یاد ماضی ھے زندگی یارب۔۔۔مجھ سے مت چھین حافظہ میرا
یادش بخیر۔۔ ڈیرہ اسمعیل خان اپنے ھردلعزیز مولانا فضل الرحمن کا شھر ھے۔۔1960 میں ان کے والد مفتی محمود حیات تھے لیکن اس دور میں بھی یہ دور افتادہ شھر اتنا پسماندہ نھیں تھا جتنا میرا خیال تھا۔یھاں سے 35 میؒ دور ٹانک کا علاقہ تھا جو حالیہ طالبانی دور انتشار میں خبروں میں رھا۔ نیرو گیج یعنی چھوٹی ریلوے لاین ٹانک پر آکے(غالبا" مردان سے) ختم ھو جاتی تھی۔اس پر چلنے والی ٹریں شاید آپ کو کھلونا ٹرین لگتی کیونکہ اس کا انجن اور ڈبے سب بھت چھوٹے تھے اب اس کاوجود کھیں نہیں ۔تاھم ڈیرہ میں اس وقت بھی ایک ایرکنڈیشنڈ سینیما تھا۔
جھاں میں نے قیام کیا وھاں سے قلعہ تک ڈیوٹی پر جانے کے تین طریقے ھو سکتے تھے۔ گھوڑے والے ٹانگوں پر۔۔ اپنی دو ٹانگوں پر۔۔یا رکشا پر جس میں دو ھٹے کٹے حضرات۔۔بعض اوقات تین ٹینٹ پوش خواتین بیٹھتے تھے اور ایک سیاہ روفاقہ کش ھڈیوں کا ڈھانچا انھیں کھینچتا تھا ، بد قسمتی سے یھی ٹرانسپورٹ مجھے ملتی تھی اور میں ضمیر صاحب کی ملامت سنتے ھوۓ اس پر آتا جاتا بھی تھا ،اگست کی شدید گرمی میں درجہ حرارت 48 تک جاتا تھا تو پانی کی کمی سے یہ لو لگنے کا شکار بھی ھوتے تھے۔ان کی صحت کے خیال سے مقامی انتظامیہ نے دوپہر ایک سے تیں جب سورج آگ برساتا تھا ان پر پابندی لگایؑ مگر پیٹ کی آگ بجھانے کیلۓ یہ لوگ خفیہ راستوں سے نکلنے لگے جو پولیس سے بہر حال پوشیدہ نہ تھے وہ چالان بک دکھا کے ان کی سوفیصد حلال کی کمایؑ سے اپنا حرام کا حصہ وصول کر لیتے تھے۔عجیب بات یہ تھی کہ اکثریت اردو اسپیکنگ اور مہاجر تھے،،دروغ بر گردن راوی۔۔ پتہ چلا کہ بھارت سے آنے والی کسی اسپیشل ٹرین کو نا معلوم اسباب کی بنا پر ادھر موڑ دیا گیا تھا اور وہ مہاجر یھاں بس گۓ۔۔بہر حال اب نہ وہ رکشا ھیں نہ کویؑ مہاجر۔۔
پہلے دن دفتر میں چاۓ منگوایؑ تو کافی دیرانتظار کیا پھر وجہ پوچھی تو جواب ملا "کھیر گھنن گیا وا اے" عرض کی کہ بس چاۓ دے دو کھیر پھر کھاییں گے۔دوبارہ کافی انتظار کے بعد معلوم کیا توپھر وھی"کھیر گھنن گیا وا اے"۔۔یا خدا۔۔ یہ کیوں کھیر کھلانے پر بضد ھے۔۔کیا یھاں ھر شخص کھیر بناتا ھے اور زبردستی غریب الوطن مسافروں کو کھلاتا ھے ؟ میرے دوست نے سمجھایا کہ یھاں دودھ کو کھیر کھتے ھیں ورنہ فساد ھوتا اور اجنبی مارے جاتے تو فاتحہ کی کھیرواقعی کھایؑ جاتی
ایک صبح جنگل سے گزرتی پتلی سی سڑک پر دریا کی طرف واک کرنے گۓ تو سانپ واک پر نھیں نکلے تھے۔ندی کنارے سمندر جیسی وسعت کا نظارہ کرنے اور درجنوں کشتیوں کی روانی دیکھنے میں مگن تھے کہ پھلے سات فٹ لمبے پنڈلی جتنے موٹے سانپ نے قریب سے پھنکار کے مصطفےٰ قریشی اسٹایل میں کھا"نواں لگدا این سوھنیا" تو چیخ کر بیھوش ھونے اور مرحوم کھلانے کے بجاۓ میں سرپٹ بھاگا۔۔اب جودیکھا تو واپسی پر وھی سنسان راستہ ھرسایزاور ڈیزاین کے سانپوں سے اباد۔۔یا میرے مولا۔۔اعمال کی سزا تو پنڈی میں دینا بھی جایز ھوتا۔۔مارا دیار غیر میں مجھ کو وطن سے دور۔۔ قصہ مختصر۔۔ھم زندہ بچ کے لوٹ اۓ۔۔اس کو یون بھی کھا جاسکتا تھا کہ ھم بہادری اور بے خوفی سے مسکراتے ھوۓ سانپوں کی یلغار سے نکل آۓ۔۔حقیقت برعکس یہ ھوتی کہ ھمارا اوپر کا لباس موت کے پسینے سے نم تھا اور نیچے کا موت کی نمی سے (فرق زیر زبر کا) ۔ بعد میں میرے دوست نے انکشاف کیا کہ یہ بے ضرر سانپ امن پسند ھیں اور حملہ نہ کیا جاۓ تو کچھ نھیں کھتے
ٹیٹرا پیک کے دور کا پتا نھیں۔۔اس وقت دریا پار سے دودھ سپلایؑ کرنے کا طریقہ دنیا میں اتنا انوکھا تھا کہ دم بخود کر دیتا تھا۔گوالے دوسری کنارے سے جس مشک پر سوار ھوتے تھے اسے آدھا دودھ سے بھرکے اس کا منہ سختی سے بند کردیا جاتا تھا۔سوار اس پر بیٹھنے سے پھلے الف تا ی تمام کپڑے اتار کے لباس قدرت میں آجاتا تھا۔کپڑے وہ سر پرمظبوطی سے باندھتا تھا اور ۔۔کشتی خدا پہ چھوڑ دے لنگر کو توڑ دے۔۔کے مصداق اپنی کشتی پر سوار ھوتا تھا تو آدھا مشک کے ساتھ ڈوب جاتا تھا مگر سر پر غرور کو سطح آب سے بلند رکھتا تھا کہ کپڑے خشک رھیں اور وہ دوسرے کنارے پر اتر کے شہر جانے سے پھلے پھر پہن لے۔ اترنے کی جگہ معین تھی۔یہ گھبے جنگلوں کا ایک جھنڈ تھا مگر لنگر اٹھانے کی جگہ مقرر نہ تھی،روانگی کی جگہ وہ خود دریا کے بہاوکی رفتار دیکھ کے طے کرتے تھے۔وہ سیدھا تیرنے کی کوشش کرتے تھے پانی اپنی قوت سے ان کو بھاو کے ساتھ دھکیلتا تھا یوں وہ ترچھا جاتے تھے یعنی مسططیل کے وتر کی صورت اور صحیح جگہ کنارے پر اترنے کیلۓؑ ضروری تھا کہ وتر صحیح ھو،تجربے نے انھیں سکھادیا تھا کہ پانی کے بھاو کی رفتار کے مطابق اپنا سفر کہاں سے آغاز کریں
جب ھم اتنے دلیر ھوگۓ کہ اس راہ میں ملنے والے سانپوں سے ھیلو ھاۓ کرتے گزر جاییں (کھنے میں کیا حرج ھے) تو ایک دن شامت اعمال سے صبحدم اس جگہ جا پھنچے جو گوالوں کی بنرگاہ تھی۔مقامی لوگ جانتے تھے چنانچہ صبح ادھر آتے نہ تھے۔میں اور میرا دوست درختوں کے جھنڈ میں گۓؑ اور ابھی منظر میں گم تھے کہ کنارے پر دریا کے پانی سے ایک جل پری نکل آیؑ ۔ وہ گوالن تھی۔اب آپ سے کیا پردہ۔۔کسا ھوا جوان گندمی جسم قدرت کا شھکار تھا۔ایک ھاتھ سے اس نے دودھ کی مشک کو پانی سے نکالا۔تقریبا" دو سال کے بچے کو جو اس کی کمر پر سوار تھا ایک پتھر پر بٹھاکے انھی کپڑوں سے صاف کیا جو اس نے روایتے طریقے سے سر پر باندھ رکھے تھے ،پھر وھی کپڑے پہنے ایک کولھے پر مشک کو ٹکایا دوسرے پر بچے کو اور شھر جانے والے راستے پر ھو لی
آج بھی وہ منظر اپنی تمام جیتی جاگتی تفصیلات کے ساتھ میرے خیالوں میں زندہ ھے اور میں سوچتا ھوں کہ اسے ھماری موجودگی کا علم ھو جاتا یا اور کوٰی دیکھ لیتا کہ شھری بابو کھاں شست لگاۓ بیٹھے ھیں تو ۔۔نہ کھیں جنازہ اٹھتا نہ کھیں مزار ھوتا۔۔یہ سب وقت کی گم شدہ تصویریں ھیں۔۔ میں بعد میں بھی کٰؑیؑ بار ڈیرہ اسمعیل خان گیا جب وھاں پختہ پل بن چکا تھا اور سیلاب کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔پرانے اسٹیمر کی افادیت باقی نہ رھی تھی۔پھلے اس کو ساحل پر کھڑا کرکے اس میں ریسٹورنٹ بنا دیا گیا تھا، دوسری بار گیا تو وہ ساحل میں دھنسا ھوا زنگ خوردہ لوھے کا اسیب زدہ ڈھانچا تھا جو زبان حال سے کھتا تھا۔۔رھے نام اللہ کا۔۔
دیکھو مجھے جو دیدہؑ عبرت نگاہ ھو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ھے
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/964672510281434