یاد ماضی ھے زندگی یارب
چھین مت مجھ سے حافظہ میرا
کسی کرمفرما نے مجھے ڈیرہ اسمٰعیل خاں اور دریا خاں کو ملانے والے دریاۓ سندھ پر کشتیوں کے ہل کی تصویر ارسال کی ھے جس کا وجود 1980 تک تو ثابت ھوتا ھے ۔میں اس پر سے مزید 20 سال قبل 1960 میں گزرا تھا
بارشوں اور سیلاب کا موسم گذر جانے کے بعد ایسا ھی ایک پل میں نے دریاۓ کابل پر نوشھرہ میں بھی بنتا بگڑتا دیکھا تھا۔جب پاٹ کم ھو جاتا تھا تو کشتیوں کو ملا کے ایک قطار میں کھڑا کر دیتے تھے اور تختے جڑ کے پل کا فرش بناتے تھےپھر اس پر مخصوص گھاس کی موٹی تہہ بچھا دی جاتی تھی اور مونج کی مضبوط رسیوں سے باندھ کے اس پر سارا دن پانی ڈالتے رھتے تھے ۔اس کے اوپر سے موٹر سایکل کار کیا ھیوی ٹریفک گذر جاتی تھی ،اس سے پل ھلتا تھا لیکن نہ تختہ کویؑ ٹوٹ کے الگ ھوتا تھا نہ کوےؑ کشتی جگہ چھوڑتی تھی۔ماھر ڈرایؑیور جھکولے کھاتی مسافروں سے بھری بس کو بھی آہستہ اہستہ چلاتےپل پر سے گزار کے دریا پار پھنچا دیتے تھے۔دریا میں طغیانی سے پھلے جب پل توڑ دیا جاتا تھا تو دونو کناروں کا رابطہ بھی ٹوٹ جاتا تھا اور مسافر میلوں۔۔بؑض اوقات چالیس پچاس میل دور جاکے کسی پکے پل پر سے دریا عبور کرتے تھے اورپھر اتنا ھی فاصلہ طے کرکے سامنے نظر آنے والے کنارے تک پہنچتے تھے۔میرے علم میں پل ٹوٹنے کا یا بس کے دریا میں گرنے کا حادثہ کویؑ نھیں
اگست 1960 میں میرے ایک مرحوم اور عزیز از جان دوست کے ساتھ جن کے والد ملک باز گل خان مرحوم ڈیرہ اسمعیل خان میں محکمہؑ تعلیم میں تھے مجھے بطور سزا دو ماہ کیلۓ راولپنڈی سے ڈیرہ تعینات کیا گیا ۔حکم حاکم۔۔شدید ترین گرمی کے باوجود جانا پڑا۔پشاور سے چلنے والی ایک متواری نار کی طرح ٹھمک ٹھمک رات بھر چلنے والی ٹرین نے مجھے صبح " دریا خاں" کے ریلوے اسٹیشن پر اتار دیا اور تھکا ھارا ھانپتا دھواں اگلتا کالا انجن گرتی پڑت گاڑی کوزبردست کھیچتا سفر کی آخری منزل میانوالی لے گیا تو میں نے صبح 9 بجے سوا نیزے پر سورج کو آگ برساتا دیکھا اور پھر اس اتھاہ ساگر کو جو ۔۔ دروغ بر گردن راوی ۔ سندھ تھا جو سیلاب کے موسم مییں بپھرتا تھا تو اسکا پاٹ پھیل کردوسرے کنارے کو 14 میؒل پرے دھکیل دیتا تھا جھاں ڈیرہ اسمٰؑعیل خان کا شھر بستا تھا، ۔شھر
اس وقت میں نے صدق دل سے خدا کا شکر اداکیا کہ اسباب سفر میں صرف ایک کپڑوں کا سوٹ کیس ھے کیونکہ قلی کلچر سے نا آشنا مقامی مسافر بلا جھجک اپنا اپنا بوجھ خود اپنے اپنے گناھوں کی طرح خود ڈھو کے دریا کنارے کی جانب رواں تھے۔سوٹ کیس سرپر دھرنے سے جھلسانے والی دھوپ سے ضرور پناہ ملی مگر سر پر غرور جھک گیا اور نازک شہری بابو کی کمریا لچکنے لگی۔ اپتلون کے دونوپاینچے چڑھاۓ ایک ھاتھ سے سر کا بوجھ تھامے اور دوسرے میں ٹرانسسٹر ریڈیو لٹکاۓ میں گھٹنے گھٹنے پانی سے گزرا افسوس کہ سیلفی کا تصورنہ تھا ورنہ میری تصویر عبرت آپ کو بھی اشکبار کرتی۔ لمبی لمبی دریایؑ گھاس میری پنڈلیوں پر خراشیں ڈال رھی تھی اور تہہ کیے کنکر تلووں میں چبھ رھے تھے،50 گز بعد ایک سیہ تن لنگوٹی پوش مانجھی نے مجھے کشتی میں گھسیٹا تو میں اس کے قدموں میں جاگرا
اب آگ میں مغز فرایؑ کرتے سورج کے نیچے حبس بھرے مٹیالے پانی پر20 کی جگہ 50 کشتی سواروں کے سفر کا دوسرا مرحلہ شروع ھوا جو ایک گھنٹے سےکمکا تھا مگر ایک گھڑی کی آزمایش لگا،کشتی ایک چھوٹے بحری جھاز کے نیچے رکی جس پر مختلف کشتیاں صبح سے ھر قسم کے نسافر بشمول بھیڑ بکری گاۓ بھینس اونٹ گھوڑے انسانوں کے ساتھ اتار رھی تھیں جو یوں ساتھ جڑے ھوؑے تھے کہ محمود و ایاز کے ایک صف میں کھڑے ھونے کے دور کی یاد تازہ ھوتی تھی۔ ایک سرو قامت اونٹ کی چار ٹانگوں والی آغوش شفقت سے نکلا تو ایک دشت ظلمات میں دوڑنے والے گھوڑے نے مجھے سرعام چومنے کی شرم ناک کوشش کی۔اس سے بچننے لگا تو کسی ٹینٹ می گھستے گستے رہ گیا جس میں سے کویؑ نیک پروین اجنبی زبان میں کچھ کہ رہی تھی۔۔یہ میرے دوست نے واضح کیا کہ جو پھول اس کی زبان سے جھڑ رھے تھے کیا تھے۔ناقبل اشاعؑت الفاظ نہ سمجھے جاتے تو اپ لے بھی گوش گزار کرتا
کا بھری دوپھر کا یہ جھلساکے فرنگی کو حبشی کرنے والا بحر ظلمات کا سفر3 گھنٹے بعد تمام ھوا تو ابتدا کا سفر الٹا شروع ھوا۔ھم پھر ایک کشتی میں پھینک دۓ گےؑ،پیاس سے زبان کتے کی طرح نکل کے باھع آنے کو تھی مگر ھرطرف پانی ھونے کے باوجود پینے کوآنسو تھے یا شراب غم تھی ۔دیگر ھم سفر ارد گرد بہتے چاۓ جیسے پانی کو پی رھے تھے اور خوش و خرم بھی تھے۔کسی سے پانی مانگا تو اس نے شھری بابو کو پیتل کی چمکتی بھت بڑی گڑوی کی طرف اشارہ کر کے کھا "کھیر پی گھنو"۔۔عقل ماوؑف کہ کھیریھاں کھایؑ نھیں پی جاتی ھوگی ۔ھمیں کیا اگر یہ روٹی پیتے ھوں۔لیکن مشورہ کس قدر احمقانہ ھئ کہ پیاس لگی ھے تو کھیر لےلو۔یہ اپنی دکانداری چمکا رھا ھے کھیر فروش کی اولاد۔۔ کچھ عرصہ وھاں رھے تو پتا چلا کہ وہ دودھ کو کھیر کھتے ھیں
آخری مرحلے میں پھر کشتی کا سفر شام 5 بجے شروع ھوا یھاں دریاےؑ گھاس نھت زیادہ تھی۔کشتی بار بار کھیں پھنس جاتی تھی تو ملاح لمبے لمبے بانس تہہ میں گاڑ کے دوسرا نوکیلا سرا ننگے سیاہ شانے سے لگاتے تھے اور زور لگا کے نکال لیتے تھے۔6 بجے میں پھر ابتدا کی صورت اپنا بوجھ خود اٹھاۓ گھٹنے گھٹنے پانی میں تھا لیکن قریب مرگ تھا۔پانی میں ڈوب کے مرنے سے بھتر جانا کہ کنارے پر مزار ھو۔ ۔۔ ھوۓ کیوں نہ غرق دریا والے شعر کی عبرتناک تفسیر نہ بنوں۔۔ اس آگ کے دریا سے گزر کے دو ماہ کنارے کے شھر ڈیرہ اسمعیل خاں میں گزارنے کی تفسیر زیادہ خوں چکاں ھے مگر وہ کل
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/963540590394626