"یہاں پگڑی اُچھلتی ہے اسے مے خانہ کہتے ہیں"
کل بھی ایک "مداح" اپنے کسی اچھے لکھنے والے کی وال پر شکوہ کرتے پائے گئے کہ آپ کیوں سیاست میں گھس رہے ہیں، بس ادبی لکھا کیجیے۔ اس پر وہ "لکھاری" بھی معذرت خواہانہ کہے جا رہے تھے، آپ ٹھیک کہتے ہیں، آئندہ نہیں کرونگا ۔ ۔ ۔ آئندہ نہیں کرونگا۔
مجھے بھی (کہ فدوی بھی کچھ ادبی لکھنے کی جسارت کرتا ہے کبھو) لوگ یہی صلاح دیتے ہیں۔ یقیناً بہت سے لکھنے والوں کو دیتے ہونگے۔ مگر کیا یہ ٹھیک ہے؟ یہ واقعی ایک ادیب، ایک فنکار، ایک حساس شخص، ایک ایسے انسان کو جو شائد اپنے ہم نفسوں کے درمیان کچھ ایسا دیکھ اور دکھا سکتا ہے جو باقیوں کی نظر سے اوجھل رہ جاتا ہے۔ ایسے انسان کو اپنے اردگرد سے آنکھیں چرا کر، نظریں جھکا کر، کان لپیٹ کر اور منہ پر چھکو باندھ کر بس "لکھتے چلے جانا چائیے"۔ ادبی تحریریں؟
کبھی ایسا مشورہ دینے والوں نے اقبال ، فیض، فراز و جالب کو پڑھا ہے؟ ادب انسانوں کے لیے ہوتا ہے اور انسانیت کے لیے سب سے بڑی خدمت سیاست ہے۔ ادیب کسی سماج کا وہ طبیب اور جراح ہوتا ہے جس کے سامنے اس سماج کی اچھائی و گندگی عیاں ہوتی ہے۔ اپنی ادبی تحریروں میں بھی وہ اپنے سماج ہی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسے میں اگر ادیب اپنے اردگرد ہونے والے سیاسی حالات و واقعات پر رائے زنی کرے۔ اور اپنی بہترین نیت کے ساتھ وہ کہے جو اسکو ٹھیک سمجھ آتا ہے تو یہ اس انسانی معاشرے کی خدمت ہے یا ظلم؟
لکھنے والا حساس ہوتا ہے، یہ سب مانتے ہیں۔ نہ ہو تو اپنی تحریروں میں کیا لکھے؟ اب ایک حساس شخص اپنے ماحول ، سماج، عوام ، ملکی سیاست سے لا تعلق کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو ایسے ہے جیسے آپ کینسر وارڈ میں بیٹھ کر ادبی چٹکلوں پر کتاب لکھ ماریں۔ کینسر وارڈ میں کینسر وارڈ جیسا ادب ہی تخلیق ہو سکتا ہے۔ برائی کو سامنے لانا اور اچھائی کی تعریف کرنا ہی ادیب کا مذہب ہوتا ہے۔ میرے نزدیک اپنے معاشرے کے دکھوں سے کٹ کر ادبی تحریر لکھنے والا اس بے حس شرابی باپ کی طرح ہوتا ہے، جو گھر میں بلکتے بھوکے بچوں کے لیے روٹی کمانے کی بجائے ، اپنے بچوں کی چیخوں سے فرار کے لیے شراب میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔
رہ گئی پاکستانی سیاست کی گندگی۔ تو میرے بھائی یہی تو قربانی ہے جو لکھنے والا یا نہ لکھنے والا سیاست میں آ کر دیتا ہے۔ گالیاں بھی کھانا پڑتی ہیں، طعنے بھی۔ ہاں کچھ پڑھنے والے بھی کم ہو جائیں گے۔ ٹھپہ لگ گیا تو آپ کی کتاب بھی نہیں بکے گی۔ مگر کیا یہ سب ایک حساس لکھنے والے کو حق کہنے سے روک دیتا ہے؟
میرے نزدیک ایک حساس اور اپنے ضمیر کو جوابدہ شخص (چاہے وہ لکھاری ہو یا نہ ہو) اپنے معاشرے میں جاری ظلم پر آواز اٹھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر طعنے اور دشنام اسکو سچ کہنے سے روک دیں تو وہ کبھی اچھا انسان بھی نہیں ہو سکتا اچھا لکھاری تو دور کی بات ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“