یادیں انسان کی زندگی کا حسین سرمایہ گردانی جاتی ہیں۔ اگر ان یادوں میں خوشبوؤں اور رومانوی رنگوں کا پیوند لگ جائے اور انسان کے احساس کا روشن دان کھلا ہو تو یادوں کا یہی سرمایہ خوبصورت ہوتے ہوئے بھی ذہن و دل میں تلاطم بپا کیے رکھتا ہے۔ جانے ان یادوں میں قدرت نے کون ساسحر پھونک دیا ہے کہ بسا اوقات اپنے دامن میں آنسو اور کانٹے چھپا کر بھی یہ مسکراہٹوں اور پھولوں کی بارش کر دیتی ہیں۔ تنہائیاں، خاموشیاں اور جاڑے کی طویل راتیں شاید اسی وجہ سے اداسی کی تشبیہیں اور استعارے بن جاتی ہیں کہ یہ اپنے پلو میں چھپی یادوں کی پڑیاں کھول دیتی ہیں جو انسان کے دل و دماغ میں آتشداں کے ان بجھے انگاروں کی طرح سسکتی رہتی ہیں۔ یادوں کے یہ لمحات انتہائی مقدس ہوتے ہیں جو انسان کو روحانی رفعت عطا کرتے چلے جاتے ہیں۔ان لمحوں انسانی رُوح پاکیزہ اور معطر ہوکر آسودگی کی کیفیت محسوس کرنے لگتی ہے۔یادیں انسان کو حال کی کثافتوں سے نکال کر کہیں دور لطیف دنیا کا باسی بنا دیتی ہیں اور اس بندہِ خُدا کو ارد گرد کی سود و زیاں کی دنیا سے وقتی طور پر جدا کر دیتی ہیں۔ ایسے لمحوں یادوں میں گھرا انسان عجیب منظر پیش کر رہا ہوتا ہے اور اس کا ملاقاتی انگشتِ بدنداں ہو کر سوچتا چلا جاتا ہے کہ موصوف مسکرا رہے ہیں یا رونا چاہتے ہیں۔آئیے اس مقدس دنیا کی زیارت کرنے کے لیے یادوں کے قصے چھیڑتے ہیں اس سے قبل کہ ہم خود بھی ایک یاد بن کر رہ جائیں۔
بسا اوقات انسان کسی کو بھولنے کی کوشش کرتا ہے۔ کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن اچانک یادوں کی ہوا چلتی ہے تو ماضی کی کتاب کے پوشیدہ اوراق کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یادیں آگ کی طرح بھڑک اٹھتی ہیں۔
اس کو بھولے ہوئے تو ہو فانی
کیا کرو گے وہ اگر یاد آیا
یادوں میں جانے کیا جادو پنہاں ہے کہ بندے کو آن کی آن میں کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں۔ رساچغتائی تو یادوں کی آماجگاہ کو بوسیدہ مکان قرار دے کر اسے خوابوں کے خزانے کا مسکن بنا دیتی ہے
اٹھا لایا ہوں سارے خواب اپنے
تری یادوں کے بوسیدہ مکاں سے
یادیں ہمیشہ خوبصورت ہوتی ہیں۔ شاید اس لیے کہ ہم اچھی چیزوں کو یاد رکھتے ہیں اوربری باتوں کو بھول جاتے ہیں۔گزرا زمانہ اتنا حسیں معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زندگی اس کے مقابلے میں معمولی اور غیر اہم دکھنے لگتی ہے۔ ایسے میں ایک حساس دل اختر انصاری کی زبانی یوں پکار اٹھتا ہے
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھے سے حافظہ مرا