منٹو کا نام میں نے پہلی بار1944ء میں اس وقت سنا جب میں ملازمت کی تلاش میں پہلی مرتبہ دہلی آیا تھا۔ جنگ کی وجہ سے ہر گریجوایٹ وپوسٹ گریجوایٹ کو بھرتی کیا جا رہا تھا۔میں بھی آل انڈیا ریڈیو میں جنگ کی خبریں نشر کرنے والے شعبے میں دو سو روپے ماہوار پر ملازم ہو گیا۔
ہم چھ لوگ ایک بڑے سے کمرے میں میز کے اردگرد بیٹھ کر دن بھر میں آدھ گھنٹہ خبروں کے تراجم کرتے اور دس منٹ نشر کرنے میں صرف کرتے باقی سارا وقت گپیں مارتے۔ مگر آرمی کے حکم کے مطابق ہم باہر نہیں نکل سکتے تھے۔
اکثر ہم دروازہ بند کر کے ایک دوسرے کو لطیفے سناتے۔ ہری سنگھ چڈا ماں بہن کی گالیاں نکالتا، سیاسی و ادبی دلچسپ واقعات سناتا رنڈیوں اور فوجی لڑکیوں کی ننگی کہانیاں بیان کرتا۔ کبھی کبھی میز کے اوپر چڑھ کر ناچنے لگتا اور ہم سب بیک وقت ردھم سے تالیاں بجاتے مگر اس ساری خرمستی کا رنگ ادبی ہوتا۔ اردو افسانے کا ذکر ہوتا تو چڈا(جس کے منہ سے گالی بھی سجتی تھی) کہتا ’’آپ کے باپ منٹو نے تمام ادیبوں کی ماں کو۔۔۔!
سردی کے موسم میں باہر رم جھم پھوار پڑ رہی تھی۔ دلوں میں عجیب ویرانی اور اداسی چھائی ہوئی تھی۔ چڈا چھٹی لے کر شراب پینے چلا گیا۔ ہم بجھے بجھے، اکلاپے کا شکار تھے۔ کسی کام میں جی نہیں لگ رہا تھا۔ جاتے ہوئے چڈا ’’ادب لطیف‘‘ کا افسانہ نمبر چھوڑ گیا تھا۔ میں ورق الٹتا گیا۔ اس میں کرشن چندر کی مشہور کہانی ’’ان داتا‘‘ تھی جس میں بنگال کے مہاکال کا بیان تھا۔ اس لمبی کہانی کے میں نے دس بارہ صفحے پڑھ کر چھوڑ دیا۔ دوسرے ادیبوں کی کہانیوں پر نظر دوڑائی مگر دل میں ادبی شعلہ نہ بھڑکا۔
اچانک میری نظر سعادت حسن منٹو کے نام پہ پڑی۔ بہت عجیب نام تھا۔ منٹو۔۔۔جیسے لارڈ منٹو یا نیٹو۔۔۔ یا ومٹو۔۔۔ بہت نقلی اور مزاحیہ نام۔۔۔ پھر کہانی کا نام پڑھا۔۔۔’’بو‘‘
کہانی پڑھنے لگا تو ایک ہی رو میں ساری کہانی پڑھ گیا۔ ہر فقرہ حسین کہانی کے کرداروں کے روحانی اور جسمانی رشتے انتہائی واضح اور جادو بھرے تھے۔ مجھے اب تک اس کہانی کے فقرے ’’تشبیہات‘‘سانسوں کا بیان یاد ہے۔ اس کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ مجھے معلوم ہی نہ ہوسکا کہ پانچ بج چکے ہیں اور میرے ساتھی گھر جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ کہانی میں جسمانی شگفتگی تھی، ایک چمک تھی۔ انسانی تجربے اور لذت تھی۔ چھوٹے چھوٹے فقروں میں سادگی تھی گویا کسی منجھے ہوئے فنکار میں ہوتی ہے۔
اس کہانی کا ہیرو رندھیر ہے جس نے ایک گھاٹن لڑکی کے ساتھ رات گزاری۔رندھیر اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس بیٹھا بور ہو رہا تھا۔ تو اس کی(ساتھ والے رسیوں کے کارخانے میں کام کرنے والی) لڑکی پر نظر پڑی جو بارش سے بچنے کے لئے املی کے پیڑ تلے کھڑی تھی۔ رندھیر نے گلا صاف کرنے کے بہانے کھنکار کر اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی اور ہاتھ کے اشارے سے اسے اوپر بلا لیا۔ دونوں نے کوئی خاص بات نہ کی، جسم نے انگڑائی لی رونگٹے ان کی زبان بن گئے تھے۔
رندھیر نے اس کے بارش میں بھیگے ہوئے کپڑے دیکھ کر اس کو اپنی سفید دھوتی دے دی تھی۔ لڑکی نے بھیگا ہوا تہہ بند کھول کر ایک طرف رکھ دیا۔ اور دھوتی لپیٹ لی۔ اس کے بعد وہ چولی کھولنے کی کوشش کرنے لگی مگر بارش میں بھیگنے سے چولی کی تنابوں میں گرہ آ کر مزید مضبوط ہو گئی تھی اس نے صرف اتنا کہا ’’کھلتی نہیں‘‘ رندھیر نے تھوڑی کوشش کے بعد مضبوط ہاتھوں کے جھٹکے سے چولی کھول دی۔ اس کے ہاتھوں میں گھاٹن لڑکی کی سرمئی چھاتیاں آ گئیں۔منٹو اس گھاٹن لڑکی کے جسم کی سانولی چمک اور چھاتیوں کو اس طرح بیان کرتا ہے جیسے کسی کمہار نے کچی مٹی کے دو پیالے چک سے اتارے ہوں۔ جیسے تالاب کے گدلے پانی میں دو دئیے جل اٹھے ہوں۔
رندھیر گھاٹن کے جسم کی بو کو ساری رات پیتا رہا اور یہ بو اس کے جسم سے ہوتی ہوئی دماغ کے کونے کونے میں سرایت کر گئی تھی۔ پھر جب وہ شادی کرتا ہے اور سہاگ رات مناتے وقت اس کو اپنی دلہن کا حسن پھیکا اور بے رس لگتا ہے۔ جیسے پھٹے ہوئے دودھ کی پھٹیاں، اس کے سرخ ریشمی ازاربند نے اس کے نرم سفید جسم پر نشان ڈال دئیے تھے۔ وہ گھاٹن کے ساتھ گزاری رات اور اس کے جسم کی صحت مند بو کو نہ بھول سکا۔ اس سہانی بو کے سامنے دودھ گھی ملے آٹے کی طرح نرم ملائم اور حنا کے عطر کی گھلی ہوئی خوشبو اور بیوی سے رسمی پیار محبت بھی پھیکا پڑ گیا۔
کہانی پڑھنے کے بعد میں نے پہلی مرتبہ جدید اردو ادب کے بارے میں ڈھنگ سے سوچا۔ اس سے پہلے میں نے کرشن چندر کی کہانیاں پڑھ رکھی تھیں۔ جن کا پس منظر کشمیر تھا۔ جن میں پیار اور غریبی کی تڑپ تھی۔ دوسرے ادیبوں کے افسانے پڑھنے کا بھی موقع ملا تھا مگر سب کو پڑھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ ایسی کہانی تو میں بھی لکھ سکتا ہوں۔
یہ تو محض کسی کی کرم نوازی تھی وگرنہ شاید میں کرشن چندر یاراجندرسنگھ بیدی جیسی کہانی کبھی نہ لکھ سکتا۔ مگر ان کو پڑھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوتا کہ میری تخلیقی صلاحیت کی پرواز ان سے بہت بلند ہے۔ مگر جب منٹو کو پڑھا تو محسوس ہوا کہ میں ایسی کہانی نہیں لکھ سکتا۔ کاش! میں ایسی انوکھی اور بلند پایہ کہانی لکھ سکتا۔ نہیں میں اتنی مہان کہانی کبھی نہیں لکھ سکتا۔
’’منٹو میرے لئے کہانی کا مطمع نظر(آدرش) بن گیا۔‘‘ ایک دن اچانک لنچ کے بعد دفتر کا چپڑاسی میری میز پر ایک لفافہ رکھ گیا۔ معلوم نہیں کیوں، مجھے اس لفافے میں کوئی خطرہ نظر آیا، کوئی سنگین جرم، کوئی پریشان کر دینے والا پیغام۔ لفافہ کھولنے سے پہلے مجھے اس وقت کی بددلی آج تک یاد ہے۔ لفافہ کھولا۔ مجھے ملازمت سے برخواست کر دیا گیا تھا۔ میں لفافہ لے کر منیجر بخشی کے پاس گیا اس نے کہا ’’ہم کوئی وجہ بتانے کے لئے تیار نہیں۔ یہ رہی آپ کی ایک مہینے کی ایڈوانس تنخواہ‘‘
میری معطلی کا یہ پروانہ اس لئے آیا تھا کہ حکومت نے خفیہ پولیس کے ذریعے میری پچھلی سرگرمیوں کی چھان بین کر لی تھی۔ ان کو پتہ چلا کہ1942ء کی آزادی کی تحریک میں حصہ لینے پر مجھے گرفتار کیا گیا تھا۔ معطلی کے لئے یہ جرم کافی تھا۔
میں نے کمرے میں جا کر اپنے ساتھیوں کو یہ خبر سنائی۔ ہمدردی کے کارن ایک ہندی مصنف رونے لگ گیا۔ میں نے نئی تنخواہ میں سے ایک نیا نوٹ نکالا اور سب کے لئے چائے اور پیسٹری کا آرڈر دیا۔
چڈا نے اس چھوٹی سی الوداعی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے اپنے خاص انداز میں کہا ’’اوئے الو کے پٹھو! تم سب یہاں سرکارکی غلامی کرتے رہو گے۔ یہ پنچھی آزاد ہو گیا۔‘‘
جاتے وقت اس نے مجھے منٹو کی کہانیوں کی کتاب تحفے میں دی۔ وہ خود منٹو کے ساتھ دلی ریڈیو اسٹیشن میں کام کر چکا تھا۔ اور اکثر منٹو کی باتیں بتاتا تھا۔ وہ کہتا ’’منٹو سب کا باپ تھا۔ یہاں دو سال ملازمت کر کے وہ بمبئی چلا گیا اور اپنے پیچھے ایک سو ڈرامے اور فیچر چھوڑ گیا۔ یہ اوپندر ناتھ اشک ساری عمر اس کے ساتھ دوستی کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر اس نے نزدیک نہ آنے دیا۔‘‘
منٹو کی ادبی دوستی بڑی وسیع اور بہت شاہانہ تھی۔ جس میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی اور احمد ندیم قاسمی شامل تھے۔ مگر اوپندر ناتھ اشک کبھی اس حلقے میں شامل نہ ہوسکا۔ وہ باہر ہی رہا ہے ریڈیو اسٹیشن پر ایک جگہ کام کرتے ہوئے وہ منٹو کی بلند پایہ ادبی قدروں کو نہ چھوسکا۔
منٹو ہندوستانی ادب کا اونچا مینارہ تھا۔۔۔مجھے اس وقت بھی اس بات کا احساس تھا کہ منٹو ایک انوکھا، ادبی معجزہ ہے۔ میں جانتا تھا کہ کچھ عرصہ بعد لوگ دریافت کریں گے کہ منٹو کسی کیفے ٹیریا میں بیٹھا کرتا تھا، کہاں رہتا تھا، کس قسم کا پین استعمال کرتا تھا، ریڈیو اسٹیشن کے کس کمرے میں بیٹھ کر لکھا کرتا تھا۔انہی دنوں میں منٹو کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں سے ملا اور اس کے متعلق چھوٹی چھوٹی معلومات اکٹھی کیں۔ ریڈیو اسٹیشن کی دوسری منزل پر صنوبر خاں کا ریسٹورنٹ تھا۔ جہاں وہ چائے پینے جاتا۔ منٹو تھیلے میں اردو کا چھوٹا ساٹائپ رائٹر لے کر ریڈیو اسٹیشن آتا اور سیدھا ٹائپ رائٹر پر ہی ڈرامہ لکھ دیتا۔ اس کو اپنے فن پر بڑا ناز تھا کئی مرتبہ شرط لگا کر ڈرامہ لکھتا۔ ایک دفعہ اس نے دوستوں کے سامنے اعلان کیا کہ وہ کوئی بھی نام یا مضمون تجویز کریں وہ اس پر ڈرامہ لکھ دے گا۔ شرط دو درجن بےئر کی بوتلیں تھیں۔
ایک دوست نے کہا ’’کبوتری۔ لکھ اس پر ڈرامہ‘‘ منٹو نے ٹائپ رائٹر پر کاغذ چڑھایا اور ’’کبوتری‘‘ ڈرامہ لکھ دیا جو بے حد مقبول ہوا۔ ایک دفعہ وہ دوستوں کے ساتھ ڈرامے پر شرط لگا رہا تھا کہ کسی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا ’’کیا میں اندر آسکتا ہوں‘‘ دوسرے آدمی نے کہا ’’منٹو! مزہ تو تب ہے کہ تو اس عنوان پر ڈرامہ لکھے۔بےئر کی بوتلوں کی شرط لگ گئی۔ منٹو نے ’’کیا میں اندر آسکتا ہوں‘‘ پر ڈرامہ لکھ دیا۔
ایک مرتبہ کسی مصنف نے ریڈیو پر اپنا پروگرام منسوخ کر دیا۔ چاروں طرف ہلچل مچ گئی کہ اس پروگرام کو پورا کیسے کیا جائے۔ منٹو سے کہا گیا کہ وہ کوئی فیچر یا ڈرامہ لکھ دے وہ غصے سے بولا ’’میں نہیں لکھ سکتا۔ مشین کو بھی وقت چاہئے‘‘ اس کی منت سماجت کی گئی۔ ایک دوست نے ٹائپ رائٹر کھول کر کاغذ چڑھایا اور منٹو سے کہا ’’یار، لکھ دونا! ہم باہر بیٹھے انتظار کر رہے ہیں۔ منٹو تھوڑی دیر ٹائپ رائٹر کے ساتھ بیٹھا رہا اور کاغذوں کو گھورتا رہا۔ پھر اس نے ’’انتظار‘‘ تخلیق کر دیا۔
یہ ڈرامہ اس کے بہترین ڈراموں میں سے ایک ہے۔ اس میں اس نے تکنیکی اور نفسیاتی نقطہ نظر کا تجربہ کیا۔ ایک نوجوان اپنی محبوبہ کو خط لکھ رہا ہے کہ وہ بیٹھا اس کا انتظار کر رہا ہے۔ یہ نوجوان دو نفسیاتی پہلوؤں سے بولتا ہے ایک شعور دوسرا لاشعور، دونوں میں سپنس بھرے مکالمے کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں دونوں کی آپ بیتیاں ہیں، لاشعوری کردار والا نوجوان شعور والے نوجوان کو روکتا ٹوکتا بحث و مباحثہ کرتے ہوئے اس سے باتیں کرتا ہے اور اس کے دل میں پڑی ہوئی گرہیں کھولتا ہے۔
اس قسم کا ڈرامائی تاثر اور کردار کی زندگی پر گہری نظر منٹو کی ادبی و فنی خوبی تھی۔
ریڈیو اسٹیشن کے ایک ڈائریکٹر ایڈوانی نے منٹو کے کسی ڈرامے کے فقرے پر اعتراض کیا اور اسے تبدیل کرنے کے لئے کہا۔ (انہی دنوں اے، ایس بخاری ڈائریکٹر جنرل تھے اور ایڈوانی کا کافی اثر ورسوخ تھا اور بہت دلیر ڈائریکٹر بھی) منٹو نے بھری محفل میں کہا ’’ایڈوانی صاحب کو اردو ڈرامہ لکھنے کی سمجھ کہاں، اردو کا ڈرامہ پڑھنا بھی نہیں آتا الٹا میرے ڈرامے میں سے غلطیاں نکالتے رہتے ہیں۔‘‘
ایڈوانی غصے سے لال پیلا ہو گیا انہوں نے منٹو کے خلاف تادیبی کارروائی کرنی چاہی۔ بات بخاری صاحب تک پہنچی منٹو نے بخاری صاحب سے کہا۔ میں نے جو کہا وہ درست ہے جس کا نام ہی ایڈوانی ہے اس کو اردو کے متعلق کیا معلوم۔
میں دلی سے چلا گیا کچھ ماہ بے کار رہا۔1944ء میں میرا پنجابی کا پورا(ناٹک) ڈرامہ ’’لوہاکٹ‘‘ شائع ہوا تو لاہور اسٹیشن نے مجھے بطور آرٹسٹ ملازمت دے دی۔ یہاں راجندرسنگھ بیدی کام کرتا تھا۔ دلکش آواز کے جادو جگانے والی آپا شیما(موہنی داس) تھی۔ امتیاز علی تاج اور رفیع احمد پیر ڈرامہ پروڈیوس کرنے آتے۔ ملکہ پکھراج ریڈیو میں بیٹھی پان چھالیہ چباتی رہتی۔ بہترین تخلیقی ماحول تھا۔ ان محفلوں میں منٹو کا اکثر ذکر ہوتا۔
لاہور کے اردو رسالے’’ادب لطیف‘‘ کے ایڈیٹر و پبلشر نذیر احمد تھے، نذیر احمد پنجاب کے کسی گاؤں کا ارائیں تھا۔ جہاں اسے نذیرا کہتے تھے۔ چہارم پاس۔ درمیانہ قد تنومند، چمکتے ہوئے دانت اور وہ خالص پنجابی بولتا تھا۔ اس نے اپنے چاچا برکت علی سے مل کر ’’مکتبہ اردو‘‘ کی بنیاد رکھی، جو سارے ہندوستان کا سب سے بڑا اور مقبول پبلشنگ ہاؤس بن گیا۔ وہ نذیر اسے نذیر احمد اور پھر چوہدری نذیر احمد بن گیا۔
نذیر احمد خود ہر کہانی پڑھتا اور صحیح طرح جانچتا۔ مگر منٹو واحد ادیب تھا۔ جس کی کہانی کی خاطر وہ اکثر اوقات اپنا پرچہ شائع کرنے میں تاخیر کرتا وہ منٹو کو خط لکھتا۔ ٹیلیگرام بھیجتا اور جب منٹو کی کہانی بمبئی سے آتی تو مارے خوشی کے قہقہے لگاتا اور کہتا ’’اب میرا پرچہ مکمل ہو گیا ہے۔‘‘ جب منٹو کی کہانی ’’بو‘‘ شائع ہونے کے بعد اس پر فحاشی کا مقدمہ چلا تو اس کو تاریخ بھگتنے لاہور آنا پڑا۔
ضلع کچہری میں بہت سے مصنف و ادیب اس کے حق میں گواہی دینے گئے میں نے پہلی مرتبہ اس کو وہاں دیکھا۔
پتلا لمبا جسم، بیدجیسی لچک، چوڑی پیشانی، کشمیری تراشا ہوا ناک، اور آنکھوں پر چشمہ، اس نے سفید قمیض، شیروانی، لٹھے کی شلوار اور زری کا جوتا پہن رکھا تھا۔ سر غرور سے اونچا اس نے بڑی لاپرواہی سے ہمیں دیکھا۔ وہ عصمت چغتائی کے پاس کھڑا تھا۔ ہم سب عدالت کے اردلی کی آواز سننے کے انتظار میں تھے۔ پروفیسر کنہیا لال کپور نے ہم سب کا تعارف کرایا۔ مگر منٹو کے منہ سے شکریہ کا کوئی روایتی لفظ بھی ادا نہ ہوا۔ نہ ہی کسی قسم کی خوشی کا اظہار۔ اتنے میں چوہدری نذیر احمد جلدی سے آیا ’’چلو آواز لگ گئی ہے!‘‘
مصنفین کا یہ گروہ جج کے کمرے میں داخل ہوا اور ’’بو‘‘ کے فنی پہلوؤں اور خوبیوں کو اجاگر کرتے ہوئے بیان دئیے اور کہا کہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں بلکہ یہ ادبی شاہکار ہے۔
پنجابی ادیبوں میں سب سے بڑے سردار گربخش سنگھ ’’پریت لڑی‘‘ والے تھے۔ جنہوں نے خود پیار کی کہانیاں تحریر کیں اور سماجی بغاوت کا علم بلند کیا تھا۔ جب انہیں منٹو کی اس کہانی کے حق میں شہادت دینے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ کہانی فحش ہے۔ جب عصمت اور منٹو کو معلوم ہوا تو وہ بہت حیران ہوئے۔ منٹو نے کہا ’’حیران کن بات ہے کہ پنجابی میں ایسے ادیب بھی موجود ہیں۔ اس زبان کے ادب کا اللہ ہی مالک ہے۔‘‘
شہادتیں قلمبند ہوئیں۔ جج نے اگلی پیشی کی تاریخ مقرر کر دی ضلع کچہری کے ماحول سے منٹو کی طبیعت اچاٹ ہو گئی۔ جگہ جگہ ٹوٹے ہوئے بینچ لوہے کی کرسیاں، گرد و غبار، وکلا اور منشیوں کی قانونی سودے بازی، عجب گھبراہٹ و پریشانی، تمام مصنفین ملزم نظر آرہے تھے۔
منٹو نے کہا ’’نذیر، میں گھر جاؤں گا۔ یکہ منگوا دو۔‘‘
یکہ آیا تو منٹو اس پر سوار ہو گیا۔
’’کسی اور نے جانا ہے؟ صرف ایک‘‘
میں نزدیک کھڑا تھا۔ فوراً آگے بڑھا اور بیٹھ گیا۔ منٹو ٹانگیں پھیلائے پچھلی نشست پر براجمان ہوا۔ راستے میں چند ایک باتیں ہوئیں۔وہ گویا ہوئے ’’یہ لوگ خوامخواہ مجھے ہیرو بنا رہے ہیں۔ مجھے جیل سے ڈر لگتا ہے۔ ہر بار بمبئی سے یہاں آنا بہت مشکل ہے۔ بہت مہنگا۔
یہی جرمانہ کافی ہے۔ فلم کی کہانی کا سکرین پلے تیار کر رہا تھا کہ چوہدری کا ٹیلیگرام گیا۔۔۔
تم کیا کرتے ہو۔۔۔؟‘‘ میں نے اپنے متعلق تھوڑا سا بتایا۔
اس کا مجھ پر خاصا رعب تھا۔ نیلا گنبد پہنچ کر میں اتر گیا۔ وہ کہنے لگا ’’میں سیدھا گھر جاؤں گا۔۔۔ صفیہ بھی آئی ہوئی ہے۔ میں نے جا کر چوہدری کے لئے افسانہ ختم کرنا ہے‘‘ پھر اک دم بولا شام کو تم میری طرف آ جانا۔ اس وقت تک میں افسانہ ختم کر لوں گا۔‘‘ مجھے چھوڑ کر وہ چلے گئے۔ اس کے جانے کے بعد میں نے تمام واقعے کا جائزہ لیا اس کی آواز باریک اور گرم تھی جس میں اس کی شخصیت کی تمام شدت شامل تھی۔ یہ آواز لیڈروں کی سی تھی نہ درویشوں جیسی، اس میں بے تابی اور دعوت تھی۔ وہ میرے ساتھ پنجابی میں بات چیت کر رہا تھا۔
شام کو میں منٹو کو ملنے گیا۔ و ہ فیروز شاہ کے علاقے میں کسی رشتہ دار کے ہاں قیام پذیر تھا۔ ملازم نے آ کر کہا کہ میں ڈرائنگ روم میں بیٹھوں۔ کیونکہ منٹو صاحب کہانی لکھنے میں مصروف ہیں۔ یہ وہی کہانی تھی جو ’’ادب لطیف‘‘ میں ’’راج بھیا‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ پھر ’’میرا نام رادھا ہے‘‘ کے نام سے۔ اس میں اس نے پرتھوی راج کپور کے خالص پن کا مذاق اڑایا تھا۔ دس منٹ کے بعد منٹو ساتھ والے کمرے سے نکلا۔ پر تپاک لہجے میں پوچھا، چائے پیو گے۔‘‘
پھر اس نے آواز دی ’’صفیہ! کیا کر رہی ہوَ ادھر آؤ‘‘ منٹو نے تعارف کرایا۔ اتنے میں کچھ اور ادیب آ گئے۔ چوہدری نذیر بھی آ گیا۔ کسی کے گھر محفل تھی وہ منٹو کو لینے آیا تھا۔ منٹو نے مجھ سے کہا ’’اچھا پھر کل ملاقات ہو گی۔ مکتبہ اردو میں ہوں گا۔‘‘
منٹو کے پاس قلم نہیں تیز نشتر تھا جس نے سماج کی رگوں سے گندا خون نکالا تھا۔ وہ حکیم نہیں سرجن تھا۔ اس کی تیز نگاہ ڈبل لینز کا کام کرتی تھی۔ اس کے بیان میں چاشنی تھی۔ سب جانتے تھے کہ وہ ان سے کافی بہتر لکھتا ہے۔ تمام اس کے فن کا لوہا مانتے تھے۔
میں منٹو کو پھر ملا۔ وہ مکتبہ اردو میں بیٹھا اپنی کتاب کے اشتہار کی عبارت دیکھ رہا تھا۔ اس میں لکھا تھا منٹو اس دور کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہے۔ چیخوف کے برابر، جذبوں کو اپیل کرنے والا، اور سحرانگیز، اس کے افسانے فن کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔
منٹو بولا، اوئے چوہدری یہ کیا بکواس لکھی ہے‘‘ اس نے سارے تعریفی الفاظ کاٹ دئیے اور کتاب کا اشتہار خود بنایا۔ جس میں لکھا تھا۔ منٹو بکواس لکھتا ہے منٹو کو لوگ فحش کہتے ہیں مگر منٹو کو ایک بار پڑھنا شروع کر دیں تو کہانی ختم کئے بغیر چھوڑ نہیں سکتے۔
اشتہار میں’’بکواس‘‘ اور ’’فحش‘‘ کے الفاظ موٹے حروف میں تھے وہ باتیں جو اس کے حریف چاہتے تھے اس نے خود ہی تحریر کر دیں تاکہ لوگوں کو جھٹکا لگے۔
اس کو شیریں الفاظ، تحریر اور رسمی فقروں سے بلا کی چڑ تھی۔ ایک دفعہ کسی نے اس کی کسی بڑی ہستی سے ملاقات کرائی۔ اس آدمی نے کہا منٹو صاحب! آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی، منٹو نے جواب دیا ’’آپ سے مل کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی‘‘ یہ انداز، یہ کڑوا سچ، یہ چونکا دینے والا جادو اس کے مزاج کا حصہ تھا۔
چوہدری نذیر نے بتایا کہ منٹو کیلاش ہوٹل میں ہے۔ وہ کہہ گیا ہے کہ میں وہاں چلا جاؤں۔ کیلاش ہوٹل انار کلی بازار میں تھا۔ تین منٹ کا سفر تھا میں ہوٹل کی سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل پر پہنچا۔ منٹو تین لوگوں کے ساتھ بیٹھا شراب پی رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی بولا’’ بس ابھی چلتے ہیں‘‘ تم پؤ گئے۔ میں نے کہا ’’نہیں‘‘
ایک ادیب بولا منٹو صاحب آپ کی کہانیاں کمال ہیں۔’’ہتک‘‘ اور کالی شلوار‘‘ تو شاہکار ہیں۔ کوئی بھی اتنی اعلیٰ کہانی۔۔۔‘‘
منٹو بولا’’بکواس بند کرو۔ تم نے شراب پینی تھی۔ پی لی اب دفع ہو جاؤ۔‘‘
میں سہم گیا۔ وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ منٹو بولا میں آپ کا انتظار کر رہا تھا۔ کہ یہ تینوں حرام زادے اپنی ٹیبل سے اٹھ کر ادھر آ گئے۔ دو دو پیگ پی کر بہکنے لگ گئے میری تعریف کر کے تیسرا پیگ پینا چاہتے تھے۔ چلو چلیں۔‘‘
میں ساتھ ہو گیا۔ راستے میں پوچھا ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘
’’عبدالباری کے پاس‘‘
مجھے یاد نہیں کہ ہم عبدالباری کے گھر گئے یا کسی اور جگہ ملاقات ہوئی۔ میں عبدالباری کو کئی ادبی سیاسی محفلوں میں دیکھ چکا تھا۔ وہ سانولے رنگ کا صحافی تھا اور دنیا بھر کے حوالے دے کر لیکچر دیتا۔ اس کے خشک لیکچر سن کر مجھے کبھی اس سے ملنے کی خواہش نہیں ہوئی۔ مگر منٹو اس کو ڈھونڈتا پھرتا تھا اس نے مجھے بتایا کہ عبدالباری اس کا ادبی استاد ہے۔
ہم تینوں ایک اعلیٰ پشاوری یکے میں بیٹھے۔ میں اور عبدالباری اگلی سیٹ پر کوچوان کے ساتھ اور منٹو اپنی عادت کے مطابق زری کا جوتا پہنے پچھلی نشست پر ٹانگیں پسار کے بیٹھ گیا۔ یکہ مال روڈ پر دوڑنے لگا۔جنرل پوسٹ آفس سے گذر کر یکہ رک گیا۔باری نیچے اترا۔ منٹو نے جیب سے پرس نکالا اور اس میں سے ایک سبز نوٹ نکال کر اسے دیا باری بھولا ناتھ کی دکان پر گیا ہم دونوں یکے پر ہی بیٹھے رہے۔ دس منٹ گذر گئے منٹو نے بیتابی سے کہا ’’یہ جاہل میرا وقت ضائع کر رہا ہے۔ اتنی دیر؟ کیا ہیرے خرید رہا ہے؟بکواس‘‘!
اتنے میں باری نظر آیا وہ بھاری قدموں سے چلتا ہوا یکے پر آ کر بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں جانی واکر کی بوتل تھی۔ منٹو نے پوچھا ’’ٹھیک ہے؟‘‘ باری بولا ’’ہاں‘‘
یکہ پھر سرپٹ دوڑنے لگا۔ ہم عجائب گھر، گورنمنٹ کالج کے سامنے سے گذر کر راوی روڈ پر جا رہے تھے۔ کیا یہ لوگ بوٹنگ کے لئے جا رہے تھے؟ شام ڈھل چکی تھی لائٹیں جل چکی تھیں۔ یہ کہاں جا رہے تھے؟ مجھے بالکل معلوم نہ تھا کہ ان کی منزل ہیرا منڈی ہے جہاں طوائفوں کا بازار تھا۔ شاہی مسجد کے قریب بازار میں یکہ رکا۔ باری نے یکے والے کو پیسے دئیے تو ہم تینوں بازار حسن میں داخل ہو گئے۔ میں اس سے پہلے کبھی ادھر نہ آیا تھا۔
اس کی وجہ کوئی نیک چلنی کی بندش نہ تھی مجھے ویسے ہی طوائفوں اور دلوں کے پیشے سے ڈر لگتا تھا۔ بچپن سے میرے ذہن میں یہ نقش تھا کہ یہ لوگ جھگڑالو اور پیسے کے پیر ہوتے ہیں۔ یہاں چھریاں چلتی ہیں۔ اس ڈر کے پیچھے ایک انجانی دنیا میں پہلا قدم رکھنے کی سنسنی اور کپکپی چھپی ہوئی تھی۔ مگر اس وقت منٹو میرے ساتھ تھا۔ اس لئے مجھے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ جیسے کوئی مگرمچھ کی پیٹھ پر بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہا ہو۔
بازار میں چمک دمک اور گہماگہمی تھی۔ سیخ کباب، پان، پھولوں کے ہار اور تماش بینوں کی رونق۔ اس گہماگہمی میں عجیب سرسراہٹ، خاموش اشارے اور گھورنے والی نظریں تھیں۔ انتہائی خاموشی سے سودے بازی ہو رہی تھی۔
میں نے دیکھا کہ باری ایک طرف کھڑا کسی پٹھان سے سرگوشیاں کر رہا تھا۔ پٹھان کی مہندی رنگی رخساروں تک پھولی ہوئی موچھیں مجھے نظر آئیں۔ پھر دونوں ہمارے پاس آئے اور باری نے طوائف(بیسوہ) کا ریٹ مقرر کرنے کی بات کی۔
منٹو غصہ سے بولا۔ تم خود یہ معاملے طے کرو۔ بے وقوف! جاہل!
منٹو کو اس قسم کی سودے بازی بری لگتی تھی۔ اتنے میں باری اور پٹھان آ گئے۔ پٹھان بولا ’’چلو اس کوٹھے پر بہت اچھا مال ہے‘‘
ہم چاروں سیڑھیاں چڑھ گئے۔ بالکونی سے گزرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے تو ایک پٹھا بیسوہ بیٹھی تھی۔ اس کی عمر35کے لگ بھگ تھی۔ چہرے کے نقش موٹے۔ اس کے بالوں میں تیل لگا ہوا تھا اور ان میں چنبیلی کی کلیاں۔ ریشم کی جھلمل کرتی قمیض، سلک کی شلوار اور منہ میں پان کا بیڑہ تھا۔
’’آؤ بیٹھو‘‘
پٹھان بھی ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ اس کی بڑی بڑی مونچھوں والا سرخ چہرہ نرم پڑ گیا تھا۔ وہ بہت حلیم اور تابع دار تھا۔ وہ بازار حسن کے اس اڈے کا چیف دلا تھا۔
منٹو نے ایک نظر سے اس طوائف کے گدگدے جسم کو دیکھا۔ ایک ملازم آیا تو اس نے تین گلاس رکھ دئیے۔ منٹو بولا سوڈا منگواؤ اور کھانے کے لئے تکے کباب۔ تم کیا پیو گے؟
میں ان دنوں گوشت نہیں کھاتا تھا۔ ایک دو دفعہ کھانے کی کوشش کی مگر چبایا تو ربڑ کی طرح محسوس ہوتا۔ میں نے کہا میں آملیٹ کھاؤں گا۔
منٹو نے جیب سے دس دس روپے کے اکڑے ہوئے نوٹ نکالے۔ دس منٹ بعد وہ اوراس کا ملازم کباب اور آملیٹ کی پلیٹیں لے کر آ گئے۔ ساتھ ہی سوڈے کی بوتلیں اور برف۔ ایک پلیٹ میں لیموں اور پیاز۔ اس نے باقی پیسے واپس کئے مگر منٹو نے کہا رکھ لو ان کو۔‘‘
باری نے بوتل کھولی اور تین گلاسوں میں شراب ڈال کر سوڈا اور برف ڈالی۔
میں نے کہا ’’میں نہیں پیتا‘‘
باری کے سانولے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ آئی بھئی شراب تو نیکی کی چیز ہے۔ پی لو، منٹو بولا۔’’یہ نہیں پیتا‘‘ پھر وہ بیسوہ کی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا تم پی لو، میری جان ‘‘ رنڈی نے ترچھی نظر سے منٹو کی طرف دیکھا اور موٹی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے گلاس اٹھا کر پینے لگ گئی۔
منٹو اور باری نے فوراً ہی اپنے گلاس خالی کر دئیے پھر ڈبل پیگ تیار کئے۔ سپ لے کر منٹو نے کہا۔’’اب مال دکھاؤ‘‘ بیسوہ نے پٹھان کو اشارہ سے کچھ کہا۔ پٹھان تھوڑی دیر کے بعد بنی سنوری طوائف اندر لے آیا۔ وہ سامنے بیٹھ گئی منٹو نے اس کو غور سے دیکھا۔ میں نے بھی اس کو تجسس سے دیکھا۔ اس نے مسکرا کر پوچھا۔’’آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟‘‘
’’تیری ماں کے گاؤں سے‘‘ منٹو بولا ’’تم کہاں کی ہو؟‘‘ منٹو نے دو تین سوالوں کے بعد طوائف کو رد کر دیا۔ پٹھان کے اشارے سے وہ چلی گئی اس کے بعد دوسری لے کر آیا۔پھر تیسری۔ مگر منٹو کو تینوں ہی پسند نہ آئیں۔ پھر چوتھی طوائف آئی۔ تیکھے نقش، چہرے پر سیکسی مسکراہٹ، آنکھوں پر کالا چشمہ، وہ گھنٹوں کے بل بیٹھ گئی۔ جیسے حالت نماز میں ہو۔
منٹو کو اس کا یہ انداز بھلا لگا۔ دو چار سوال کئے جس کا طوائف نے مخصوص نخرے کے ساتھ جواب دیا۔ منٹو کی دلچسپی میں اضافہ ہوا۔ مگر ساتھ ہی ایک اور جذبہ بھی کام کر رہا تھا۔ اس نے پوچھا یہ کالا چشمہ کیوں لگایا ہوا ہے۔ رات کے وقت میری جان؟
وہ بولی ’’آپ کے حسن سے میری آنکھیں کہیں چندھیا نہ جائیں؟ ‘‘ منٹو نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ میری جان تمہارے ساتھ بستر میں بہت مزہ آئے گا۔ مگر پہلے دیکھ تو لوں کہ تم ہو کیا؟
یہ کہہ کر اس نے اچانک اس کا کالا چشمہ اتار لیا۔ طوائف نے آنکھیں جھپکیں۔ ایک آنکھ بھینگی تھی۔ منٹو بولا، اگر تم چشمہ کے بغیر آئی ہوتی تو میں ضرور تم سے محبت کرتا۔ تیری اس بھیگی آنکھ پر ہی قربان ہو جاتا مگر چوری میں برداشت نہیں کرسکتا۔
یہ طوائف بھی رد کر دی گئی۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے گوشت کباب اور آملیٹ تین مرتبہ آ چکے تھے۔ منٹو پانچ پیگ پی چکا تھا۔ مگر اس کی باتوں میں وہی چمک اور رنگینی تھی۔ وہ چھٹا پیگ بنانے لگا تو بیسوہ نے کہا ’’اور نہ پیو‘‘ اس کے انداز میں ہمدردی تھی۔ منٹو نے بوتل اٹھائی تو بیسوہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔’’آپ کو میری قسم، اور نہ پیو‘‘ میں نے منٹو سے کہا اور نہ پیو۔ یہ ٹھیک کہہ رہی ہے اس کو ہمدردی ہے’’ وہ بولا۔ ہمدردی ہے؟۔ سالی چار پیگ بچانا چاہتی ہے۔ اپنے دلے کے لئے۔ اگر صاف کہہ دے تو میں اس کے لئے نئی بوتل منگوا سکتا ہوں۔ مگر مگر یہ ہمدردی ہمدردی کا ڈھونگ کر رہی ہے۔‘‘ اس نے مزید پیگ بنایا اور نئے گھونٹ کا مزہ لینے لگا۔ بیسوہ نے دوبارہ منٹو کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اللہ جانتا ہے آپ بہت اچھے لگتے ہو۔‘‘
منٹو نے اس کی ران پر ہاتھ مارا ’’میری جان تم دنیا کی تمام عورتوں سے حسین ہو تم کلو پیڑا ہو۔۔۔۔ ہیلن ہو۔۔۔‘‘
منٹو نے پٹھان کو جتنی مرتبہ نوٹ دئیے اس کا حساب نہ لیا۔ ہر بار پٹھان باقی پیسے رکھ لیتا۔ منٹو بے دردی سے نئے نئے کڑکڑاتے ہوئے نوٹ لٹا رہا تھا۔
مجھے منٹو میں بابو گوپی ناتھ نظر آیا۔ اس کی کہانیوں کا کردار جو بازار حسن میں جاتا ہے اور سب کچھ جانتے ہوئے بھی دولت لٹاتا ہے۔ اس کو طوائفوں اور دلالوں کی دنیا پسند ہے۔ جیسے درگاہوں اور مقبروں پر پیر فقیروں کی۔ مگر، بابو گوپی ناتھ بے نیاز ہے۔ منٹو اس کاہی عکس تھا۔ یہاں یہ کہنا مناسب ہو گا۔ کہ بابو گوپی ناتھ میں بسی ہوئی انسانیت منٹو کی ہی روح تھی۔
منٹو کی روح میں عجیب ویرانگی تھی۔ وہ طوائفوں کی دنیا میں رہتے ہوئے بھی بے تعلق تھا۔ مگر وہ ان قحبہ خانوں میں چھپی ہوئی انسانیت اور بیسوہ کے دل میں بسی ہوئی بیوی کو دیکھتا تھا۔ بیوی میں طوائف اور طوائف میں بیوی ڈھونڈتا تھا۔
جسموں کی اس منڈی میں وہ روح کا بیوپاری تھا۔
دوسرے دن گیارہ بجے منٹو ریڈیو اسٹیشن آیا۔ان دونوں جگل کشور مہر ا،سٹیشن ڈائریکٹر تھا۔ بڑا صاحب، جس سے سارا سٹاف کانپتا تھا۔ لچکدار بدن، چہرے پر ماتا کے مدھم داغ، بھیڑئیے جیسی آنکھیں اور اداکاروں جیسی منجھی ہوئی آواز۔ ٹویڈ کا کوٹ پہنے منہ میں سگریٹ دبائے۔ ساتھ ایلسیشین کتا۔ وہ ریڈیو اسٹیشن میں داخل ہوتا۔
میں اپنے کمرے میں بیٹھا کام کر رہا تھا چپڑاسی نے آ کر کہا کہ منٹو صاحب بلا رہے ہیں۔ میرے پاس منٹو کے نوٹوں کا پرس تھا جو اس نے پہلی رات مجھے سنبھالنے کے لئے دیا تھا۔ میں باہر نکلا تو منٹو نے بلند آواز میں کہا ’’جگل! میں جا رہا ہوں‘‘ اتنے میں مہرا صاحب باہر آئے اور منٹو سے کہنے لگے۔ ’’ٹھہر یار، اکٹھے چلتے ہیں‘‘ منٹو نے لاپرواہی سے کہا ’’تم ریس کھیلنے جاؤ گے۔ مجھے ریس کا کوئی شوق نہیں۔ بور۔ میں چلا۔‘‘
میں نے منٹو کو اس کا پرس واپس کیا۔ اس نے روپے نہ گنے۔صرف بمبئی کے ٹکٹ دیکھے۔ مجھے کہا۔ آج شام میں واپس جا رہا ہوں شام کو میں ریلوے سٹیشن پر پہنچا۔ فرنیٹر میل میں اس کی دو سیٹیں ریزرو تھیں۔ صفیہ اس کے ساتھ تھی۔ اس نے سوٹ کیس اور لاہور سے خریدی ہوئی چیزوں کے بنڈل سیٹوں کے نیچے رکھ دئیے۔
ہم دونوں پلیٹ فارم پر کھڑے ہو گئے۔ منٹو کہنے لگا۔’’چوہدری اب تک نہیں آیا۔ سگنل ڈاؤن ہو گیا۔ اور وہ معلوم نہیں کہاں ہے۔۔۔‘‘
تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر بولا۔ اس گدھے کو وقت کا کوئی اندازہ نہیں۔ گاؤں سے نکالا تو سیدھا لاہور۔ ارائیں کا آرائیں رہا۔ اب تک نہیں آیا۔ میں نے بڑی غلطی کی کہ سارے کپڑے دھلنے کے لئے دے دئیے۔ چھ شلواریں چھ قمیضیں، اچکن۔۔۔ وہ الو کا پٹھا اب تک نہیں آیا۔
وارڈن نے سیٹی بجائی۔ منٹو بڑبڑایا۔ اس گدھے کا کچھ پتہ نہیں اتنے میں چوہدری نذیر کپڑوں کا بنڈل اٹھائے سانس پھولے ہوئے آ گیا۔’’بہت مشکل سے پہنچا ہوں۔ پاس کھڑے ہو کر کپڑے استری کروائے ہیں۔‘‘
منٹو نے غصے سے گھورا۔ گاڑی چلنے والی ہے اور تم اب آرہے ہو؟‘‘
چوہدری نے جلدی سے کپڑے گاڑی میں رکھے۔ نیچے اترا تو گاڑی چل دی۔ جب گاڑی پلیٹ فارم سے چل پڑی تو وہ پیشانی سے پسینہ صاف کرتے ہوئے بولا ’’بڑا حکم چلاتا ہے جیسے میں اس کے باپ کا نوکر ہوں۔‘‘
ہم دونوں آہستہ آہستہ چلنے لگے۔
وہ بولا’’ اپنے آپ کو نوابزادہ سمجھتا ہے۔ میرے روپے لے کر میرے اوپر ہی دھونس۔ یہاں آیا تو میں نے اس کو ناول لکھنے کے لئے دو ہزار کی رقم ایڈوانس دی اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہزار میرے سامنے لٹا دئیے۔ ہر جگہ بل ادا کرنے کے لئے آگے۔ آخر روپیہ آتا تو ہمارے پاس سے ہے۔‘‘
وہ بڑبڑاتا رہا۔ جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا تو وہ بولا ’’بلونت! میں اس آدمی کے نخرے برداشت کرتا ہوں۔ میرے پاس بڑے بڑے جج، پروفیسر اور ڈائریکٹر آتے ہیں کہ میں ان کی کوئی کتاب شائع کر دوں۔ میں نہیں شائع کرتا۔ وہی چیز شائع کرتا ہوں جس کو چھان بین کے بعد شائع کرنے کے قابل سمجھوں۔ مگر منٹو کہانی کا خدا ہے۔ کسی وقت شاید میرا نام صرف اس لئے زندہ رہ جائے کہ میں منٹو کے کپڑوں کا بنڈل اٹھا کر اس کو ریل گاڑی پر سوار کرانے آیا تھا یہ اور قسم کا مصنف ہے۔‘‘
اس کے بعد چوہدری مکتبہ اردو چلا گیا۔
اس بار منٹو اچانک لاہور آیا۔ وہ ’’مکتبہ اردو‘‘ میں ٹانگ پر ٹانگ رکھے براجمان تھا۔ اس نے ریشمی کرتا، لٹھے کی تنگ پائنچوں والی شلوار اور تلے والا جوتا پہن رکھا تھا۔
فکر تو نسوی مکتبہ اردو کے پچھلے کمرے میں بیٹھا کتابوں کے پروف پڑھتا۔ اس نے کہا منٹو صاحب! آپ نے اس دفعہ آنے کی خبر تک نہیں کی؟
منٹو نے پیر کی ایڑی مارتے ہوئے کہا ’’بمبئی میں نرگس سٹوڈیو میں آئی تو اس نے سفید ساڑھی اور تلے والی جوتی پہنی ہوئی تھی۔ کرسی پر بیٹھی وہ اسی طرح ایڑی مار رہی تھی۔ اس کو کیا معلوم کہ ساڑھی کے ساتھ تلے والی جوتی نہیں پہنی جاتی۔ مجھے بڑی تکلیف ہوئی۔ میں نے یہاں آ کر کرتا اور شلوار سلوائی اور جوتا خریدا۔ اب جا کے اس سے کہوں گا۔ دیکھو تلے والی جوتی اس طرح پہنتے ہیں۔‘‘
اس کے مزاج میں اس قسم کا شاہی ٹھاٹھ بھی تھا۔
منٹو جہاں رہا۔ اس نے وہاں کے ماحول میں ڈوب کر کہانیاں لکھیں۔ بمبئی کے ناگ پاڑا پولیس اسٹیشن، طوائفوں کے پارس روڈ اور فلم سٹوڈیوز کی جان پہچان مجھے لاہور بیٹھے ہو گئی تھی۔ ’’کالی شلوار‘‘ کی طوائف سلطانہ دلی کے اجمیری گیٹ کے باہر جی ٹی روڈ پر اک بالا خانہ پر رہتی تھی۔ سامنے ریلوے کا یارڈ۔ جہاں بے شمار ریل کی پٹڑیاں بچھی ہوئی تھیں۔ اب بھی وہاں رنڈی خانوں کی قطار ہے اور منٹو کا بیان کردہ سین اور طوائف کے من کی سمت اسی طرح ہے وہ لکھتا ہے۔
’’دھوپ میں لوہے کی یہ پٹڑیاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتی، جن کی نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹڑیوں کی طرح ابھری ہوئی تھیں۔ اس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیوں کی ٹھک ٹھک پھک پھک گونجتی رہتی۔۔۔ کبھی کبھی جب وہ کسی گاڑی کے ڈبے کو جسے انجن نے دھکیل کر چھوڑ دیا، پٹڑیوں پر اکیلا چلتے دیکھتی تو اس کو اپنا خیال آتا۔ وہ بھی سوچتی کہ اس کو بھی کسی نے زندگی کی پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے۔ اور وہ خود چلی جا رہی ہے۔ نہ معلوم مقام پر۔ پھر ایک دن ایسا آئے گا جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا وہ کسی جگہ رک جائے گی کسی ایسے مقام پر جہاں پہلے کبھی نہ ٹھہری ہو ان دیکھی۔
کبھی کبھی اس کے دماغ میں یہ خیال آتا کہ یہ سامنے ریل کی پٹڑیوں کا جو جال بچھا ہوا ہے۔ جہاں جگہ جگہ سے بھاپ اور دھواں اٹھ رہا ہے۔ ایک بہت بڑا بازار حسن ہے۔ بہت سی گاڑیاں جن کو بڑے بڑے انجن ادھر اُدھر دھکیلتے رہتے ہیں۔ سلطانہ کو کئی بار یہ انجن سیٹھوں کی طرح لگتے جو کبھی کبھی انبالہ میں اس کے بالا خانہ پر آیا کرتے تھے۔
منٹو کی اوپر والی سطریں اردو ادب میں کلائمکس بن گئی ہیں اس بیان میں زندگی کے نازو انداز کے اشارے، اداسی کے ماحول میں چلتی ھناؤں کا روحانی قوتوں سے ملاپ ہے۔
جب دیس کی تقسیم کے بعد منٹو لاہور چلا گیا تو اس نے پاکستان اور فسادات کے متعلق لکھا۔ وہ کڑوے سچ کا زہر پینے سے کبھی نہ جھجکتا۔ وہ کبھی جذباتی رعایت نہ کرتا۔ کسی دوست نے پوچھا۔ ’’تم کس حد تک مسلمان ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’جب اسلامیہ کالج اور ڈی ای کالج کے درمیان فٹ بال کا میچ ہو رہا تھا جب اسلامیہ کالج گول کرتا تو میرا دل اچھل پڑتا میں بس اتنا ہی مسلمان ہوں۔‘‘
فٹ بال میچ کی بات اس نے شاید اس لئے کی تھی کہ کئی ہندو ادیب ترقی پسند ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے۔ مگر اندر سے کٹر ہندو تھے۔ کھل کر یہ بات نہیں کہہ سکتے تھے۔ منٹو نے اس جذبے کے متعلق لکھا کہ جو ہمارے تحت الشعور میں لرزتا ہے اور جس پر ہمارا شعوری طور پر کوئی بس نہیں چلتا۔ ہمیں ایک گہرے سچ کے سامنے کھڑا کر دیتا ہے۔
موت کے متعلق اس کا عجب رد عمل تھا اس نے کہا کہ ایک آدمی کی موت ٹریجڈی ہے، ایک لاکھ انسان مر جائیں تو یہ قدرت کا بہت بڑا مذاق ہے۔
اس نے پنجاب کی تقسیم، قتل و غارت، زنا بالجبر کے دل خراش واقعات پر کہانیاں تخلیق کیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘،’’ٹھنڈا گوشت‘‘، ’’ کھول دو‘‘ کی عظمتوں سے سب واقف ہیں۔ اس نے’’سیاہ حاشیے‘‘ میں فرقہ وارانہ فسادات کی درندگی کا ذکر کیا ہے۔
یہ سیاہ لطیفے ہیں، چھوٹی چھوٹی کہانیاں جن میں لقمان کی کہانیاں اور پانچ تنتر جیسی تیکھی اور الٹی ذہانت ہے۔ اس نے غنڈہ گردی، قتل اور انسانی بے وقوفیوں کا مذاق اڑایا ہے اس قسم کے سیاہ مذاق بھارتی ادب میں پہلی بار تخلیق ہوئے۔
اس کے کئی برس بعد یورپ میں ہیومر یا سیاہ مذاق کو فلموں میں فلینی اور ادب میں فاکر نے پیش کیا۔ منٹو ان سے پہلے بین الاقوامی ادب کی شاہراہ پر گامزن تھا۔ کئی بار منٹو کے کرداروں”