جولائی 1984 کی رات بائیس سالہ طالبہ جینیفر تھامپسن امریکی ریاست نارتھ کیرولینا میں اپنے اپارٹمنٹ میں سو رہی تھیں۔ صبح تین بجے ایک شخص ان کے پچھلے دروازے پر آیا۔ فون لائن کاٹ دی۔ بلب توڑ دیا اور گھر میں داخل ہو گیا۔ قدموں کی چاپ سے ان کی آنکھ کھلی۔ جب تک کچھ حرکت کرتیں، وہ شخص ان تک پہنچ چکا تھا۔ چاقو گردن پر رکھ دیا اور دھمکی دی کہ مزاحمت پر قتل کر دے گا۔ حملہ آور نے ان کا ریپ کیا۔ تھامپسن نے چہرہ یاد رکھنے کی طرف توجہ دی کہ اگر زندگی بچ گئی تو شناخت کی جا سکے۔
تھامپسن اس شخص کو دھوکہ دے کر وہاں سے نکل کر بھاگ جانے میں کامیاب ہو گئیں۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ پولیس نے ان کے بال اور مادے کے سیمپل لئے۔ پولیس سٹیشن میں انہوں نے حملہ آور کے چہرے کا خاکہ بنوایا۔ اگلے روز اس بارے میں اطلاعات آنے لگیں۔ ان میں سے ایک شخص رونالڈ کاٹن تھے۔ کاٹن کا مجرمانہ ریکارڈ بھی تھا۔ جب ٹین ایجر تھے تو انہوں نے کسی گھر میں گھس کر کسی سے جنسی زیادتی کی کوشش کی تھی۔ تھامپسن سے تصاویر دکھا کر شناخت کروائی گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ “میرے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کمرہ امتحان میں بیٹھی ہوں” لیکن چھ تصاویر میں سے انہوں نے کاٹن کی شناخت کر دی۔ کاٹن کو تھانے بلوایا گیا۔ پانچ لوگوں میں سے تھامپسن کو چوتھے یا پانچویں شخص میں کچھ کنفیوژن تھی۔ بالآخر، انہوں نے پانچویں شخص کی شناخت کر دی۔ یہ شخص کاٹن تھے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ تصویر بھی انہی کی تھی تو تھامپسن کہتی ہیں، “شکر ہے، میں ٹھیک تھی۔ مجرم پکڑا گیا تھا”۔
کیس میں جیوری نے صرف چالیس منٹ میں فیصلہ دے دیا۔ کاٹن قصوروار قرار پائے۔ انہیں عمر قید اور پچاس سال کی قید کی دو سزائیں دے دی گئیں۔ تھامپسن کہتی ہیں کہ “یہ میرے لئے بہت خوشی کا دن تھا۔ مجھے انصاف مل گیا تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاٹن نے جرم کا اقرار نہیں کیا تھا۔ جیل میں کاٹن کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی جس کا نام بوبی پول تھا۔ پول کا حلیہ کاٹن سے ملتا تھا اور پولیس کے جاری کردہ خاکے سے بھی مشابہہ تھا۔ پول بھی ریپ کے جرم میں جیل کاٹ رہا تاے۔ کاٹن کی خوش قسمتی کہ پول نے جیل میں کسی کو بتا دیا کہ تھامپسن کا بھی ریپ اس نے کیا تھا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ کاٹن کی ملاقات اصل مجرم سے ہو گئی تھی۔ جیل میں کئے گئے اس اعترافِ جرم کے نتیجے میں کاٹن کو دوبارہ کیس کھلوانے کا حق مل گیا۔
دوسرے ٹرائل کے دوران جینیفر تھامپسن کو دوبارہ شناخت کا کہا گیا۔ وہ کاٹن اور پول سے پندرہ فٹ دور کھڑی تھیں۔ انہوں نے دونوں کو بغور دیکھا اور ایک بار پھر کاٹن کی طرف اشارہ کر دیا۔ دونوں کی شکلوں میں کچھ مشابہت تھی لیکن پچھلے کیس کے دوران کے تجربات کی وجہ سے، جس میں انہوں نے تصویر سے اور پھر شناخت پریڈ میں اور پھر عدالت میں کاٹن کو پہچانا تھا، تھامپسن کے ذہن میں کاٹن کا چہرہ راسخ ہو چکا تھا۔ اور اس رات کی یاد کے ساتھ ہی لکھا گیا تھا۔ دوسرے ٹرائل کے بعد کاٹن کی سزا مزید سخت ہو گئی۔ انہوں دو بار عمرقید کی سزا سنا دی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سات سال مزید گزر گئے۔ اس جرم کو دس سال ہو چکے تھے۔ برلنگٹن پولیس ڈیپارٹمنٹ کے پاس مجرم کے مادے کا چھوٹا سا حصہ محفوظ تھا۔ خبروں میں نئی ٹیکنالوجی کا ذکر آ رہا تھا۔ یہ ڈی این اے ٹیسٹنگ تھی۔ او جے سمپسن کے دوہرے قتل کے بدنامِ زمانہ ٹرائل کے بعد یہ توجہ کا مرکز بن گئی تھی۔ کاٹن نے وکیل کو کہا کہ وہ کوشش کریں کہ اس سیمپل کی ٹیسٹنگ کی جائے۔ ان کے وکیل بالآخر اس میں کامیاب ہو گئے۔ ٹیسٹ سے ثابت ہو گیا کہ وہ مادہ رونالڈ کاٹن کا نہیں، بابی پول کا تھا۔ مجرم بابی پول تھا۔ کاٹن ناکردہ جرم کی سزا کاٹ رہے تھے۔
تھامپسن ایک قابلِ بھروسہ گواہ تھیں۔ ذہین خاتون تھیں۔ جرم کے وقت حواس قائم رکھے تھے۔ چہرے کو ذہن نشین کرنے کی شعوری کوشش کی تھی۔ اور ایسا نہیں تھا کہ انہیں کاٹن سے کوئی شخصی عناد تھا۔ یعنی کہ یہ گواہی دینے میں ان کی نیت میں کوئی بددیانتی کا عنصر شامل نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی انہوں نے غلط شخص کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اور تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہونا معمول کی بات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں سالانہ 75000 بار شناخت پریڈ ہوتی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بیس سے پچیس فیصد کیسز میں پولیس “جانتی” ہے کہ شناخت غلط ہے۔ وہ کیسے؟ اس پریڈ میں گنتی پوری کرنے کے لئے پولیس والے ان لوگوں کو شامل کر لیتے ہیں جنکا جرم کرنے کا امکان ہی نہیں ہوتا۔ جیل میں بند لوگ جو جرم کے ارتکاب کے وقت جیل میں تھے یا پھر خود پولیس والے۔ ایسے موقعے پر تو یہ شناخت رد کر دی جاتی ہے لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟ جب گواہ تھانے میں یا عدالت میں شناخت کے لئے انگلی اٹھاتا ہے تو یہ کتنا قابلِ اعتبار ہے؟ اور عدالت میں یہ گواہی قابلِ اعتبار سمجھی جاتی ہے۔ جب کہ اعداد و شمار کہتے ہیں کہ ایسا نہیں۔
اس پر کئے جانے والے mock تجربات یہ بتاتے ہیں کہ اگر شناخت پریڈ میں سے کوئی بھی مجرم نہ ہو تو بھی نصف سے زیادہ لوگ وہی کرتے ہیں جو تھامپسن نے کیا۔ وہ کسی نہ کسی کی شناخت کر دیتے ہیں۔ جو بھی انہیں مطلوبہ شخص سے قریب ترین لگے۔
لوگوں کو دی جانے والی سزاوٗں کی سب سے بڑی وجہ عینی شاہد ہیں۔ ایک تنظیم Innocence Project اس پر کام کر رہی ہے جو ڈی این اے ٹیسٹ کی بنیاد پر سزا پانے والے سینکڑوں لوگوں کو آزاد کروا چکی ہے۔ ان میں سے 75 فیصد لوگ وہ تھے جن کی سزا عینی گواہ کی وجہ سے ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ ہم خود بھی جانتے ہیں لیکن سائنس اس کو بہت ہی واضح کر چکی ہے کہ انسانی یادداشت بہت ناقابلِ بھروسہ ہے۔ کیا ان سب اعداد و شمار کو جاننے کے باوجود بھی تفتیش یا جرم و سزا کے نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی کہیں پر بھی آئی ہے؟ صرف چند جگہوں پر۔ لیکن زیادہ تر جگہوں عینی شاہد کی گواہی کو ویڈیو ٹیپ یا کسی بھی دوسری گواہی سے بالاتر سمجھا جاتا ہے۔
(اچھی بات یہ ہے کہ کئی شعبوں میں ایسا نہیں کیا جاتا۔ مثلاً، ایسا نہیں کیا کرتے کہ مریض سے پوچھیں کہ “کیا دل کی دھڑکن بے ترتیب محسوس ہو رہی ہے؟” اور اس کا نفی میں سر ہلانے پر چارٹ میں نظر آنے والی بے ترتیبی کو نظرانداز کر دیا جائے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے ماضی کی چند خوشگوار اور ناخوشگوار یادوں کو ذہن میں ایک بار دہرائیں جو ذہن پر اچھی طرح سے نقش ہوں۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کے لئے یہ مایوسی کا باعث ہو لیکن جس طرح آپ نے اس واقعے کو یاد کیا، یہ ویسے نہیں ہوا تھا۔ اس میں آپ کی imagination کا اضافہ بھی ہے۔ خاص طور پر اس کے مبہم حصوں میں آپ کے ذہن نے خود رنگ بھرے تھے۔ چونکہ آپ انہیں اتنی بار دہرا چکے ہیں کہ یہ رنگ مضبوط ہو چکے ہیں۔ اس میں سے کونسا حصہ خود آپ کے ذہن کا تخلیق کردہ ہے؟ نہیں، آپ یہ پہچاننے کی اہلیت نہیں رکھتے۔