قرآن مجید نے کہاکہ”یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(۲:۳۸۱)“ترجمہ:”اے لوگوجوایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقوی کی صفت پیداہوگی“۔ترتیب کے اعتبارسے امت مسلمہ آخری ملت ہے جبکہ اس سے قبل متعدد اقوام و ملل گزرچکیں۔جن اقوام نے انبیاء علیھم السلام کی تکذیب کی،ان کااستہزاکیا اوران کی تعلیمات ماننے سے انکار کر دیا اللہ تعالی نے ان اقوام کونیست و نابود کر دیااور قہرالہی نے انہیں اس دنیاسے حرف غلط کی طرح مٹادیا۔ان میں سے کچھ اقوام کی باقیات موجودہیں اور باقی ماندہ صدیوں کی گردکے نیچے درگورہوگئیں یا ریگستانی ٹیلوں نے انہیں اپنی آغوش حدت میں لے کر اس دنیاکی آنکھوں سے اوجھل کردیایاپھر سمندرکی بے رحم موجیں ان پرچڑھ دوڑیں اور وہ ہمیشہ کے لیے نشان عبرت بن گئیں۔ان کے برعکس جن اقوام نے وحی الہی کی حقانیت کو تسلیم کر لیااور انبیاء علیھم السلام کے پیچھے صف بستہ ہوچکے ان کے لیے اللہ تعالی نے آسمان سے سامان ہدایت کے طورپر شریعتیں نازل کیں۔یہ شریعتیں احکامات کامجموعہ ہوتی ہیں۔ان شریعتوں میں ناسخ و منسوخ جاری رہتاہے یعنی ایک زمانے کاحکم بعد کے زمانے میں کلی یاجزوی طورپر منسوخ کردیا جاتاہے اور اس کی جگہ دوسرا حکم نازل کر دیاجاتاہے۔احکامات کے ان مجموعوں میں عبادات کو مرکزی مقام حاصل ہوتاتھا۔عبادات میں جسمانی و مالی عبادات شامل ہوتی تھیں،جسمانی عبادات میں پوجاپاٹ جبکہ مالی عبادات میں اپنے مال و اسباب کواللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرناہوتاتھا۔مالی و بدنی،دونوں طرح کی عبادات کامقصد قرب الہی کاحصول ہوتاتھا۔روزہ کی عبادت ایک طرح کی بدنی و جسمانی مشقت سے عبارت تھی۔اس عبادت میں پیٹ کی خواہش اور پیٹ سے نیچے کی خواہش سے بچے رہنا مقصودتھا۔ان خواہشات سے بچ کر دنیاکوصرف نظر کرتے ہوئے اللہ تعالی کاقرب اورتقوی حاصل کرنا منتہائے مقصودتھا۔
یہودیوں کے ہان روزہ کو”تعنیت“کہاجاتاہے۔یہود کی موجودہ شریعت میں احکامات کا اطلاق لڑکے کی عمر 13سال اور لڑکی کی عمر 12سال سے ہوتا ہے۔روزہ مغرب سے مغرب تک پوراکیاجاتاہے۔روزہ رکھنے سے پہلے سحری بھی کی جاتی ہے اگرچہ ایک لقمہ ہی کھالیاجائے۔یوم سبت یعنی ہفتہ کے دن،کسی تہوارکے دن،چھٹی کے دن اور موسم بہارکے مہینے”نسان“میں بھی روزہ رکھناممنوع ہے۔صرف ”یوم غفران“ایک ایساتہوارہے جب تمام یہودی روزہ رکھتے ہیں۔ایسے مریض جو روزہ رکھنے کے قابل نہ ہوں انہیں روزہ رکھنامعاف ہوتاہے۔ان کے علاوہ ضعیف کو،حاملہ کواور رضاعت کے دوران بھی روزہ کی چھوٹ ہے۔یہودیت کے عصری تصورات میں اجتہاداََ ایسے لوگوں کو بھی روزے سے استثناء حاصل ہے جن کے ساتھ دیگرافرادمعاشرہ کا کوئی مفادوابستہ ہو،جیسے ربی(عالم دین)،مدرس یا پہرے پر موجودلوگ تاکہ یہ لوگ اپنی ذمہ داریاں بحسن وخوبی اداکرسکیں۔یہودیوں میں انفرادی روزے کی اصطلاح بھی مروج ہے یہ ایک طرح کا نفلی روزہ بھی سمجھاجاسکتاہے۔یہودی عصری شریعت کے مطابق انفرادی روزے کا سب سے چھپاناضروری ہوتاہے کیونکہ یہ صرف گناہوں کی معافی اوررضائے الہی کے لیے رکھاجاتاہے کیونکہ یہودی علماء کے نزدیک توبہ کے لیے صرف زبانی کلامی اقرارکافی نہیں اس کے لیے روزہ بھی ضروری ہے۔یہودیوں کے ہاں روزے کے دوران کھانا پینا،جنسی افعال،چمڑے کی جوتی پہننا،خوشبویاخوشبودار تیل لگانااورغسل کرنا ممنوعات میں داخل ہیں۔یہودی علماء جنہیں ”ربی“کہاجاتاہے روزے کے دوران عبادت گاہیں جنہیں ”صومعہ“کہاجاتاہے ان میں روزہ داروں کوصبح و شام کی دعائیں پڑھاتے ہیں جو کہ ان کی مقدس کتاب”توریت“میں سے لی گئی ہوتی ہیں۔
یہودی تقویم کے مطابق سال بھرمیں متعدد مواقع پر روزے رکھے جاتے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر کسی خاص بڑے واقعے کی یادمیں منایاجانے والے ایام ہیں۔اگرروزوں کی تواریخ یوم سبت(ہفتہ)کوواردہوجائیں تو ان کادن تبدیل کردیاجاتاہے:
3تیشیری: ”تیشیری“یہودی تقویمی سال کاساتواں مہینہ ہے اوراسی نسبت سے اس کوساتویں مہینے کاروزہ بھی کہتے ہیں۔اس دن چھٹی صدی قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ نے یہودیوں کی بستیاں تاراج کی تھیں اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کی تھی۔
10تشری: یہ یہودیوں کایوم غفران (یم کپور)ہے۔اس سے پہلے دس دن ”عشرہ توبہ“کے نام سے منائے جاتے ہیں۔اس عشرے میں اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی اور آئندہ گناہوں سے بچنے کاارادہ کیاجاتاہے۔”عشرہ توبہ“کے اختتام پر ”یوم غفران“کے نام سے اس مہینے کی دس تاریخ کو روزہ رکھاجاتاہے جوکم و بیش 25گھنٹوں پر محیط ہوتاہے اوریہ سارادن معبدمیں گزاراجاتاہے۔فی الوقت یہ واحد روزہ ہے جس کاحکم توریت میں بھی موجود ہے کہ جو یہ روزہ نہیں رکھے گا وہ اپنی قوم سے الگ ہو جائے گا۔
10تویط:”تویط“ یہودی تقویمی سال کادسواں مہینہ ہے،اس مہینے کی دس تاریخ،425قبل مسیح میں یروشلم کوتباہ کیاگیاتھا۔یہ چھوٹاروزہ ہے جو طلوع فجر سے دن کے اختتام تک رکھاجاتاہے۔
13عدار:”عدار“یہودی تقویمی سال کادوسرامہینہ ہے۔یہودیوں کاخیال ہے کہ اس تاریخ کو انبیاء روزہ رکھاکرتے تھے۔اس تاریخ کو یہودیوں نے ایک جنگ بھی لڑی تھی۔”کتاب آستر“میں لکھاہے کہ ایرانی ملکہ آستر(486ق م)جس کاشوہر ایرانی بادشاہ یہودیوں کاقتل عام کرناچاہتاتھا،اس ملکہ نے تین دن روزے رکھ کر بادشاہ سے قتل عام روکنے کاکہا جس کے باعث یہ قوم بہت بڑے سانحے سے بچ گئی۔یہ روزہ صبح صادق سے شروع ہو کر آغاز شب تک رہتاہے اور بہت زیادہ مذہبی طبقہ ہی اس روزے کااہتمام کرتاہے،عام عوام کے ہاں اس کا رواج نہیں ہے۔
17تموذ:”تموذ“یہودی تقویمی سال کا چوتھامہینہ ہے۔تموزکی اس تاریخ کو رومی بادشاہ نے یہودیوں کی مقدس عبادت گاہ تباہ کی تھی۔یہودی علماء کے نزدیک اس روزہ کا ذکر”کتاب زکریاہ“میں موجود ہے۔اس کتاب کی تالیف کازمانہ وہی ہے جو ہیکل سلیمانی کی تعمیر ثانی کی تکمیل کازمانہ 480قبل مسیح ہے۔لیکن اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ ”زکریاہ“وہی ہیں جن کو قرآن مجیدنے نبی کہاہے یا کوئی اور ان کاہم نام مولف ہے۔کیونکہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر ثانی بہت طویل عرصے تک جاری رہی اور اس کتاب میں اس تعمیر کے احوال بیان کیے گئے ہیں۔
9بایو:یہ تاریخ بنی اسرائیل کا سب سے مغموم دن گناجاتاہے۔اس دن کو ”تیشہ باو“کہاجاتاہے۔اس دن دوسری صدی عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں بیت المقدس اور یروشلم کی بہت بڑی تباہی ہوئی تھی۔”بایو“یہودیوں کے ایک مہینے کانام ہے جس کی نویں تاریخ کو یہ ”یوم سوگ“منایاجاتاہے۔روایات کے مطابق اس تاریخ کو کچھ اوربھی افسوسناک واقعات ہوئے جنہوں نے تاریخ یہودپراپنے یادگاراثرات چھوڑے۔چنانچہ اس تاریخ کو کل ملت یہود روزہ رکھتی ہے اور اپنے تاریخی سانحات کو آنے والی نسلوں کے سامنے تازہ کیاجاتاہے۔
بہرحال،یہودیوں کے ہاں تین طرح کے روزے ہیں،ماضی کے یادگار ایام کے روزے، ربیوں (علمائے یہود)کے بتائے ہوئے روزے اور انفرادی(نفلی)روزے۔ان تمام روزوں کی تواریخ مقرر ہیں،کچھ روزے کل یہودی ملت کے لیے ہیں اور کچھ صرف مخصوص طبقات یاافراد کے لیے۔ان کے علاوہ آسمانی آفات و بلیات سے بچنے کے لیے اوربارش نہ ہونے کی صورت میں بھی روزے رکھے جاتے ہیں اور بزرگوں کے یوم وفات کو بھی روزہ رکھ کر یاد کیے جانے اورشادی کے دن کاروزہ کے تصورات یہاں موجود ہیں۔اللہ تعالی کی نازل کی ہوئی شریعت کبھی بھی طبقاتی انتشارکاشکارنہیں رہی۔اللہ تعالی نے اپنے نبیوں کے ذریعے بلاتخصیص کل مخلوق کے لیے راہ ہدایت نازل کی ہے۔یہودیوں نے تحریفات کے ذریعے اللہ تعالی کی کتب واحکامات کو تبدیل کر ڈالا اور جس پورے مہینے کے دوران روزے رکھنے کا حکم تھااس کی جگہ بہانے بہانے سے کچھ واقعات اور کچھ افراد کو اللہ تعالی کے حکم سے بڑھ کر اہم گردانااوران کے نام کے روزے رکھنا شروع کر دیے اورکتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا۔اسی طرح اللہ تعالی نے تمام افراد قوم کے لیے تمام روزوں کاایک ہی نظام الاوقات دیاتھا۔لیکن یہودیوں نے تحریفات کے ذریعے خود سے کچھ روزوں کو زیادہ اہم قرار دے دیا اور ان کا دورانیہ بڑھادیا اور بقیہ کو کم اہم قراردے کر ان کے دورانیے کو کم کر دیااوران کی دیگرشرائط میں بھی نرمی کردی۔قرآن مجید نے کہا ہے کہ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ہٰذَا مِنْ عِنْدِاللّٰہَِ(۲:۹۷) ترجمہ:”پس ہلاکت و تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جواپنے ہاتھوں سے شرع کانوشتہ لکھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کے ہاں سے آیاہواہے“۔یہ قوم بنی اسرائیل مامور من اللہ تھی اور دنیاکی امامت و قیادت کے منصب پر فائز تھی لیکن ان کی تحریفات اور ناشکریوں سمیت متعدد بداعمالیوں کے باعث انہیں اس اعلی ترین منصب سے معزول کر کے تو اب امت مسلمہ کو یہ مقام و مرتبہ تفویض کردیاگیاہے اوریہودیوں کے لیے اسلام قبول کرکے اس امت مسلمہ میں داخلے کے دروازے اب بھی کھلے رکھے گئے ہیں۔