باشعور امن کارکنان SAHR انتخابات میں کسی ملک کو بھی نظر انداز نہیں کریں گے۔
یادیں عاصمہ جہانگیر
اٹھویں قسط
یہ نومبر 2001 کی بات ہے کہ مجھے ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان نے دعوت نامہ بھیجا کہ دھلی میں ساوتھ ایشین ہیومن رائیٹس (SAHR) کی کانفرنس منعقد ہو رھی ہے، آپ اس میں شریک ہوں۔ بذریعہ دوستی بس دھلی جانے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس کا موضوع “Including the excluded” تھا، کانفرنس کا آغاز 12 نومبر 2001 کو ہوا۔
اس روزصبح سویرے آئی آے رحمان کو فلیٹیز ہوٹل میں بس سٹینڈ پر دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، ہمیں معلوم تھا کہ وہ بذریعہ جہاز دھلی جا رھے ہیں۔ انہوں نے کہا بھائی آپ کو رخصت کرنے آیا ہوں۔ بس میں محبوب خان اور سیسل چوھدری مرحوم بھی موجود تھے؛ سفر خوشگوار طے ہوا، راستہ میں ان ساتھیوں سے خوب بحث ہوئی۔
اس تنظیم SAHR کا آغاز جولائی 2000 میں بھارتی راجھستان میں نیمرانا فورٹ میں ساؤتھ ایشیا کی پانچ اھم شخصیات بنگلہ دیش کے ڈاکڑ کمال حسین، بھارتی سابق رزیر اعظم آئ کے گجرال، نیپال کے ڈاکٹر دیوندرا راج پانڈے، سری لنکا کی رادھیکا کماراسوامی اور عاصمہ جہانگیر نے کیا تھا۔ اب اس کی پہلی کانفرنس میں ہو رھی تھی۔
دھلی میں کانگرس کے روز عاصمہ جہانگیر سے ملاقات ہوئی، رجسٹریشن کے بعد مختلف سیشن شروع ہو گئے، انہوں نے کہا کہ ہر سیشن میں بھرپور حصہ لینا ہے۔
دو روز زبردست گزرے؛ معروف ریڈیکل معاشی سکالر امرتیا سن اس کانفرنس کے خصوصی سپیکر تھے۔
آخری روز SAHR کی ایگزیکٹو باڈی کے ممبران کے چناؤ کے لئےانتخابات تھے۔ انتخابات سے قبل یہ تفصیلی بحث ہوئی کہ انتخابات میں ایگزیکٹو ممبران کے چناؤ کا کیا طریقہ کار ہونا چاھئیے۔
ایک نقطہ نظر تھا کہ کہ ہر ملک سے ممبران کو یقینی بنانے کے لئے کوٹہ مقرر کر لیا جائے تا کہ انتخابات میں کسی بھی ملک کی کم نمائندگی نہ ہو؛ اس کانگرس میں ساؤتھ ایشیا کے تمام ملکوں سے مندوبین شریک تھے، کوئی تین سو کے لگ بھگ ایکٹیوسٹ شریک ہوں گے۔
عاصمہ جہانگیر کا موقف تھا کہ کوٹہ سسٹم نہیں ہونا چاہئے؛ یہاں باشعور امن کارکنان شریک ہیں۔ وہ کسی ملک کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ بس جو لسٹ میں سب سے زیادہ ووٹ لیں گے، وہ منتخب ہوں گے۔ شائید منتخب ہونے والے اراکین کی تعداد 20 کے لگ بھگ طے تھی۔ عاصمہ کا موقف تھا کہ جو حصہ لینا چاھتا ہے وہ اپنے کاغزات نامزدگی کسی بھی ملک سے شریک ڈیلیگیٹ سے تجویز اور تائید کے ساتھ جمع کرا دے، ملکوں کے کوٹے کی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
یہ بھے طے ہوا کہ انتخاب میں حصہ لینے والے پلینری سیشن کے سامنے اپنا مختصر تعارف بھی پیش کریں۔
عاصمہ جہانگیر کا موقف تسلیم کر لیا گیا۔ اگرچہ مجھے اس موقف پر ریزرویشنز تھیں اور میں نے کانگرس میں عاصمہ جی کے موقف کے برعکس اپنا موقف پیش بھی کیا۔ مجھے ڈر تھا کہ عاصمہ کے موقف تسلیم ہونے سے کوئی ملک مجلس عاملہ سے باھر رہ سکتا ہے۔
ہر ملک کے ڈیلیگیٹس نے الگ الگ اجلاسوں میں اپنے ملک کے امیدواروں پر اتفاق رائے قائم کیا ہوا تھا کہ یہ ساتھی ہمارے ملک کی جانب سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ عاصمہ جہانگیر پاکستان ہم سب کی متفقہ امیدوار تھیں دوسروں کے علاوہ؛
بالاکرشنا سری لنکا کا ایک معروف امن راھنما تھا۔ میرا وہ ایک عرصہ سے دوست تھا۔ ہم سویڈن میں اکٹھے ایک کانفرنس میں شریک ہو چکے تھے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کے ملک کے ڈیلیگیٹس نے اس کا نام اپنے ملک کے مشترکہ امیدواروں میں شامل نہیں کیا۔ یہ طبقاتی بنیادوں پر ھوا ہے۔ اس سے پوچھا کہ کیا تم انتخاب میں حصہ لینا چاھتے ہو؛ اس کا جواب ہاں میں تھا۔ تو میں نے کہا کہ میں تمہیں تجویز کرتا ہوں تائید کنندہ بھی ڈھونڈتے ہیں۔ وہ اس کا اپنا ایک دوست تھا۔ بالا کے کاغذات جمع کرا دئیے گئے۔
انتخاب کے روز میں صبح صبح اٹھا۔ ناشتے کے بعد ایک انٹرنیٹ کیفے گیا کمپوٹر لیا اور وھاں پر بالا کرشنا کے لئے میں نے ایک لیفلیٹ انگلش میں تیار کیا اور اس کو ووٹ دینے کی اپیل کی اپنے نام کے ساتھ؛ لیفلیٹ کی تین سو فوٹو کاپیاں تیار کرائیں۔ یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ میں ایسا کر رھا ہوں۔ میں نے اپنی گرہ سے کوئی پانچ سو انڈین روپے خرچ کر دئیے تھے۔
کانگرس ھال کے سامنے جب کھڑا ہو کر لیفلیٹ تقسیم کر رھا تھا تو عاصمہ جی نے کہا کہ کیا کر رھے ہو؟ “اپنے سری لنکن دوست کی کمپین کر رھا ہوں؛ اس کو آپ نے بھی ووٹ دینا ہے” میں نے جواب دیا۔ مسکرا کر کہنے لگیں “یہاں بھی سیاسی کام” لیکن یہ اچھا ہے کہ تم نے پہل کی کسی نے بھی لیفلیٹ تیار نہ کرایا تھا۔
انتخابی عمل زور و شور سے سروع ہوا۔ میں نے تمام پاکستانی ڈیلیگیٹس کو اپیل کی کہ ایک ووٹ بالا کو بھی دیں۔
جب نتائج آئے تو عاصمہ جہانگیر کا موقف حیران کن طور پر درست ثابت ہوا۔ ڈیلگیٹس نے تمام ساؤتھ ایشین ممالک سے تقریبا برابر بنیادوں پر مجلس عاملہ کے لئے ممبران کا انتخاب کیا تھا۔
سب سے زیادہ ووٹ بھارت کے سابق وزیراعظم آئ کے گجرال نے حاصل کئے تھے۔ دوسرے نمبر پر عاصمہ جہانگیر تھیں۔ تیسرے پر کلدیب نائر تھے اور چوتھے پر بالا کرشنا جو کہ سری لنکا کے ڈیلیگیٹس کی آفیشل لسٹ میں شامل بھی نہ تھا۔ یہ میری انتخابی مہم کا ایک نتیجہ تھا کہ بالا اپنے ملک کے امیدواروں میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر منتخب ہو گیا تھا۔ عاصمہ جی نے اس انتخاب کے بعد مجھے کہا کہ تمہارا دوست واقعی اس قابل تھا کہ وہ اتنے ووٹ لیتا، وہ ایک اچھا جدوجہد کرنے والا امن کارکن ہے۔ میں نے بھی اسے ووٹ دیا تھا۔
اسی وزٹ کے دوران اس وقت کے بھارتی صدر K. R. Narayanan نے ہمیں چائے پر صدارتی محل میں بھی بلایا۔ وھاں پہلی دفعہ کاجو برفی بھی چکھی، وہ ہر ایک سے ھاتھ ملاتے جا رھے تھے اور ہم چند ساتھی ان کے آنے تک کاجو برفی پر ھاتھ صاف کر رھے تھے۔ بس ان سے ھاتھ ملایا اور پھر اپنا کام جاری رکھا۔ عاصمہ جی نے ان کے ساتھ ساتھ تھیں۔ مسکرا کر ہر ایک کا نام بتا کر ایک دو تعارفی فقرے بھی کہ رھی تھیں۔ “یہ ہمارے انقلابی دوست ہیں”۔ انہوں نے میرے بارے کہا۔ بھارتی صدر مسکرائے اور آگے چل دئیے۔
یہ ایک یادگار وزٹ تھی، یہاں امن کی بات بھی ہوئی، انتخابی عمل میں جمھوری اقدار کا عملی مظاھرہ بھی۔ واپسی پر بس میں ایک دفعہ پھر محبوب خان اور سیسل چوھدری مرحوم کا ساتھ رھا؛
عاصمہ جہانگیر نے جس SAHR سے 2001 میں متعارف کرایا میں اس کا آج بھی ممبر ہوں، 2017 میں اس تنظیم کے آن لائن انتخابات تھے۔ عاصمہ جی سے اوکاڑہ ھائی سیکورٹی جیل میں ملٹری فارمز کے مزارع راھنما مہر عبدالستار سے ملاقات کے لئے جاتے وقت میں نے یہ کہا کہ SAHR کے انتخابات ہیں۔ اس کو مزید ایکٹو کرتے ہیں آپ اس کے انتخابات میں حصہ لیں، پہلے تو انہوں نے کہا کہ تم انتخاب میں حصہ لو، جب میں نے اصرار کیا کہ وہ حصہ لیں تو رضامند ہو گئیں۔
اس دفعہ عاصمہ جی کا نام میں نے نامزدگی فارم میں تجویز کیا اور راجہ سراب ایڈووکیٹ نے اس کی تائید کی۔ عاصمہ جہانگیر SAHR ایگزیکٹو کی پاکستان سے بلا مقابلہ ممبر منتخب ہو گئیں۔ ان کا نام دیکھ کر کسی اور نے یہاں سے کاغذات ہی جمع نہ کرائے۔ وہ بعد ازاں ایگزیکٹو کے اجلاس میں SAHR کی ترجمان منتخب ہوئیں۔ اور ہم سب سے مستقل رخصت ہوتے وقت وہ اس عہدہ پر براجمان تھیں۔ وہ ساؤتھ ایشین امن کی وکالت کا کوئی موقع ھاتھ سے جانے نہ دیتی تھیں اور دوسروں کو ساتھ جوڑے رکھتیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“