::: یاد آتی ہیں پرانی تحریریں : { یاد نگار اور مترجم: احمد سہیل}
روزنامہ " مساوات" کراچی ،لاھور اور فیصل آباد کی پانچ ستمبر ۱۹۷۷ کی اشاعت میں امریکی کہانی کار اور شاعر ایڈگر این پو کی ایک کہانی کا ترجمہ " آخری کہانی" کے نام سے کیا تھا۔ اس کہانی کو ترجمہ کرنے کے بعد ڈرتے ڈرتے شوکت صدیقی اور شہزاد منظر مرحومین کو دکھایا تھا۔ کیونکہ یہ میرا ایک بڑے ادیب کی کہانی کا ترجمہ تھا۔ دونوں کو یہ ترجمہ پسند آیا۔ اور یہ دو دن بعد اخبار میں شائع بھی ہوگیا۔ حالانکہ اس سے پہلے یہ ناچہز بچوں کی کئی کہانیوں کو ترجمہ کرچکا تھا۔ ابن انشا نے بھی اس کہانی کو پسند کیا تھا۔ کئی سال قبل ابن انشا نے ایدگر ایلن پو کی ایک کہانی " کالی بلی" کا خوب صورت ترجمہ کیا تھا
ایڈگرایلن پو کی پیدائش 19 جنوری 18099ء کو بوسٹن, میساچوسٹس، ریاستہائے متحدہ امریکا میں اداکار خاندان میں ہوئی۔ 1826ء میں ورجینیا یونیورسٹی میں داخل ہوئے پر نکال دیے گئے۔ دو سال ریاستہائے متحدہ فوجی اکیڈمی میں بھی رہے۔ اس کے علاوہ امریکہ بری فوج میں خدمات بھی انجام دیں۔
پو ایک قابل شاعر اور ذہین نقاد تھے لیکن بین الاقوامی طور پر ان افسانوں کے ذریعے مشہور ہوئے جن کے موضوعات میں زبردست قوتِ تخلیق، انتہائی تخیلاتی طاقت اور تعمیری تکنیک میں حیرت انگیز کمال رکھتے تھے۔ پو عجیب الخلقت اور ڈراؤنے ادب کے استاد اور سائنسی کہانیوں کے بانی بھی تھے’ٹل ٹیل ہارٹ‘ کے عنوان سے اس نے ایک کہانی 1843 میں لکھی تھی جو ایک نیم دیوانے شخص کی خود کلامی پر مبنی ہے۔ یہ شخص بار بار خود کو اور اپنے مخاطب کو یقین دلاتا ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں لیکن ساتھ ساتھ وہ ایک قصّہ بھی بیان کرتا ہے کہ کیسے اس نے ایک آدمی کو رات کے اندھیرے میں موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ مقتول کی آنکھیں گِدھ جیسی گدلی اور پژمردہ تھیں اور وہ قاتل کو گھورتی رہتی تھیں۔۔۔ پھر ایک رات قاتل نے، جوکہ اس کہانی کا راوی بھی ہے، اس گدلی آنکھوں والے شخص کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اِس عمل کے بعد وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔۔ ایڈگر ایلن پو نفسیاتی تشکیک، تناو ، پرسراریت ، خوف و دہشت کا کہانی کار تھا۔ پو کو بلیان پالنے کا شوق تھا۔ لکھتے وقت اس کے ادر گرد بلیاں ہوتی تھیں اور اس کچھ اس کے کندھوں پر سوار رہتی تھیں۔
تصانیف
The Narrative of Arthur Gordon Pym of Nantucket
Eureka: A Prose Poem
Politian
A Dream Within a Dream
The Murders in the Rue Morgue
The Oval Portrait
********
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔