کہتا ہے ملاحظہ فرمائیے:
وہ ہے کہ گیت محبت کے گارہا ہے میاں
زمانہ اور ہی نغمے سنا رہا ہے میاں
شاید آئی تھی کوئی آواز ارنی غیب سے
چیختا ہے لن ترانی لن ترانی آدمی
یہ دنیا معتبر ہونے لگی ہے
یہاں نیزوں پر سر دیکھے گئے ہیں
میری ننگِ زمانہ خواہشوں نے
کیا مجھ کو سرِ بازار ننگا
نئی تہذیب اس کے پیٹ میں ہے
نہ بے غیرت نہ غیرت دار پگلی
زیب تن کر لیا اس نے وہ پیرہن
جس کا ہر تار انسانیت کا کفن
چیخوں میں بے بسی تھی حمایت نہ کر سکے
بستی بستی کی سائیں سائیں ہمت نہ کر سکے
یعقوب یاورؔ کی غزلیں میں نئی صدی،نئی،تہذیب،نئی نسل،نئی اقدار،نئے خیالات اوربدلتے رجحانات کی سچی تصویر کشی کرتے ہیں۔شاعر میں یہ سب اوصاف ہونے لازمی ہیں کہ جس دور یا حالات میں وہ سانس لے رہا ہواس کی سچی اور حقیقی تصویر کھینچے ،تاکہ بعد کی نسل اس کی شاعری میں اُس دور کی حقیقت کااندازہ کر سکے یا کم ازکم اسے آشکار ہوجائے۔اس تناظر میں دیکھیں تو شاعر اپنے عہد کا تاریخ داں بھی ہوتا ہے۔ شاعر دل کے تاروں کو چھیڑنے کا کام کرتا ہے۔چونکہ خوشی اور غم انسان کے ساتھ ازل سے ہی رہی ہے اس لیے اس کی زندگی شکست و ریخت کے کئی مراحل سے گزرتی رہتی ہے۔گویا شاعر کو ایسی تخلیق کی تلاش میں رہنا چاہیے جس سے اسے انسانی دلوں کی رفاقت نصیب ہوسکتی ہے۔وہی کامیاب شاعر ہے جو اپنی شاعری سے انسان کو اپنے اور اپنے کلام سے قریب تر کردیں۔یعقوب یاورؔ کی شاعری ان خصوصیات سے ممیز ہے۔درج بالا اوالذکرشعر کچھ انہی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔زمانے کے مطابق اور اسے ہم آہنگ ہوکر ہی اچھے اورمعیاری ادب کی تخلیق ممکن ہے۔اس بات کو شاعر نے نہ صرف سمجھا ہے بلکہ اسے بخوبی برتا بھی ہے۔لن ترانی لن ترانی والا شعر بھی شاعر نے قابلِ داد کہا ہے جس میں تلمیح کا بھی حسن پنہاں ہے۔نئی تہذیب کو سمجھنے کے لیے یعقوب یاورؔ کے دو اشعار بہت خاص ہیں جس میں مذکورہ بالا میںایک شعرکا مصرعہ اولیٰ ’’نئی تہذیب اس کے پیٹ میں ہے‘‘میں شاعر نے نئی تہذیب کے لیے پگلی جیسی خوبصورت ردیف تراش کر نئی تہذیب پر بھرپور طنز کیا ہے۔یاورؔ نئی تہذیب کو بے حیا اورنہ باحیا کہتے ہیں یعنی نہ بے غیرت اور نہ ہی غیرت مندتصور کرتے ہیںکیونکہ اس کے شکم میں نئی تہذیب پل رہی ہے۔پھراس کے بعد والے شعر میں بھرپور طنز ابھرکرآتا ہے۔جس میں وہ کہتے ہیں کہ نئی تہذیب نے وہ جامہ زیب تن کیا ہے جس کے ہر ٹکڑے کو شاعر انسانیت کا کفن تعبیر کرتے ہیں۔شاعر نے واضح لفظوں میں نئی نسل کے پوشاک پر گہری تنقید کی ہے۔ہمارے معاشرے کی خواتین مغربی طرز حیات کے بہت سے معاملاتِ زندگی میں بھی دو قدم آگے نکل آئی ہیں۔یہ شعر مضمون آفرینی کی ایک عمدہ مثال ہے۔پروفیسرمظفر حنفی نے اسے طرز سخن کے حوالے پرکھا ہے اور راقم نے دوسرے معنی کے تناظر میں۔مندرجہ بالا آخرالذکر شعر میں موجودہ حالات اوردہشت خیز ماحول کا نقشہ کھینچا گیا ہے نیز جس میں انسانی بے بسی و محتاجی دکھائی گئی ہے۔یعقوب یاورؔ نے اپنی غزل گوئی میں تہذیبی اور مذہبی بیگانگی،غفلت شعاری،جبروتسلط،ذات کا محاسبہ،انتشاروتشکیک،خود ستائی،ذہنی و فکری پسماندگی،غیر مستقل مزاجی،حق پرستی،پستی و بلندی،منافقت،جاہلی،خوف و دہشت زدگی،شکستہ دلی نیزتناؤ اورفریب خوردہ زندگی کاصاف شفاف الفاظ میں المیہ بیان کیا ہے۔شاعر کے ذہن و دل پر زمانے اور حالات کا کس قدر بھار ہے اس کا اندازہ اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے:
وہ شوقِ دشت نوردی ، وہ چاک پیرہنی
اب اہتمامِ محبت کے حوصلے ہی نہیں
اس شعر سے یہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب شاعر محبت کاحترام و اہتمام کرتاتھا اوراس جستجو میں باقاعدہ رخت سفرباندھا کرتا تھا۔مطلب یہ بھی ہے محبت کرنے کا جذبہ و حوصلہ رکھتا تھا۔لیکن وقت کی بے سروسامانی کے سبب زندگی نے اس طرح پلٹ کھائی کہ شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ اب وہ دن نہیں رہے جب وہ کبھی جنونِ عشقِ محبت میں جنگل جنگل بیاباں بیاباں سربسر پھرا کرتا تھا،اب وہ دن بھی نہیں رہے جب وہ عشق کی تکمیل یا وصالِ سلسلۂ محبت کے لیے اپنے کپڑے چاک کیاکرتا تھا۔چنانچہ اسے وقت کی مار کہیں یا حالات کی کہ جس سے شاعر کا دل اوب گیا ہے وگرنہ کلاسیکی شاعری میں تو عاشق محبوب کے ہجرووصال پر ہی جان دینے پر تیار رہتا تھا۔ایسا شعر یقینا نئی تہذیب کی متنوی فکری پریشانیوںاور جھنجھٹوںمیں مبتلا شاعرہی کہہ سکتا ہے۔
یعقوب یاورؔ نے زندگی کی سیاہ راتوں کا جس خوبی سے تذکرہ کیا ہے ۔اس سے ایسا لگتا ہے کہ سیاہ راتوں سے شاعر کا بہت گہرا رشتہ رہا ہے۔شاعر اپنے آس پاس کے ماحول کا مشاہدہ کار ہوتا ہے جس کا وہ بہت جلدی اثر بھی قبول کرتا ہے۔ہوسکتا ہے یاورؔ کے ساتھ بھی کبھی ایسا معاملہ درپیش رہا ہو۔درج ذیل اشعار یاورؔ کی سیاہ راتوں کے اظہار کے بہترین عکاس ہیں۔قارئین کی بصارت کی نذر یہ شعر ہیںملاحظہ فرمائیں؎
ہمارا شہر ، شہرِ اعتبار آفتاب تھا
تو پھر سیاہ رات کا شکار کیسے ہو گیا
صبح خوابیدہ مگر بیدار کالی رات ہے
چند دن یاورؔ مزاجِ شاعراں یوں ہی سہی
وہ تاریک شب شب ہے کہ جینا محال
وہ شب پھیل کر میرا کل کھا گئی
زخموں کی بھیڑ میں انسان کو تنہا کر دیا
یعقوب یاورؔ کی چنندہ غزلوں کے درج بالا اشعارکو اُس وقت کی دورِ زندگی اور حالات کا ایک رُخ قرار دے سکتے ہیں۔چونکہ اشعار سے بھی مفہوم واضح ہورہا ہے۔یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیںہونی چاہیے کہ یعقوب یاورؔ حقیقت کا ترجمان شاعر ہے۔یاورؔ شہر کو آفتاب سے تشبیہ دے کر اُس کے روشن ترین دنوں کو یاد کرتا ہے۔وہ شہرکو آفتاب کے ساتھ مناسبت دیکھ کر کہتا ہے کہ ایک وقت تھا جب ہماراشہر خوشحال تھا۔پھر سوالیہ انداز میں مخاطب ہوتا ہے کہ ہمارے شہر کو کس کی نظر لگ گئی جو مانندِ آفتاب شہر کو سیاہ رات کے کالے بادلوں نے اپنی لپیٹ میںلے لیا ۔یہ سب بیان کرتے ہوئے شاعر تاسف کا اظہار کرتا ہے۔سیاہ رات،تاریک شب اور کالی رات کے تعلق سے یاورؔ کے باقی اشعار بھی قاری پراپنا دیرپا نقش چھوڑتے ہیں۔
یعقوب یاورؔ کی غزل گوئی ماضی اور حال کا حسین سنگم ہے۔ان کی غزلیں ماضی اور حال دونوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ایک حساس شاعر کی یہی پہچان ہے کہ وہ ماضی اور حال دونوں کو صحیفۂ حیات تصور کرتے ہیں۔علاوہ ازیںان دونوں کو اپنی اپنی جگہ اہمیت و افادیت دیتے ہیں۔بعض لوگوں کا ماضی فارغ البالی میں گزرا ہوتا ہے اور بعض کا بالکل اس کے برعکس۔اسی طرح بعض لوگو ں کا مستقبل تابناک اور خوشحال ترین ہوتا ہے لیکن ماضی میں انھوں نے مسائل و مصائب کا سامنا بھی کیا ہوتا ہے۔ہمارے درمیان کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ماضی کو بھول کر فردا کو سنوارنے میں لگے ہوتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو مستقبل میںخوشحالی کی زندگی گزر بسر کرتے ہیں۔ماضی،حال،مستقبل،فردا کے ضمن میں چند شعر پیش خدمت ہے، ملاحظہ فرمائیں؎
مسئلوں کی بھیڑ میں انسان کو تنہا کر دیا
ارتقا نے زندگی کا زخم گہرا کر دیا
فردا کی فکر ننھے دماغوں کی ڈس گئی
بچے ہمارے گھر کے شرارت نہ کر سکے
اکثر مزاج پوچھے ہیں ماضی نے حال کے
رکھے ہیں ہیں آج تک ترے بو سے سنبھال کے
مستقبل کے پیچھے پیچھے بھاگے ہے
اُس کا ماضی میرے گھر میں رکھا ہے
یعقوب یاورؔ کے مذکورہ غزلیہ اشعار ہمیںماضی اور حال سے واقف کراتے ہیں۔یہ بھی یاد رہے کہ انسانی زندگی ماضی اور حال کی تکرار ہی ہے۔یاورؔ نے بجا کہا ہے کہ اس کائنات میں آج کا انسان بے شمار مسائل سے دوچار ہے جن کو سلجھاتے سلجھاتے وہ تنہائی و تاریکی کا شکار ہوگیاہے۔ انسان کا ارتقائی مرحلہ ’زندگی‘ کا نازک ترین موڑ ہوتا ہے اس پر طرہ یہ کہ مسئلوں کا بوجھ جو اس کو نازک مرحلے پرپریشانیوں میں مبتلا کرکے زخم کا گہرا وار کرتا ہے۔ شاعر نئی نسل کے فردا کو سنوانے کے تئیں بھی فکر مند نظر آتاہے۔آج کے بچے بھی بہت حساس ثابت ہوئے ہیں۔جو بچپن میں ہی بالغ ذہن خیالات رکھتے ہیں۔اس کی وجہ موجود ہ حالات ہیں جس نے چھوٹے بڑے اور خاص و عام سب کو متاثر کیا ہے۔یاورؔ کے تمام اشعار قاری کے ذہن کو جنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیںجو ایک انسان کو اس کے ماضی اور حال پر طائرانہ نظر ڈالنے پر اکساتے ہیں۔
یعقوب یاورؔ کی غزل گوئی میں ہمیں متنوع فکر اور جہات کے حامل اشعار ملتے ہیں ۔لیکن وقت کی قلت کے سبب انہی چند باتوں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔کئی اہم اشعار چھوٹ بھی گئے ہیں ۔یوں تو یعقوب یاورؔ کی پوری غزل گو شاعری خامہ فرسائی پر آمادہ کرتی ہے تاہم راقم نے ایک موضوع کا انتخاب کرکے قارئین کے سامنے چند چنندہ انتخاب شدہ اشعار کا تذکرہ کیا ہے جس کے ساتھ انصاف تو نہیں ہوسکا ،تاہم مطالعے سے کم ازکم تشنگی کسی حد تک دور ہوئی۔یعقوب یاورؔ کی غزلوں کے مطلعے اورمقطعے بہت جاندار ہیں۔مزید برآںموضوع کے لحاظ سے بھی ان کے یہاںہمہ گیریت پائی جاتی ہے۔اسی طرح تاریخ،تہذیب اور تمدن کی تمثیل میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔فنی اور فکری اعتبار سے یعقوب یاورؔ کی غزلیں ایک پختہ کار غزل گو شاعر کی بہترین مثال پیش کرتی ہیں۔