فیض احمد فیض کی یادگار زمانہ تقریر جو انہوں نے ماسکو میں بین الاقوامی لینن امن انعام وصول کرنے کی پر شکوہ تقریب کے موقع پر اردو زبان میں کی تھی۔
محترم اراکینِ مجلسِ صدارت، خواتین اور حضرات!
الفاظ کی تخلیق و ترتیب شاعر اور ادیب کا پیشہ ہے۔ لیکن زندگی میں بعض مواقع ایسےبھی آتے ہیں جب قدرت کلام جواب دے جاتی ہے۔۔۔ آج عجزِ بیان کا ایسا ہی مرحلہ مجھے درپیش ہے۔ ایسے کوئی الفاظ میرے ذہن میں نہیں آ رہے، جن میں اپنی عزت افزائی کے لئے لینن پرائز کمیٹی، سوویٹ یونین کے مختلف اداروں، دوستوں اور سب خواتین اور حضرات کا شکریہ خاطر خواہ طور سے ادا کرسکوں۔ لینن امن انعام کی عظمت تو اسی ایک بات سے واضح ہے کہ اس سے لینن کا محترم نام اور مقدس لفظ وابستہ ہے۔ لینن جو دور حاضر میں انسانی حریت کا سب سے بزرگ علم بردار ہے اور امن جو انسانی زندگی اور اس زندگی کے حسنو خوبی کی شرطِ اول ہے۔ مجھے اپنی تحریر و عمل میں ایسا کوئی کام نظر نہیں آتا جس اس عظیم اعزاز کے شایان شان ہو۔ لیکن اس عزت بخشی کی ایک وجہ ضرورذہن میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس تمنا اور آدرش کے ساتھ مجھے اور میرے ساتھیوں کو وابستگی رہی ہے یعنی امن اور آزادی کی تمنا وہ بجائے خود اتنی عظیم ہے کہ اس واسطے سے ان کے حقیر اور ادنیٰ کارکن بھی عزت اور اکرام کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
یوں تو ذہنی طور سے مجنون اور جرائم پیشہ لوگوں کے علاوہ سبھی مانتے ہیں کہامن اور آزادی بہت حسین اور تابناک چیز ہے اور سبھی تصور کرسکتے ہیں کہا من گندم کے کھیت ہیں اور سفیدے کے درخت، دلہن کا آنچل ہے اور بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ، شاعر کا قلم ہے اور مصور کا موئے قلم اور آزادی ان سب صفات کی ضامن اور غلامی ان سب خوبیوں کی قاتل ہے جو انسان اور حیوان میں تمیز کرتی ہے۔ یعنی شعور اور ذہانت، انصاف اور صداقت، وقار اور شجاعت، نیکی اور رواداری____ اس لئے بظاہر امن اور آزادی کے حصول اور تکمیل کے متعلق ہوشمند انسانوں میں اختلاف کی گنجائش نہ ہونا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے یوں نہیں ہے کہ انسانیت کی ابتداء سے اب تک ہر عہد اور ہر دور میں متضاد عوامل اور قوتیں برسرِ عمل اور برسرپیکار رہی ہیں۔ یہ قوتیں ہیں، تخریب و تعمیر، ترقی اور زوال،روشنی اور تیرگی، انصاف دوستی کی قوتیں۔ یہی صورت آج بھی ہے اور اسی نوعیت کی کشمکش آج بھی جاری ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ آج کل انسانی مسائل اور گزشتہ دور کی انسانی الجھنوں میں کئی نوعیتوں سے بھی فرق ہے۔ دورِ حاضر میں جنگ سے دو قبیلوں کا باہمی خون خرابہ مراد نہیں ہے۔ نہ آجکل امن سے خون خرابے کا خاتمہ مراد ہے۔ آج کل جنگ اور امن کے معنی ہیں امن ِآدم کی بقا اور فنا۔ بقا اور فنا ان دو الفاظ پر انسانی تاریخ کے خاتمے یا تسلسل کا دارومدار ہے۔ انہیں پر انسانوں کی سرزمین کی آبادی اور بربادی کا انحصار ہے۔ یہ پہلا فرق ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ اب سے پہلے انسانوں کو فطرت کے ذخائر پر اتنی دسترس اور پیداوار کے ذرائع پر اتنی قدرت نہ تھی کہ ہر گروہ اور برادری کی ضرورتیں پوری طرح تسکین پا سکتیں۔ اس لئے آپس میں چھینجھپٹ اور لوٹ مار کا کچھ نہ کچھ جواز بھی موجود ہے۔ لیکن اب یہ صورت حال نہیں ہے۔ انسانی عقل، سائنس اور صنعت کی بدولت اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ جس میں سب تن بخوبی پل سکتے ہیں اور سبھی جھولیاں بھر سکتی ہیں۔ بشرطیہ قدرت کے یہ بے بہا ذخائر پیداوار کے یہ بے اندازہ خرمن، بعض اجارہ داروں اور مخصوص طبقوں کی تسکینِ ہوس کے لئے نہیں، بلکہ جملہ انسانوں کی بہبود کے لئے کام میں لائے جائیں۔ اور عقل اور سائنس اور صنعت کی کل ایجادیں اور صلاحیتیں تخریب کے بجائے تعمیری منصوبوں میں صرف ہوں۔ لیکن یہ جبھی ممکن ہے کہ انسانی معاشرے میں ان مقاصد سے مطابقت پیدا ہو اور انسانی معاشرے کے ڈھانچےکی بنائیں ہوسِ، استحصال اور اجارہ داری کے بجائے انصاف برابری، آزادی اور اجتماعی خوش حالی میں اٹھائیں جائیں۔ اب یہ ذہنی اور خیالی بات نہیں، عملی کام ہے۔ اس عمل میں امن کی جدوجہد اور آزادی کی حدیں آپس میں مل جاتی ہیں۔ اسلئے کہ امن کے دوست اور دشمن اور آزادی کے دوست اس دشمن ایک ہی قبیلے کے لوگ، ایک ہی نوع کی قوتیں ہیں۔ ایک طرف وہ سامراجی قوتیں ہیں جن کے مفاد، جنکے اجارے جبر اور حسد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے اور جنہیں ان اجاروں کے تحفظ کے لئے پوری انسانیت کی بھینٹ بھی قبول ہے۔ دوسری طرف وہ طاقتیں ہیں جنہیں بنکوں اور کمپنیوں کی نسبت انسانوں کی جان زیادہ عزیز ہے۔ جنہیں دوسروں پر حکم چلانے کے بجائے آپس میں ہاتھ بٹانے اور ساتھ مل کر کام کرنے میں زیادہ لطف آتا ہے۔ سیاست و اخلاق، ادب اور فن، روزمرہ زندگی، غرض کئی محاذوں پر کئی صورتوں میں تعمیر اور تخریب انسان دوستی اور انسان دشمنی کی یہ چنقلش جاری ہے۔
آزادی پسند اور امن پسند لوگوں کے لئے ان میں سے ہر محاذ اور ہر صورت پر توجہ دینا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر سامراجی اور غیر سامراجی قوتوں کی لازمی کشمکش کےعلاوہ بدقسمتی سے بعض ایسے ممالک میں بھی شدید اختلاف موجود ہیں، جنہیں حال ہی میں آزادی ملی۔ ایسے اختلافات ہمارے ملک پاکستان اور ہمارے سب سے قریبی ہمسایہ ہندوستان میں موجود ہیں۔ بعض عرب ہمساہہ ممالک میں اور بعض افریقی حکومتوں میں موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے اختلافات سے وہی طاقتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں جو امن عالم اور انسانی برادری کی دوستی اور یگانگت کو پسند نہیں کرتیں۔ اسلئے صلح پسند اور امن دوست صفوں میں ان اختلافات کے منصفانہ حل پر غور و فکر اور اس حل میں امداد دینا بھی لازم ہے۔
ابسے کچھ دن پہلے جب سوویت فضاؤں کا تازہ کارنامہ ہر طرف دنیا میں گونج رہا تھا تو مجھے بار بار خیال آتا رہا کہ آج کل جب ہم ستاروں کی دنیا میں بیٹھ کر اپنی ہی دنیا کا نظارہ کرسکتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی کمینگیاں، خود غرضیاں، یہ زمین کے چند ٹکڑوں کو بانٹنے کو کوششیں اور انسانوں کی چند ٹولیوں پر اپنا سکہ چلانے کی خواہش کیسی بعید از عقل باتیں ہیں۔ اب جبکہ ساری کائنات کے راستے ہم پر کشادہ ہو گئے ہیں۔ ساری دنیا کے خزینے انسانی بس میں آسکتے ہیں، تو کیا انسانوں میں ذی شعور، منصف مزاج اور دیانت دار لوگوں کی اتنی تعداد موجود نہیں ہے جو سب کو منوا سکے کہ یہ جنگی اڈے سمیٹ لو۔ یہ بم اور راکٹ، توپیں بندوقیں سمندر میں غرق کر دو اور ایک دوسرے پر قبضہ جمانے کی بجائے سب مل کر تسخیر کائنات کو چلو۔ جہاں جگہ کی کوئی تنگی نہیں ہے، جہاں کس کو کسی سے الجھنے کی ضرورت نہیں ہے، جہاں لا محدود فضائیں ہیں اور ان گنت دنیائیں۔ مجھے یقین ہے کہ سب رکاوٹوں اور مشکلوں کے باوجود ہم لوگ اپنی انسانی برادری سے یہ بات منوا کر رہیں گے۔
مجھے یقین ہے کہ انسانیت جس نے اپنے دشمنوں سے آج تک کبھی ہار نہیں کھائی اببھی فتح یاب ہو کر رہے گی۔ اور آخرِ کار جنگ و نفرت اور ظلم و کدورت کے بجائے ہمارےباہمی زندگی کی بنا وہی ٹھہرے گی جس کی تلقین اب سے بہت پہلے فارسی شاعر حافظ نے کی تھی
خلل پزیر بَوَد ہر بنا کہ می بینی
بجز بنائے محبّت کہ خالی از خلل است
خلل پزیر (بگاڑ والی) ہے ہر وہ بنیاد جو کہ تُو دیکھتا ہے، ما سوائے مَحبّت کی بنیاد کہ وہ (ہر قسم کے) خلل سے خالی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“