یعقوب مظہر گل 15/ ستمبر 1941ء کو چودھری محمد بوٹا کے گھر اکھاڑا ضلع جالندھر ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔ہجرت کے بعد پاکستان آ کر چک 106 گ ب جڑانوالہ میں آ بسے ۔۔جون 1970ء میں گورنمنٹ کالج سمندری میں بطور لیکچرار اپنی سروس کا آغاز کیا۔ پھر جڑاوالہ سے ہوتے ہوئے آپ 1982ء میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد آگئے اور یہیں سے 14 دسمبر 2001ء میں بطور وائس پرنسپل ریٹائر ہوئے ہیں ۔۔
درد آشنا ( 1989)، اور نگران آنکھیں ( 2006) کے بعد یعقوب مظہر گل کا تیسرا شعری مجموعہ ” سو ختن نا تمام “(2010) میں شائع ہوا ۔اس میں شامل کلام کا مزاج پہلی شاعری سے قدرے مختلف ہے ۔۔” درد آشنا ” میں آتش جواں تھا ، ” نگران آنکھیں ” میں شاعر مسلسل سلگتا ہوا نظر آتا ہے ۔اور “سوختن ناتمام “میں اندر کی آگ نے اسے کندن بنا دیا ہے ۔۔محمد یعقوب مظہر گل ایسے شاعر ہے جو ہجوم میں رہتے ہوئے بھی اپنی تنہائی کی اجنتا میں سرگرم تخلیق رہتے ہیں۔بھیڑ سے ہٹ کر اور اپنوں سے کٹ کر چلنے کا اپنا مزہ ہے مگر اس مزے اور لذت کی اپنی سزا بھی ہے اور وہ یہ کہ فنکار اپنے تخلیقی سفر میں بالکل اکیلا ہو جاتا ہے ۔۔اردگرد کے معمولات شعری اور اسالیب فنی سے بے نیاز گل صاحب نے اپنے اظہار کے لیے جو موضوعات جنے ہیں وہ بھی ہماری شاعری کے مستعمل موضوعات و مضامین سے بالکل مختلف ہیں ۔
جی سکے گا کوئی کیسے ہجر میں اس ماہ میں
یہ نہ سوچا تھا کسی نے رت جگا دیتے ہوئے
یعقوب مظہر گل کے یہاں سیاسی جبر و اکراہ کے خلاف مزاحمت اور ردعمل کا رویہ بڑی شدت کے ساتھ ابھرا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ حکومت اور عدلیہ کی چپقلش ،سیاستدانوں کی فریب کاریوں ،عوام کی سادہ لوحی ،ووٹروں کی نفسیات ،مالی بدعنوانیوں ،الیکشن اور مہنگائی جیسے موضوعات پر اپنی ناراضی اور برہمی کا برملا اظہار کرتے ہیں ۔امریکہ کی بے جا مداخلت ، کیری لوگر بل ،خطے میں ہندوستان کا کردار جیسے موضوعات پر بھی شاعر اپنے رد عمل کا بھرپور اظہار کرتا ہے ۔مثلا ” “نگران آنکھیں” کے ان شعری منظر نامے میں سے نظم دیکھیں جیسے کہ پہلے عرض کیا گیا ہے ۔ان شعری منظرنامے میں ذاتی ، قومی اور بین الاقوامی ( Personal, National & International) سبھی واقعات و حوادث کی صورت گری ملتی ہے ۔ان نظموں میں قلم بند محسوسات کے تخلیقی تناظر میں آپ کو انہی رنگوں کا اظہار اور تنوع نظر آئے گا ۔
معیشت پر بھوتوں کا قبضہ ہے ابھی
جو تصویر کل تھی وہ نقشہ ہے اب بھی
وسائل انھیں کے حکومت انھیں کی
زر عت انھیں کی ہے صنعت انھیں کی
یعقوب مظہر گل کے ہاں اظہار کا اپنا منفرد اور جداگانہ انداز ہے ۔واقعات کو اپنے سچے اور صحیح سیاق و سباق میں پیش کرنا بغیر کسی علامت ، استعارے اور علائم و رموز کی آمیزش کے ان کا اظہار واقعیت اور صداقت کے بقیہ عناصر سے مملو ہے ۔واقعات نگاری کے حوالے سے ان کا رد عمل بھی ایک تاریخ نگار اور واقعہ نگار کاسا ہے ذاتی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہر خبر کو نظم کرنے کا فن خوب جانتے ہیں اور ہر واقعہ کو شعری زبان دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔یعقوب مظہر گل صاحب کے موضوعات ہمارے آس پاس کی پھیلی ہوئی دنیا سے اخذ کیے گئے ہیں خصوصا مٹتی ہوئی قدریں ٹوٹتے ہوئے تہذیبی سانچے بڑی طاقتوں کے استعاری حربوں سے پیدا ہونے والی صورتحال مادی قوت کے نشے سے سرشار ملکوں کے دہرے معیارات انسان کے جوہر کو برباد کرنے والی سازشیں خصوصا اسلام ، اسلامی ممالک اور مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جانے والے ظلم اسی طرح معاشرتی ناانصافیاں سماج میں جاری تشدد ، دنگا فساد اور عدم مساوات سے پیدا ہونے والی اذیت انہیں رولا دیتی ہے۔وہ ایسے واقعات و احوال کو شعری تجربہ بناتے ہوئے خود عزیز سے گزرتے ہیں اور اپنے قاری کو بھی اس دکھ اور جلن میں شریک کرتے ہیں ان کے شعروں میں رومانوی دلآویزی نہیں جو قارئین کو حقائق سے بے خبر رکھے۔
بالعموم شعراء کی شاعری اور شخصیت میں بڑا فرق نظر آتا ہے ، قول و فیل کہ اسی تعداد کے باعث اللہ تعالی نے ان کی پیروی کو گمراہ قرار دیا ہے ۔الا جو حق بات کہتے ہیں یعقوب مظہر گل کی شاعری اخلاقی یہ سمندر سے آگے نظر آتی ہے یہاں شاعر تلمیذ الرحمن قرار پاتا ہے۔۔شاعری جزو پیغمبری بن جاتی ہے ۔زندگی ان انفرادی اور اجتماعی حادثات کا نام ہے ان سے متاثر ہوئے بغیر انسان رہ نہیں سکتا ۔تاہم وہ ان سے سبق سیکھ کر اپنی زندگی میں تلخیوں کو کم کر لیتا ہے ۔ایسی اقوام جن کو ہماری دنیا میں زندہ قومیں کہا جاتا ہے ۔علامہ اقبال نے شاعر کو ” دیدہ بینائے قوم” کہا تھا ۔کیونکہ آنکھ ہر عمل اور ردعمل کو دیکھتی ہے ۔
دلوں پر جو واردات گزرتی ہے ان کا اظہار بھی کرتی ہے جسم پر تشدد ہو تو وفور غم میں اشک بار ہو جاتا ہے
امڈی ہیں آنکھیں جب کبھی جل تھل ہو جہاں
برسو گے میرے ساتھ کیا ساون کے بادلو
اخبار کی چھوٹی چھوٹی خبریں ۔۔۔۔۔اکابرین کے سیاسی بیانات حالات حاضرہ سے پیدا ہونے والی شاخسانے سیاست کے تہذیب و تمدن اور انسان کے عقل و شعور پر اثرات یعقوب مظہر گل کی شاعری کے موضوعات ہیں ۔ان کی شاعری کا مطالعہ عصر حاضر کے مسائل سے آگہی بخشتا ہے ۔اور اس کے بارے میں ایک حساس شاعر کے ردعمل سے قاری کو خبر ہی نہیں رکھتا شریک تجربہ بھی کرتا ہے ۔
یعقوب مظہر گل کا اضطراب ان کے درد مند اور درد آشنا ہونے کی غمازی کرتا ہے۔۔انہیں صرف سیاستدانوں کی کرپشن پر ہی نہیں بلکہ عوام کی عقبت نا اندیشی پر بھی بہت غصہ آتا ہے ،انہیں اپنی بے بسی اور بے کسی کا احساس بھی دامن گیر رہتا ہے ۔اس لیے وہ اس لیے وہ مادر مشفق سے شرمندہ ہو کر ” اقبال جرم “کرتے نظر آتے ہیں ۔وہ محنت کش طبقے کو سلام کرتے ہیں اور ان کی پیشانی سے ٹپکنے والے عرق کو لعل و گوہر سے تعبیر کرتے ہیں ۔۔”اقبال جرم “اور محنت کش ” ان کی یادگار نظمیں ہیں ۔گل و بلبل ، شمع و پروانہ جیسے سکہ بند موضوعات ناپید ہیں ۔ان کی نظموں میں ایک ہلکی سی یاسیت ، ایک نامعلوم کسک اور ایک عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔وہ میٹھا میٹھا درد جو اندر ہی اندر بندے کے زخموں پر ہاتھ پھیرنے سے محسوس ہوتا ہے ۔کہیں کہیں ناسٹلجیا کا احساس ہوتا ہے ۔”سوختن نا تمام ” میں نظم “انسان اور درخت” کا یہ حصہ ملاحظہ کریں ۔
آدمیت کے لقب سے آج بھی ہے سر بلند جس نے رسوا کر دیا ہے آدمی کے نام کو
دھوپ میں جلتا آف تک نہیں کرتا مگر پھر بھی سایہ دیتا ہے انسان بد انجام کو
“سوختن نا تمام “میں لذت کام و دہن کے لئے کچھ ہو نہ ہو فکر و نظر کے لئے وافر سامان موجود ہے ۔یہ شاعری فردوس گوش اور لوریاں سنا کر آپ کو سلاتی نہیں بلکہ نیند کے ماتوں کو بیدار کرتی ہے ۔اور اور تدبر اور تفکر کی دعوت دیتی ہے تو کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے ،،؟
اسے بروئے کار لاتے ہوئے انھوں نے تخلیق ِ ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کردیا اور ستاروں پر کمند ڈال کر دنیا کو حیران کر دیا۔ احسن سلیم نے تخلیقِ ادب میں مواد اور ہئیت کے نئے تجربات اور افکار ِ تازہ کے معجز نما اثر سے جہانِ تازہ کی نمود کے امکانات کو یقینی بنا دیا۔ سماجی اورمعاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں ،شقاوت آمیز نا انصافیوں ،سماجی برائیوں ،لُوٹ مار ،استحصال اور دہشت گردی کی لعنت کو وہ ایک بلائے نا گہانی سے تعبیر کرتے اور سدا تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے پر اصرار کرتے تھے۔اپنے ادارتی کلمات اور وقیع مقالات میں انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ معاشرتی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے میں محب وطن ادیب اور دانش ور اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔انسانیت کا وقار اورسر بلندی ہمیشہ ان کا مطمح نظر ر ہا ۔انھیں اس بات کا قلق تھا کہ استحصالی عناصر کے غیر انسانی روّیے کے باعث مظلوم انسانیت کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ہو گئی ہیں۔ کتابی سلسلہ سہ ماہی مجلہ’’اجرا ‘‘میں ان کے ادارتی کلمات ’’خیابان ِ خیال ‘‘کے عنوان سے شامل اشاعت ہوتے تھے۔اپنے اداریوں میں احسن سلیم نے قارئین میں عصری آ گہی پروان چڑھانے کی مقدور بھر کوشش کی ۔انھوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ِ ضمیر سے جینے کی روش اپناتے ہوئے حریت ِ فکر و عمل کا پرچم بلند رکھنے کی کوشش کی ۔ادبی مجلہ اجرا میںخیابانِ خیال کے تحت اُن کے لکھے ہوئے اداریوں اور اس مجلے میں شامل ادبی محافل اور تخلیقی مکالمات کی ہر طرف دُھوم مچ گئی ۔ وہ ارد و ادب کو پامال راہوں او ر گِھسے پِٹے انداز کلیشے(Cliché) سے نجات دلانے کے خواہش مند تھے ۔اردو ادب میں تقلید کی مہلک روش کو وہ اسلوب کی ندرت و تنوع اور ہمہ گیر اثر آفرینی کے لیے انتہائی خطرناک سمجھتے تھے ۔ ا پنے ادبی نصب العین کی وضاحت کرتے ہوئے احسن سلیم نے خیابانِ خیال کے تحت اجراشمارہ 16 ماہ اکتوبر تا دسمبر 2016میں لکھا ہے :
’’ہر لکھنے والے کا ایک ڈھب ہوتا ہے ۔میرا بھی لکھنے کا ایک ڈھب ہے ۔میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے پڑھنے والوں سے اپنی ازلی توفیق کے مطابق،جو میں نے خود کو قبل از خِلق ودیعت کی تھی ،بروئے کار لاؤں اور کچھ ایسی باتیں کہوں اور سُنوںجو میں نے کبھی نہ سُنی ہوں اور نہ کبھی کہی ہوں —–لیکن ہمارے ادبی نظام اور اظہاری سانچوں میں اورہماری زبان کے اسٹرکچر میں کچھ ایسی خوبی ہے کہ ہم چاہتے ہوئے بھی نہ کچھ نیا کہہ پاتے ہیں نہ کچھ نیا سُن پاتے ہیں ۔‘‘
یعقوب مظہر گل نے ایک زیرک ،فعال اور مستعد ترقی پسندتخلیق کار کی
حیثیت سے پاکستانی ادبیات کے فروغ کے لیے انتھک جد و جہد کی ۔پاکستانی عوام کو جہد و عمل پر مائل کرنے اور اپنی حقیقت سے
آشنا کرنے میں انھوں نے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔انھوں نے نثری نظمبنیاد گزاروں کے ساتھ مِل کر اس صنف ِادب کے فروغ میں سرگرم کردار ادا کیا۔تاریخ ادب کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ پاکستان میں نظم کے فروغ میں جن ممتاز شعرا نے حصہ لیا اس کے ہراول دستے میں بھی شامل تھےیعقوب مظہر گل بھی شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...