آج – 17/اکتوبر 1884
ممتاز قبل از جدید شاعر جنہوں نے نئی غزل کے لئے راہ ہموار کی۔ مرزا غالب کی مخالفت کے لئے مشہور اور معروف ممتاز شاعر” یاسؔ یگانہ چنگیزی صاحب “ کا یومِ ولادت…
مرزا یاسؔ یگانہ چنگیزی اپنے معاصرین میں اپنی شاعری کے نئے رنگوں اور دکھ درد کی بے شمار صورتوں میں لپٹی ہوئی زندگی کے سبب سب سے الگ نظر آتے ہیں ۔ یگانہ کا نام مرزا واجد حسین تھا پہلے یاسؔ تخلص کرتے تھے بعد میں یگانہؔ تخلص اختیار کیا ۔ ان کی پیدائش ۱۷ اکتوبر ۱۸۸۴ء کو محلہ مغلپورہ عظیم آباد میں ہوئی ۔ ۱۹۰۳ میں کلکتہ یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ تنگئ حالات کے سبب تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکے ۔ ۱۹۰۴ میں واجد علی شاہ کے نواسے شہزادہ میرزا محمد مقمیم بہادر کے انگریزی کے اتالیق مقرر ہوئے ۔ مگر یہاں کی آب وہوا یگانہ کو راس نہیں آئی اور وہ عظیم آباد لوٹ آئے ۔ عظیم آباد میں بھی ان کی بیماری کا سلسلہ جاری رہا اس لئے تبدیلی آب وہوا کیلئے ۱۹۰۵ میں انہوں نے لکھنؤ کا رخ کیا ۔ یہاں کی آب وہوا اور اس شہر کی رنگا رنگ دلچسپیوں نے یگانہ کو کچھ ایسا متأثر کیا کہ پھریہیں کے ہورہے ۔ یہیں شادی کی اور یہیں اپنی آخری سانسیں لیں ۔ تلاش معاش کیلئے لاہور اور حیدرآباد گئے بھی گئے لیکن لوٹ کر لکھنؤ ہی آئے ۔
یگانہ کی شاعری کی داستان لکھنؤ میں کی جانے والی ایک ایسی شاعری کی داستان ہے جو وہاں کی گھسی پٹی اور روایتی شاعری کو رد کرکے فکر وخیال اور زبان کے نئے ذا ئقوں کو قائم کرنے کی طرف مائل تھی ۔ لکھنو میں یگانہ کے معاصرین ایک خاص انداز اور ایک خاص روایت کی شاعری کی نقل اڑانے میں لگے ہوئے تھے ان کے یہاں نہ کوئی نیا خیال تھا اور نہ ہی زبان کا کوئی نیا ذائقہ وہ داغ و مصحفی کی بنائی ہوئی لکیروں پر چل رہے تھے ۔ لکھنو میں یگانہ کی آمد نے وہاں کے ادبی معاشرے میں ایک ہلچل سی پیدا کردی ۔ یہ ہلچل صرف شاعری کی سطح پر ہی نہیں تھی بلکہ یگانہ نے اس وقت میں رائج بہت سے ادبی تصورات ومزعومات پر بھی ضرب لگائی اور ساتھ ہی لکھنو کے اہل زبان ہونے کے روایتی تصور کو بھی رد کیا ۔ غالب کی شاعری پر یگا نہ کے سخت ترین اعتراضات بھی اس وقت کے ادبی ماحول میں حد سے بڑھی ہوئی غالب پرستی کا نتیجہ تھے ۔
یگانہ کی شاعری آپ پرھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ وہ زبان اور خیالات کی سطح پر شاعری کو کن نئے تجربوں سے گزار رہے تھے ۔ یگانہ نے بیسوی صدی کے تمام تر تہذیبی ،سماجی اور فرد کے اپنے داخلی مسائل کوجس انداز مین چھوا اور ایک بڑے سیاق میں جس طور پرغزل کا حصہ بنایا اس طرح ان کے عہد کے کسی اور شاعرکے یہاں نظر نہیں آتا ۔ یہی تجربات آگے چل کر جدید اردو غزل کا پیش خیمہ بنے ۔
یگانہ کی کتابیں :
شعری مجموعے : نشترِ یاس ، آیاتِ وجدانی ، ترانہ ، گنجینہ ۔
دیگر : چراغِ سخن ، غالب شکن
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر یاس یگانہؔ چنگیزی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
بتوں کو دیکھ کے سب نے خدا کو پہچانا
خدا کے گھر تو کوئی بندۂ خدا نہ گیا
—
دنیا سے یاسؔ جانے کو جی چاہتا نہیں
اللہ رے حسن گلشن ناپائیدار کا
—
حسن ذاتی بھی چھپائے سے کہیں چھپتا ہے
سات پردوں سے عیاں شاہد معنی ہوگا
—
کسی کے ہو رہو اچھی نہیں یہ آزادی
کسی کی زلف سے لازم ہے سلسلئہ دل کا
—
مجھے دل کی خطا پر یاسؔ شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
—
رنگ بدلا پھر ہوا کا مے کشوں کے دن پھرے
پھر چلی بادِ صبا پھر مے کدے کا در کھلا
—
واعظ کی آنکھیں کھل گئیں پیتے ہی ساقیا
یہ جام مے تھا یا کوئی دریائے نور تھا
—
وہی ساقی وہی ساغر وہی شیشہ وہی بادہ
مگر لازم نہیں ہر ایک پر یکساں اثر ہونا
—
یاسؔ اس چرخِ زمانہ ساز کا کیا اعتبار
مہرباں ہے آج کل نا مہرباں ہو جائے گا
—
کعبہ نہیں کہ ساری خدائی کو دخل ہو
دل میں سوائے یار کسی کا گزر نہیں
—
موت مانگی تھی خدائی تو نہیں مانگی تھی
لے دعا کر چکے اب ترک دعا کرتے ہیں
—
یکساں کبھی کسی کی نہ گزری زمانے میں
یادش بخیر بیٹھے تھے کل آشیانے میں
—
اپنی ہستی خود ہم آغوش فنا ہو جائے گی
موج دریا آب ساحل آشنا ہو جائے گی
—
فکرِ انجام نہ آغاز کا کچھ ہوش رہا
چار دن تک تو جوانی کا عجب جوش رہا
—
وہ دن گئے کہ دل کو ہوس تھی گناہ کی
یادش بخیر ذکر اب اس کا نہ کیجیے
—
ترک مطلب سے ہے مطلب تو دعائیں کیسی
صبح تک کیوں دل بیمار جگاتا ہے مجھے
❂◆━━━━━▣✦▣━━━━━━◆❂
یاس یگانہؔ چنگیزی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ