اہانت رسول ﷺ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستقل مسئلہ ہے۔ اس کی ابتدا مکہ کی وادیوں میں پہلے پہل گونجنے والی دعوت توحید کی مخالفت سے ہوئی تھی۔ تب سے لے کر آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ کچھ نہیں ہے بلکہ اسی صداۓ حق کے خلاف چھیڑی گئی ایک ناپاک مہم ہے جس کا آغاز اسی مکہ کے بد قماش سرداروں نے کیا تھا۔
لیکن اس ایک فرق کے ساتھ کہ کل یہ سب و شتم اور جور و جفا اس کار دعوت کا لازمی نتیجہ قرار پاۓ تھے جو رسول کریم اور ان کے اصحاب کرام کر رہے تھے۔ مگر افسوس کہ آج یہی توہین و تذلیل فریضۂ دعوت دین کے بجاۓ ہماری اپنی سیاست، معاشرت اور ہماری اپنی روش علم و عمل کے نتیجے میں ہمیں مل رہی ہے۔ یہ گالی گلوچ اور توہین و تذلیل تو اس دعوت کے نتائج تھے۔ اسی لیے حکم خدا ہوا کہ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت، موعظت اور بہترین مباحثے کے ذریعے بلاؤ۔ اور اگر مخاطب بدتمیزی پر اتر آئے تو تم اس کا جواب اپنا آپا کھو دینے کے بجاۓ اور “اینٹ کا جواب پتھر سے دینے” کے بجاۓ خوش اخلاقی سے دو۔ غصہ آئے تو اپنے رب کی پناہ مانگو اور شر کو خیر سے دفع کرو۔ دیکھو، اپنے نتائج کے اعتبار سے نیکی اور بدی یکساں نہیں ہو سکتے۔ تم برے رویے کے جواب میں اچھا رویہ اپناؤ گے تو تمھارا جانی دشمن بھی جگری دوست بن جاۓ گا۔ قرآن نے ایک بنیادی بات یہ بھی سکھائی کہ تم ان کے باطل خداؤں کو گالی مت دو و گرنہ وہ جہالت میں اللہ کو گالی دے بیٹھیں گے۔
آج ہم مختلف مذاہب و عقائد کے ماننے والے کروڑوں لوگوں پر مشتمل ایک سیکولر ملک میں رہتے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنا اور اپنے قول و عمل سے انھیں دعوت فکر دینا ہماری مذہبی ذمہ داری تھی۔ اور یہ ذمہ داری “مذہبی جھگڑوں” میں پھنس کر ہرگز بھی ادا نہیں ہو سکتی۔
کیا ہم جانتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں حضور کریم وہ واحد ہستی ہیں جن کی مدح میں سب سے زیادہ لکھا اور بولا جاتا ہے؟ اور پھر حضور اکرم ہی کی ذات گرامی ہے جن کی شان میں بے بیہودگیاں بھی سب سے زیادہ کی جاتی ہیں؟ سورج پہ تھوکنے کی کوشش کرنے والے آج بھی خود اپنے ہی چہروں پر تھوک رہے ہیں۔ لیکن نبی کی عظمت و رفعت ان آلودگیوں سے بہت دور ہر لمحہ “ورفعنا لک ذکرک” کے قرآنی اعلان میں پیہم گونج رہی ہے۔
لیکن آج اگر سات ارب انسانوں میں تقریباً پانچ ارب لوگ حضور کی عظمت و حرمت سے نا آشنا ہیں تو یہ کمی ہماری ہے، بلکہ یہ جرم ہمارا ہے۔ دنیا کے سامنے حضور کا تعارف پیش کرتے رہنا ہماری ذمہ داری تھی۔ یہ کام علما کا تھا، مدارس اور مکاتب کا تھا، مسجدوں اور خانقاہوں میں بسنے والوں کا تھا، جماعتوں، جمعیتوں اور کونسلوں کا تھا۔ دفتروں، فیکٹریوں، ہسپتالوں اور علم گاہوں میں آنے جانے والے ان تمام مسلمانوں کا تھا جو حضور سے اپنی عقیدت و محبت کا دم بھرتے ہیں اور واقعی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول کی محبت اگر اپنی جان سے کم ہے تو ہمارا ایمان ہی قابل قبول نہیں۔ یہ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری تھی کہ ہم دنیا والوں کو بتاتے رہتے کہ محمّد صل اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں، اللہ نے انھیں تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنایا ہے، وہ کامل انسان تھے، انتہائی اعلا اخلاق و کردار کے حامل تھے، کسی نئے مذہب کے بانی نہیں تھے، پچھلے نبیوں اور کتابوں کی تصدیق کرنے والے تھے، ان کی زندگی انتہائی سادہ تھی، وہ انسانیت کے سر کا تاج تھے۔ وہ بہترین باپ، بہترین بیٹے، بہترین شوہر، بہترین بھائی، بہترین سیاست داں، بہترین کمانڈر اور بہترین قائد تھے۔ وہ زمین پر نظام امن و عدل اور قانون و سیاست کی راہ دکھانے والے تھے۔ ان کے کمالات حیات انسانی کے تمام شعبوں کو اپنے دائرے میں سمیٹ لیتے ہیں۔ قرآن ان کا معجزہ اور ان کی صداقت کا بولتا ثبوت ہے اور وہ دنیا کے دو سو کروڑ مسلمانوں کی روحوں میں رچتے بستے ہیں۔
اس وقت اس ملک میں ان کے ماننے والوں کی غیر سرکاری تعداد لگ بھگ 30 کروڑ ہے۔ ان تیس کروڑ میں ہزاروں لاکھوں لوگ دن رات کتابیں لکھتے ہیں، شب و روز تقریریں کرتے ہیں لیکن افسوس کہ جب کبھی شان رسالت پر آنچ آئی چھوٹے موٹے بے تکے، بے محل اور بیجا ہنگاموں کے سوا کچھ نہ ہوا۔ بلکہ الٹا یہ ہوا کہ معصوم بچے جیلوں کی نذر ہوئے، توڑ پھوڑ اور سنگباری کے جرم سے داغ دار ہوئے اور توہین رسالت کا شور مزید توہین رسول کا وسیلہ بن گیا۔ ہر بار کوئی سلمان رشدی، طارق فتح، تسلیمہ نسرین اور وسیم رضوی جیسے ذلت والے حلقۂ دشمناں میں “سلیبریٹی” یعنی” عزت والے” بنتے گئے۔
مگر افسوس کہ عوامی مقبولیت کے حامل کسی مقرر، معلم، مدرس، مصنف اور امام کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اسلام، قرآن اور صاحب قرآن پر اٹھنے والے گھٹیا اور جاہلانہ سوالوں کا علمی، عقلی اور منطقی جواب دینے کی کوشش کرے! اپنے فقہی اور مسلکی نقطہاے نظر کی وکالت میں کتاب پر کتاب اور حواشی پر حواشی لکھنے والوں کو کبھی فرصت ہی نہیں ملی کہ اس سنجیدہ ترین اور لازم ترین موضوع پر انگریزی اور ہندی زبان میں کوئی مدلل کتابچہ ہی رقم فرما دیں۔ آج سوشل میڈیا کی دولت ہر کسی کو میسر ہے۔ کیسے کیسے لوگ کیا کیا پروس رہے ہیں اور ہماری نوجوان نسل نہ جانے کس کس کی “لائکرس اور ویورس” بن رہی ہے۔
یہ وقت تھا جب وسائل سے مزین ہمارے دینی اور علمی اداروں کے سرپرست اعلا خود بھی یہ کام کرتے اور اپنے سکالرز کو اس کام پہ مامور کرتے کہ وہ ہندی اور ہندستانی زبان میں سوشل میڈیا پر اسلام کے اصل قرآنی تصور کو واضح کریں، قرآن اور پیغمبر اسلام کا تعارف پیش کریں اور اس ملک کے امن پسند غیر مسلم شہریوں کے سامنے اسلامی موقف کو واضح کر کے ان کے لیے راہ ہدایت کو ہموار کریں۔ ہماری ذمہ داری لوگوں کو پکڑ پکڑ کر مسلمان کرنے کی ہرگز نہیں ہے لیکن اسلام ایک خدائی نظریہ ہے اور ضروری ہے کہ یہ خدائی نظریۂ حیات خدا کے ہر بندے تک پہنچ جاۓ۔ یہی ہماری ذمہ داری ہے اور یہی ہمارا منصب ہے۔ لیکن ایسا اس لیے نہیں ہو رہا ہے کہ ہم دین کی تعبیروں میں الجھا دیے گئے ہیں۔ قرآن مقدس کو ہم نے علم الکلام کا اکھاڑا بنا دیا ہے اور ہمیں اپنے اپنے مسلکی اور فقہی مناہج کی ترسیل و تبلیغ سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ نبی کے نام پر “جھوم جانے” والے اور نبی کے کام پر” گھوم جانے” والے سبھی مکتبۂ فکر کے مسلمان آج ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ شان رسالت پر کوئی “آنچ” آ جاۓ تو جذبات سلگ جاتے ہیں مگر جب حضور سے عملی تعلق کا سوال آجاۓ تو جذبات بدل جاتے ہیں۔
اس بار جب توہین رسالت کے حالیہ معاملے پر عالمی سیاست نے ایک سیاسی کروٹ لی اور ہنگامہ سرحدوں کے پار سے اٹھا تو نپور شرما کے خلاف بیک زبان کہرام مچانے لگے لیکن اس نکتے پر ذرا بھی غور نہیں کیا کہ آخر اچانک اس خاتون کی زبان سے وہ سب کچھ کیسے اور کہاں سے نکل گیا جس نے ہمارے جذبات کو بے پناہ مجروح کر دیا۔ وہ کون سے عوامل تھے جس نے یہ حالات پیدا کر دیے؟ کیا اس مسلے پر کسی مؤقر گروہ نے نپور شرما سے، اس کی پارٹی سے یا حکومت سے آج تک کوئی بات کی ہے؟ کوئی ملاقات کی ہے؟ یا کسی نے کبھی سوچا کہ چلو ایک دن ایک ساتھ پورے ملک میں محبت آمیز جلوس کی شکل میں اسم محمد کا اجالا پھیلا دیں؟
یہ وہ مواقع ہوتے ہیں جب مخالفت میں اٹھنے والی مٹھی بھر زبانوں سے الگ لاکھوں کروڑوں خاموش سماعتیں منتظر جواب ہوتی ہیں۔ جواب مثبت اور منطقی ہو تو خود دل کا دریا عبور کر لیتا ہے اور یوں دشمن کی سازش ہی خود اپنے حق میں نتیجہ خیز بن جاتی ہے۔ یہی مکے اور مدینے میں ہوا تھا۔ یہی آج بھی مشرق و مغرب میں ہو رہا ہے اور یہی “اسلاموفوبیا” خود گلستان اسلام کی آبیاری کا بہانہ بن رہا ہے۔
حالانکہ اسلام کی پوری تاریخ ان ہی مثبت نتائج کی گواہ رہی ہے مگر حیرت ہے کہ اس ملک میں تقریباً 30 کروڑ مسلمانوں کے ہوتے ہوئے لگ بھگ 100 کروڑ غیر مسلموں میں ابھی تک اسلام اس طرح نہیں پہنچا جیسا کہ یہ مغربی ممالک میں متعارف ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم نے اپنا اپروچ ہی مخاصمانہ رکھا ہوا ہے۔ ہماری قیادتوں کے پاس ایک ‘اقلیت کے حقوق` کی لڑائی کے علاوہ دوسری کوئی اسکیم ہے ہی نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جب ایک داعی امّت کا رویہ اس کے منصب کے برعکس ہو اور بات “تو تو میں میں” کے سٹائل میں ہی ہوتی ہو تو 30 کروڑ مسلمانوں کی تعداد ایک پست حوصلہ و پس ماندہ “اقلیت” بن کر کسی سچر کمیشن کی عبارتوں میں دھول چاٹتی رہ جاتی ہے۔ اور آخر کار وہ اس لائق بھی نہیں رہ پاتی کہ اپنے عقیدہ و ایمان کے موقف کی تمام تر مضبوطی کے باوجود اس کا دفاع بھی کر سکے ! ہمارا حال یہ ہے کہ
وجود کی بساط پر بڑی عجیب مات تھی
یقیں لٹا کے اٹھ گئے، گماں بچا کے رکھ دیا
***
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...