یادوں کی پٹاری- 9
میں تو اب بُری طرح پھنس چکا تھا، نہ چاھتے ھوئے بھی اسکول جارھا تھا اور وھاں کے شیطان بچوں سے واسطہ، کلاس میں بیٹھتے ھی ایک ھنگامہ شروع ھوجاتا، کلاس ٹیچر کی تو کیا کہیئے، انھیں کوئی فکر نھیں تھی، آتے ھی حاضری لی، پھر کہا کہ فلاں صفحہ کھولو اور زبانی یاد کرو، بس یہ کہہ کر باھر نکل جاتے اور دوسرے پیریڈ میں واپس آتے، اُس وقت تک کلاس کا حال بےحال ھوجاتا، آتے ھی چھڑی سے سب کو ڈانٹا اور ایک دو کو سزا بھی ملتی، کسی کو مرغا بنا دیتے اور کسی کو چھڑی سے ھی دو چار لگادیتے اور ھر دفعہ میں ھی پھنس جاتا، کیونکہ اس پانچویں کلاس کے تمام بچے صحیح منجھے ھوئے فنکار تھے، شرارت کوئی اور کرتا اور ھمیشہ مجھے ھی پھنسا دیتے اور سارے ملے ھوئے تھے کیونکہ سب مل کر میری طرف اشارہ کرکے گواھی بھی دیتے، ماسٹرصاحب کو میں کیا یقین دلاتا، ان کا شکار میں بن ھی جاتا اور تمام کلاس مجھ پر ھنس رھی ھوتی-
اگر ایک ایک ان کی حرکتیں لکھنے بیٹھوں تو سب کچھ ان سب کی شرارتوں کے ھی نطر ھوجائے، گھروں سے وہ لوگ ربڑ بینڈ اور چھوٹے چھوٹے پتھر اپنے اپنے بستوں میں بھر کر لاتے تھے اور پھر کلاس روم میں ھی دوسروں کو غلیل کی طرح نشانہ لگا کر خوب وار کرتے، اور زیادہ تر میں ھی نشانہ بنتا بھی اور سزا کیلئے بھی ان ھی لڑکوں کی شکایتوں اور گواھی پر مجھے ھی کھڑا ھونا پڑتا، اکثر لڑکے تو ایک دوسروں کی کاپیاں اور کتابیں بھی چھپا دیتے، میرے ساتھ تو کچھ زیادہ
ھی ھوتا تھا اور ایک دن تو ان لڑکوں نے مل کر حد ھی کردی، کہ کلاس تیچر نے مجھے کلاس سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ اپنے والد کو یہاں لے کر آو تو کلاس میں داخل ھونا ورنہ نہیں !!!!!!!!
کہاں لا بٹھایا مجھے یہاں، گھورتے لڑکے شکاری جیسے
کیسی جماعت ھے یہاں، چھیڑتے بچے مکاری جیسے
ھمارے لئےفرشی پیوند دری، اُنھیں عرشی میزکرسی
لگے شاھی دربار کا میلہ، اوپر شاہ نیچے درباری جیسے
ڈنڈا ھاتھوں میں وہ گھماتے، غصٌہ غضب کا وہ دکھاتے
دیکھو لگے وہ دور سے جٌلاد، تلوار لئے دو دھاری جیسے
میری حالت تو خراب ھوگئی، کلاس سے نکل کر ایک قریبی پارک میں بیٹھ کر سوچتا رھا اور روتا رھا، سمجھ میں نہیں آرھا تھا کہ گھر جاکر اباجی سے کیا کہوں، ان سے مجھے بہت ڈر لگتا تھا.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔