(Last Updated On: )
یار کو چاہئے یاروں سے بنا کر رکھے
بھلے رسماُ ہی سہی ہاتھ ملا کر رکھے
آخری سانس تلک رہ میں مسافر تیری
میں نے یادوں کے سبھی شہر بسا کر رکھے
میں نے خوابوں کے دھنک رنگ تجھے دان کئے
میں نے سوچوں کے گلستان سجا کر رکھے
بستیاں ڈوب گئیں رات کی دیواروں میں
کچھ دئیے رہ گئے طاقوں میں جلا کر رکھے
جنگ سے، بھوک سے، نفرت سے الجھتے ہوئے غم
کتنے غم ہم نے ترے غم سے ملا کر رکھے
کسی تحریر کا جادو، کسی آواز کا سحر
ایک دو بت ہی تو ہیں ہم نے خدا کر رکھے
کرچیوں پر وہ چلا آتا ہے ننگے پائوں
جس نے ہر دور میں آئینے سجا کر رکھے