یہ ایک نمبر لکھا ہے 74918041۔ اس کو اگر اچھی طرح یاد کر لیں۔ کیا آپ اسے پوسٹ کے آخر تک یاد رکھ سکتے ہیں اور بغیر اسے اوپر سے پڑھے دہرا سکتے ہیں؟
کیا آپ کبھی نے کبھی گوئٹے مالا کا سفر کیا ہے؟ اس کا جو بھی جواب ہے، اس پر بھی ابھی پوسٹ کے آخر میں بات کرتے ہیں۔
اب میں خود یہ بھول گیا ہوں کہ کہانی کو کہاں سے شروع کروں۔ شاید اس لئے کہ دنیا کے سب لوگوں کی طرح میں بھی ایک وقت میں کچھ چیزیں ہی ایک وقت میں یاد رکھ سکتا ہوں۔ ایک وقت میں ہم محدود چیزیں اپنی شارٹ ٹرم میموری میں یاد رکھتے ہیں کیونکہ اس کے کیپیسیٹی زیادہ نہیں۔ کچھ سٹیڈیز کے مطابق یہ عدد چار ہے اور کچھ کے مطابق یہ سات۔ ہر شخص کے لئے یہ عدد کچھ فرق ہو سکتا ہے لیکن یہ حد بہت زیادہ نہیں۔
ہماری ورکنگ میموری کی چیزیں عارضی ہوتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر ہماری لمبی دیر کی یادداشت کا حصہ نہیں بنتیں۔ اگر آپ دو ہفتے پہلے سودا لینے نکلے تھے تو اس وقت تو وہ فہرست آپ کے ذہن میں تھی (اور اگر یہ لمبی تھی تو ہو سکتا ہے کہ ٹماٹر لانا بھول گئے ہوں) لیکن اس وقت آپ کو وہ فہرست یاد نہیں ہو گی کیونکہ وہ لانگ ٹرم میموری کا حصہ نہیں بنی۔
نیچے دی گئی ڈایاگرام ہماری یادداشت کے مختلف حصوں کی جن کا اپنا طریقہ ہے اور دماغ ان چیزوں کی پیٹرنز کی صورت میں مختلف جگہ پر سنبھال کر رکھتا ہے۔ اگر آپ یاد کی جانے والی چیز کے پیٹرن بنا سکیں تو یادداشت کو بہت بڑھا سکتے ہیں۔
یادداشت کو سٹور کرنے کے بھی دماغ کے کئی طریقے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ نے سائیکل چلانا سیکھی ہے تو وہ لانگ ٹرم پروسیجرل میموری میں ہے۔ آپ کی چھٹی کے دنوں کی یادوں کا سٹور فرق طرز پر ہے۔
اور پھر دماغ کا ان سب کو حاصل کرنے کا طریقہ بھی مختلف ہے۔ جب آپ نے پوسٹ میں اس سوال کا جواب سوچا کہ آپ نے کبھی گوئٹے مالا کا سفر کیا ہے تو آپ کے ذہن میں اس کا جواب فوری آیا اور کچھ گہرا سوچنا نہیں پڑا۔ اس کا طریقہ کمپیوٹر میں سرچ کی طرز کا نہیں کہ کسی ایک جگہ پر فہرست بنی ہے کہ تمام عمر آپ کدھر کدھر گئے تھے اور اس میں سے گوئٹے مالا نہیں ملا تو پھر آپ نے جواب دے دیا کہ نہیں۔ آپ کی ایپیسوڈک میموری کیسے کام کرتی ہے، یہ اب آپ خود ڈھونڈیں۔
اب اس نمبر کی طرف جو پوسٹ کے شروع میں دیا گیا تھا۔ اگر وہ نمبر آپ کو ابھی تک یاد ہے تو زبردست، آپ کی یادداشت اچھی ہے۔ لیکن اسے اگر آپ نے ایک ایک عدد کر کے یاد رکھا ہوا ہے تو آپ پوسٹ کو اچھی طرح نہیں پڑھ یا سمجھ سکے۔ اس کو کوگنیٹو لوڈ کہتے ہیں۔ اس نمبر کو یاد رکھنے کا بہت آسان طریقہ بھی تھا۔ یہ پاکستان بننے کا دن ہے جسے الٹا کر کے لکھا گیا ہے۔ یعنی چودہ اگست 1947۔ یہ تاریخ آپ کی لانگ ٹرم میموری میں اس لئے ہے کہ اسے بچپن سے پڑھتے آئے ہیں اور اگر اوپر والے عدد کو اس سے ریلیٹ کر لیں تو یاد بھی رہے گا اور دماغ پر کوئی کوگنیٹو لوڈ بھی نہیں پڑے گا۔
آخر میں سوچنے کے لئے ایک اور سوال۔ آپ یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ گوئٹے مالا واقعی کبھی نہیں گئے؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔