عبدل کچھا کھچ بھری بس کے اندر شکار کی تلاش میں زبردستی ٹھنسا ہوا تھا بس رینگتی ہوئی منزل کی جانب رواں دواں تھی انسانی پسینے کی باس تنفس میں دقت پیدا کر رہی تھی .
اس بس میں سفر عبدل کی مجبوری تھی اس کا کام ایسی بھری بس میں ہی آسانی سے ہو سکتا تھا.
گھر سے بغیر ناشتے کے نکلے عبدل کی انتڑیاں بھوک سے قل ھو وللہ پڑھ رہی تھیں۔ مگر اس کے ایمان کا یہ عالم تھا کہ اگلے سٹاپ پر بنے ڈھابے والے ٹییل مین سے روزانہ کی بنیاد پر طے شدہ تھا کہ وہ پھٹے پر آ بیٹھے تو آرڈر دے یا نہ دے انڈا پراٹھا اور دوھ پتی آجانا چاہیے باوجود کہ اس وقت جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی ۔
اسے جمعہ کا وعظ لفظ بہ لفظ یاد تھا مولوی نے صاحب نے یہ یقین دلا دیا تھا کہ پروردگار بندے کو بھوکا اٹھاتا ضرور ہے بھوکا سلاتا نہیں۔
اسی اثنا میں اس کی نظر اپنے شکار پر ٹک گئیں چشم میں زدن میں مسافر کا پرس اسکی جیب سے نکل کر عبدل کے ہاتھ میں تھا۔
وہ اطمینان سے اگلے سٹاپ پر اترا اور ڈھابے کے تخت پر بیٹھ کر اطمینان سے پرس سے برامد رقم گننے لگا پورے دس ہزار تھے فرط مسرت سے اس کا چہرہ تمتما اٹھا۔
اس کے زہن میں مولوی کے الفاظ گونج رہے تھے اللہ تعالی انسان کو بھوکا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سپاہی پیراں دتا گھر سے گالیاں بکتا دروازے کو ٹھڈا مارتا‛ بڑبڑاتا ہوا نکلا !باہر کوئی نوٹوں کا درخت لگا ہے؟
تھانے دیر سے پہچنے پر افسر سے ڈانٹ کھائی‛ بندوق وصول کی اور چوک پر کھڑا ڈیوٹی دینے کے ساتھ ساتھ گھر کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔
کیا مصیبت ہے !! کچھ پورا نہیں پڑتا‛ راشن لاو تو فیس نہیں ‛ فیس دی تو دودھ والا رہ گیا ‛دودھ کا حساب چکتا کرو تو سبزی والا باقی ‛سبزی والے کو نمٹاو تو اماں کی دوا ‛ اور اگر دوا لے ہی آو پھر بچوں کی فیس !!!!! یہ خیالی دائرہ گھوم کر ہمیشہ اسی مقام پر ختم ہوتا جہاں سے شروع ہوا تھا
ان خیالات کی جہنم سے جنت کی طرف کھلنے والی چھوٹی سی کھڑکی کا کردار صرف مولوی کا جمعے کا خطاب ادا کر رہا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اللہ تعالی انسان کو وہاں سے دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا!
اچانک اس کی نظر ایک نو جوان پر پڑی جو وائن شاپ سے ہاتھ میں ایک پلاسٹک کی تھیلی جھلاتا ہوا نکلا اور تیزی سے موٹر سائکل پر سوار ہو کر ایک طرف روانہ ہو گیا پیراں دتا تیزی سے محکمے سے ملی موٹرسائکل اسٹارٹ کر کے اس کے پیچھے چل پڑا اور کچھ دیر میں اسے جالیا توقع کے عین مطابق نوجوان مسلمان تھا جو شراب خریدنے کا اہل نہیں تھا اور موٹر سائکل کے کاغذات ‛ لائسنس نہ ہونا تو کسی کھاتے میں ہی نہیں تھوڑا سا دھمکانا ہی کافی رہا اور تین ہزار روپے ہاتھ آگیے.
واہ مولا تیری شان۔ وہ زیر لب بڑبڑاتا ہوا واپس چوک پر آکھڑا ہوا آج کا دن اچھا گزرنے کی توقع تھی مولوی کی تقریر کا اقتباس اسکے تحت الشعور میں سرگرداں تھا۔ عقیدت سے اسکی آنکھیں بھر آئیں اللہ تعالی انسان کو وہاں سے دیتا۔ ۔ ۔ ۔
سرکاری دفتر کے دالان میں گہما گہمی تھی پچاس کرسیاں جن کی ترتیب دس دس کی آگے پیچھےپانچ قطاریں بنا کر رکھی گئی تھیں سامنے کی طرف ایک میز اور دو کرسیاں رکھی گئیں جہاں کچھ دیر میں ٹینڈر کھلنا تھا ۔
سرکاری افسر امتیازی صاحب بے چینی کے عالم میں چیمبر میں بیٹھے تھے ۔
گھر سے فون آیا تھا کہ بیٹا انجینرنگ داخلے کے آزمائشی مقابلہ میں فیل ہوگیا ہے ۔
اب اگر سیلف فائنانس کے تحت سیٹ چاہیے تو ملے گی ورنہ سب ختم!!!
کیا کریں؟ ان کی سوچ میں جمعہ کا بیان چل رہا تھا
مولوی کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالی آزمائش دیتا ہے تو اس کا حل بھی نکالتا ہے۔
دروازے پر دستک ہوئی!
یس کم ان۔
سر ملک صاحب ٹینڈر کھلنے سے پہلے آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
اوکے بلاو۔
ملک صاحب اندر آتے ہی بغیر تمہید باندھے بولے۔ اپنا!!!!!!!! کی ناں اے خیر جو وی اے ‛ہم ساتھ چلنے والے بندے ہیں آپ کو ہم سے کوئی شکیت نیں ہوگی آپ کم قیمت والے ٹینڈر کا ریٹ بتاو ہم اس سے کم کی بولی دیں گے۔ ورنہ!!!! ٹینڈر تو ہم لے ہی لیں گے۔
امتیازی صاحب کچھ سوچنے کے بعد بولے ٹھیک ہے آپ ساڑھے پچپن روپے فٹ کے حساب سے ٹینڈر بھر دیں اور چپکے سے میرے کلرک دے دیں ٰ انہوں نے انٹر کام پر کچھ ایسی ہدایات دیں ۔
ملک صاحب سے بڈ لے لو۔
ہاں ہاں بیک ڈیٹ میں۔
ہاں ہاں یار کیوں پربشان ہوتے ہو۔؟ اوکے.
ملک صاحب میرا حصہ شام تک پہنچ جانا چاہیے بعد میں آپ سرکار سے وصولتے رہنا۔ امتیازی صاحب نے کہا
فکر ای نہ کرو جی ہم دو نمبر کام ایک نمبر طریقے سے کرتے ہیں چنگا فیر رب راکھا۔
ملک صاحب کے جاتے ہی امتیازی صاحب مصلہ بچھا کر سجدہ شکر میں گر گئے واہ مولا تیری شان نرالی ۔
مولوی کے الفاظ دہرا رہے تھے اللہ تعالی اگر آزمائش دیتا ہے تو اسکا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لاکھوں دلوں کی دھڑکن روڑی المعروف سوزی اپنے لمبے یورپین ٹور کے بعد گھر آئی ہوئی تھی ملک کے امراء لاکھوں روپے اسے رقص و سرود کی محفلیں سجانے کا دیتے تھے کئی بااثر اور کاروباری شخصیات سے آے دن اس کے اسکینڈل عام سی بات تھی! اسکے مینجر نے اسے بتایا۔
میڈم ڈانس پارٹی بکنگ کے ایڈوانس دس لاکھ مل گیے ہیں باقی سروسز کے وہیں ملیں گے اس نے اوکے کہہ کر میک اپ کو فائنل ٹچ دیا اور گھر کے پائیں باغ میں مدعو رپوٹروں میں آگئی اسے اپنے نیے اسکینڈل پر اپنی پوزیشن کلیئر کرنا تھی جہاں دسیوں میڈیا نمائندے ہاتھوں میں کیمرے سنبھالے منتظر تھے۔
وقفہ سوالات میں ایک صحافی نے سوال کیا۔
میڈم اتنی شہرت دولت پاکر کیسا لگتا ہے اور آپ یہاں تک کیسے پہنچیں؟
سوزی نے اک نگاہ غلط انداز صحافی پر ڈالی اور کہا ! ول فرسٹ آف آل میں آل مائٹی اللہ تعالی کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے مجھے اتنی عزت شہرت دولت دی اور سیکنڈ یہ کہ مولانا صاحب نے وعظ میں بتایا کہ غریبوں کی مدد کرو اللہ سب کچھ دے گا۔
مولوی مغرب کی نماز پڑھا کر واپس آیا تو ملانی نے بتایا کہ آج کچی بستی کے عبدل کے گھر سے مرغی کا سالن آیا ہے ‛ سپاہی پیراں دتا کے گھر سے مٹن بریانی اور کھیر‛ پکی بستی سے امتیازی صاحب نے مدرسے کے لیے دس رحلیں اور
اور بینچیں ‛ اور بنگلوں میں سے فلمی اداکارہ سوزی نے مسجد کی تعمیر کے لیے ایک لاکھ روپے بھیجے ہیں۔
مولوی نے آسمان کی طرف آنکھیں اٹھائیں اور دونوں ہاتھ پھیلا کر دعا کی۔
اے پروردگار جن لوگوں نے کار خیر میں حصہ ڈالا ان کی مشکلیں آسان کر۔ ان کی کمائی میں اسی طرح برکت عطا فرما۔
لا پہلے کھیر چیک کرا۔
آمین۔کہتے ہوے ملانی نے کھیر کی پلیٹ مولوی کے آگے رکھ دی
مکمل ہوگیا؟
https://web.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1727347657531934/
“