آج سکول میں کیا کچھ کیا، کس کے ساتھ کھیلا، کیا بات کی، کس سے شرارت کی اور کیسے ہنسا، یہ سب یاد ہے۔ ٹیچر نے جو سبق پڑھایا تھا، وہ بھول گیا۔
-سکول کا ہر بچہ
ہم سب کے ساتھ ایسا کیوں ہے کہ وہ سب کچھ جو زندگی میں سنا، دیکھا اور محسوس کیا، اس میں سے کچھ چیزیں بار بار یاد آتی ہیں اور کچھ جذبات کو چھیڑ جاتی ہیں۔ وہ کسی پرندے کا گانا، کسی مچھلی کی لپک، کسی خاص وقت پر اور کسی خاص مقام پر اور وہ کسی ایک پھول کی خوشبو۔
-ٹی ایس ایلیٹ
وہ جو ہر وقت ہماری نظر کے سامنے ہے وہ بس ہم جیسے دیکھنا ہی بند کر دیتے ہیں۔ لیکن پھر یادداشت میں جیسے جھماکہ سا اور ہم اپنی ہی دنیا میں کہیں اور نکل جاتے ہیں۔ لیکن کیا وہ اصل ہے جو ہمارے سامنے ہے یا وہ جو ہماری سوچ میں چل رہا ہے۔ کہیں صرف ہمارا تصور ہی ہمارا راہنما تو نہیں۔ اور کیا یہ تصور بھی اصل ہے؟
-لارڈ بائرن
بیوی- نکلتے وقت دروازہ لاک کر دیا تھا
شوہر- تیسری بار بتا رہا ہوں کہ ہاں، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کر دیا تھا
جب واپسی ہوئی تو دروازہ کھلا تھا۔ بیوی کی خشمگیں نگاہوں کی زد میں شوہر سوچ رہا ہے کہ اس کو دروازہ لاک کرنا تو اچھی طرح یاد تھا۔ اس نے جھوٹ تو نہیں کہا تھا۔
-پریشان شوہر
آئیں، ان چاروں کی الجھنیں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لئے ایک چکر دماغ کے اندر یادوں کے بننے کے تین مراحل کا۔
یاد بننے کے پہلے مرحلے کا آغاز ہمارے دماغ کے درمیان میں موجود ہپوکیمپس سے ہوتا ہے۔ یہاں پر وہ فریم ورک ہے جو کسی واقعے یا کسی تجربے کو سب سے پہلے اپنی فریم ورک میں پراسس کرتا ہے۔ اس میں اس کے خدوخال اور اس کو وقت کے حساب سے سیکوئنس کرنا آتا ہے۔ وقت میں سیکونس سے ہم یہ یاد رکھ سکتے ہیں کہ پہلے کیا ہوا تھا اور بعد میں کیا۔ یہ یادداشت کا سب سے بڑا اور اہم کام ہے۔ وقت کے سیکونس کے ادراک کے بغیر ہم کسی بھی چیز کو پراسس کر ہی نہیں سکتے۔
اس کے دوسرے مرحلے کا کنٹرول ہمارے کانوں کے اوپر لیٹرل پیرئیٹل کارٹکس کا ہے۔ ہماری حسیات، جو ہم نے دیکھا، سنا، سونگھا یا محسوس کیا، یہ سب الگ جگہ پر جانے ہیں۔ ان کا آپس میں ربط بننا ہے اور پھر جب ہم ان کو دہرائیں گے تو اسی مربوط طریقے سے۔ کسی واقعہ کی تصویر اور آواز اکٹھی ہی یاد آئے گی۔ اس کے لئے پہلی تصویر دیکھ لیں
ہپوکیمپس میں یادوں کا فریم ورک ایلوسنٹرک ہے یعنی ہم اس یاد کا خود حصہ نہیں بنے لیکن حسیات سے انٹیگریٹ ہو کر یہ ایگوسینٹرک بن جاتا ہے یعنی ہم اس واقعے کو اپنی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ایلوسینٹرک اور ایگوسینٹرک یادوں کی پراسسنگ ہی مختلف ہے۔ (اس کے لئے دوسری تصویر)۔ سوٹن اور رابنز کی 2010 کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ جو یادیں اپنے نقطہ نظر سے بنیں، وہ زیادہ دیرپا ہوتی ہیں، ان کی زیادہ تفصیل یاد رہتی ہے اور اپنی جزئیات اور ربط کے ساتھ رہتی ہے اور ان میں جذبات کی شدت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
جس یاد کو ہم بار بار دہراتے ہیں، وہ دماغ میں مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔
یاد کسی کہانی کی بھی ہو سکتی ہے، کسی دوسرے کی کہی بات یا بنائے منظر کی یا پھر اپنے ہی ذہن میں سوچے ہوئے تصور کی۔ یہ سب بھی یاد میں اسی طرح رہتا ہے۔ کیا اصل ہے اور کیا نہیں، یہ کام اینٹیرئیر پری فرنٹل کارٹکس کا ہے۔ دماغ کا یہ فنکشن رئیلیٹی مانیٹیرنگ کہلاتا ہے یعنی حقیقت کی نگرانی۔ یہاں پر بس ایک فولڈ سا ہے، جو پیراسنگولس سلکس کہلاتا ہے اور یہ اس کی نگرانی کرتا ہے کہ کیا حقیقت ہے اور کیا نہیں۔ یہ فولڈ دونوں لوبز میں ہے۔ اس کا فنکشن کبھی درست نہ ہو تو تصور کی گئی چیز یا سوچ میں کی گئی یا اپنی آپ کو بتائی گئی چیز پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔ ہر شخص کے ساتھ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے لیکن اگر یہ درست کام نہ کرے تو کئی نفیساتی عارضوں کی وجہ بن جاتا ہے۔ (اس کے لئے تیسری تصویر)۔
چوتھی تصویر میں یہ سب کچھ اکٹھا جوڑ کر دکھایا گیا ہے۔
اب ہم شروع کی چاروں الجھنوں کو اس کی روشنی میں دیکھ لیتے ہیں۔
بچے نے جو ایگوسنٹرک ویو سے دیکھا تھا، وہ یاد رہا تھا۔ جو ٹیچر نے بتایا، اسے اپنی نظر سے نہیں دیکھا تو دہرانے میں مشکل ہو رہی ہے۔ ہمیں وہ واقعات یا وہ کہاںیں اور تحریریں بھی یاد رہ جاتی ہیں، جس میں ہم خود کو محسوس کریں۔
ٹی ایس ایلیٹ نے جس کا ذکر کیا، یہ وہ یادداشیں ہیں جنہیں ذہن میں کئی بار دہرایا گیا ہے اور ان کے ساتھ ہمارے کسی قسم کے جذبات وابستہ ہیں۔ جن یادوں میں جذبوں کی شدت ہو، وہ دماغ میں پختہ ہوتی ہیں اور اگر انہیں دہرایا جائے تو پھر کبھی ذہن سے محو نہیں ہوتیں اور بار بار اپنی پوری تصیل کے ساتھ واپس آتی ہیں۔ یہ یاد خوشگوار بھی ہو سکتی ہے اور ناگوار بھی۔
لارڈ بائرن کی الجھن کا جواب پیراسنگولس سلکس ہے۔ اگر وہ درست کام کر رہا ہے تو دماغ حقیقت کی ٹھیک نگرانی کر رہا ہے اور تصور کو حقیقات سے چھانٹ رہا ہے۔
شوہر کی الجھن کا جواب بھی پیراسنگولس سلکس ہے۔ اس نے اپنی طرف سے سوچا کہ دروازہ لاک کر دیا تھا۔ یہ سوچ یاد بن گئی لیکن دماغ حقیقت کی چھانٹی میں غلطی کر گیا اور اس کو اصل سمجھ بیٹھا۔ اس کا دفاع اب اس میں ہے کہ اپنی بیوی کو پیراسنگولس سلکس کے بارے میں بتائے۔
اس کی سائنس کا بڑا حصہ کیمبرج یونیورسٹی میں نیوروسائنس پر ہونے والی حالیہ تحقیق سے ہے۔ اس وقت یہاں پر کئی موضوعات پر ایکٹو تحقیق ہو رہی ہے جس میں اس قسم کے موضوع بھی ہے کہ کسی چیز کو سیلکٹو کیسے یاد رکھا جا سکتا ہے۔