یادوں کی پٹاری- 8
میں جب بھی اس اپنے پرانے محلے کی طرف جاتا ھوں، تو میں اپنے آپ کو چاروں طرف وھی خوشبو سے بھری ھوئی یادوں میں گھرا ھوا پاتا ھوں – یہاں میں نے تقریباً اپنی زندگی کے خوبصورت اور حسین یادوں کے ساتھ دس سال گزارے ھیں، مجھے اس علاقہ کو والدین کی خواھش کی مطابق 18 سال کی عمر میں چھوڑنا پڑا، لیکن میں اب تک ذہنی طور پر وہیں ھوں –
کاش کہ وہ وقت دوبارہ واپس آجائے کاش !!!!!!!!!!!!!
نئی جگہ نئے محلہ میں آئے ھوئے بھی ایک ھفتہ گزر چکا تھا، لیکن تمام کوششوں کے باوجود دل لگنا مشکل نطر آرھا تھا، پنڈی میں پانچویں جماعت کی پڑھائی ادھوری چھوڑکر آنا پڑا تھا، اس لئے والد صاحب میرے داخلے کیلئے بہت پریشان لگتے تھے، روز وہ دفتر سے چھٹی لے کر آتے، جب تک میں والدہ مجھے تیار کراتیں اور پھر والد صاحب کے ساتھ انکے پیچھے پیچھے کچھ کتابوں اور کاپیوں سے بھرا بستہ گلے میں لٹکائے، چل کیا دیتا بلکہ بھاگنا پڑتا، کیونکہ ان کی رفتار بہت تیز تھی، شاید انہیں واپس دفتر بھی جانا ھوتا تھا،
راستے میں محلٌے کے بچے بھی مجھے دیکھ کر مسکراتے، اور مجھے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش بھی کرتے تاکہ میں بھی انکی “بچہ کمیٹی“ کا ممبر بن جاؤں مگر والد نے تو بہت سختی سے پابندی لگائی تھی کہ خبردار اگر ان بچوں کے ساتھ اگر میں کھیلا تو میری ٹانگیں توٹنے کا اندیشہ تھا انکے غصہ سے ویسے بھی بہت ڈر بھی لگتا تھا، لیکن آھستہ آھستہ ان بچوں کی حرکتیں بھی مجھے اچھی لگنے لگی تھی اور باوجود والدہ کے منع کرنے پر روزانہ کسی نہ کسی بہانے خاموشی سے کھسک لیتا تھا اور انکے ساتھ اس زمانےکےکھیل کھیلتا رھتا کبھی گلی ڈنڈا کبھی کنچہ کی گولیاں، پٹھو گرم، اور کبھی پتنگ بازی وغیرہ وغیرہ اور جیسے ھی اباجی کو دفتر سے واپس آتا دیکھتا ایسی دوڑ لگاتا کہ شاید اگر اسی طرح کسی ریس میں حصہ لوں تو اوٌل پوزیشن پر رھوں،
گھر پہنچتے ھی ھاتھ پیر دھوئے اور فوراً کوئی بھی کتاب اٹھا کر اس طرح پڑھنے لگتا جیسے میں ھی دنیا کا سب سے بڑا پڑھاکو ھوں ، اباجی جیسے ھی گھر پہنچتے اور مجھے پیار سے دیکھتے ھوئے والدہ سے کہتے دیکھا مین نہ کہتا تھا کہ ھمارا یہ بچہ ھمارا نام ضرور روشن کریگا، والدہ معنی خیز نگاھوں سے مجھے دیکھتیں اور مسکرا کر والد صاحب کی ھاں میں ھاں ملاتیں، جبکہ انہیں پتہ تھا کہ میں ابھی ابھی باھر سے بھاگ کر آیا ھوں،
میری والدہ میری ھر شرارتوں کو اباجی سے ھمیشہ چھپا کر مجھے پٹنے سے بچا لیتی تھیں اور ھر دفعہ خبردار بھی کرتی تھیں کہ اگر آیندہ تم نے کوئی شرارت کی یا دوبارہ گندے بچوں کے ساتھ کھیلے تو ابا جی سے شکایت لگادوں گی، لیکن میں انکی تمام نصیحتوں کو رد کردیتا کیونکہ مجھے والدہ کی عادت معلوم تھی کہ وہ مجھے ھمیشہ میری تمام حرکتوں کو اباجی سے پوشیدہ رکھتی تھیں-
والدصاحب چاھتے تھے کہ کہیں نزدیک اسکول میں میرا داخلہ ھو جائے، لیکن مشکل یہ تھی کہ ھر اسکول میں تقریباً داخلے بند ھو چکے تھے اور وہ مجھے دور بھیجنا نہیں چاھتے، اسی چکر میں ایک مہینہ گزرچکا تھا اور میرا دل بھی پڑھائی سے آھستہ آھستہ اُچاٹ ھوتا جارھا تھا، کیونکہ اب ایک مہینے کے اندر ھی باھر بچوں کے ساتھ کھیلنے میں زیادہ دلچسپی لینے لگا تھا، دل میں اب یہی خواھش جنم لے رھی تھی کہ داخلہ نہ ھو تو بہتر ھے –
آخر بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی ایک دن چھری کے نیچے آنا ھی تھا، اور مجھے ایک گورنمنٹ پرائمری اسکول میں داخلہ مل ھی گیا،
اور کھیلنے کودنے کے میرے تمام خواب چکنا چور ھوکر رہ گئے، مجھے دکھ تو بہت ھوا، لیکن مرتا نہ کیا کرتا اسکول میں جانا شروع کردیا لیکن بالکل بے دلی کے ساتھ، وھاں اسکول میں ایک الگ ھی بھیڑچال دیکھنے کو ملی، کوئی بھی ڈھنگ کا بچہ نظر نہیں آیا، اور اس پر سارے استاد بھی سونے پر سھاگہ تھے اور اسکول کی تو نہ ھی پوچھیں کوئی کل بھی سیدھی نہیں تھی، ٹوتی پھوٹی دیواریں اور جھولتی کھڑکیاں، میز کرسیاں بالکل غائب، کلاسوں میں پھٹی ھوئی دریاں بے ترتیبی سے بچھی ھوئی، باھر کا مین گیٹ سرے سے ھی ندارد، اور کیا کیا تعریف کروں، قسمت میں جو لکھا تھا بھگتنے کو تیار، روز اسکول جانے لگے
میں تو اب بُری طرح پھنس چکا تھا، نہ چاھتے ھوئے بھی اسکول جارھا تھا اور وھاں کے شیطان بچوں سے واسطہ، کلاس میں بیٹھتے ھی ایک ھنگامہ شروع ھوجاتا، کلاس تیچر کی تو کیا کہیئے، انھیں کوئی فکر نہیں تھی، آتے ھی حاضری لی، پھر کہا کہ فلاں صفحہ کھولو اور زبانی یاد کرو، بس یہ کہہ کر باھر نکل جاتے اور دوسرے پیریڈ میں واپس آتے، اُس وقت تک کلاس کا حال بےحال ھوجاتا، آتے ھی چھڑی سے سب کو ڈانٹا اور ایک دو کو سزا بھی ملتی، کسی کو مرغا بنا دیتے اور کسی کو چھڑی سے ھی دو چار لگادیتے اور ھر دفعہ میں ھی پھنس جاتا، کیونکہ اس پانچویں کلاس کے تمام بچے صحیح منجھے ھوئے فنکار تھے، شرارت کوئی اور کرتا اور ھمیشہ مجھے ھی پھنسا دیتے اور سارے ملے ھوئے تھے کیونکہ سب مل کر میری طرف اشارہ کرکے گواھی بھی دیتے، ماسٹرصاحب کو میں کیا یقیں دلاتا، ان کا شکار میں بن ھی جاتا اور تمام کلاس مجھ پر ھنس رھی ھوتی-
اگر ایک ایک ان کی حرکتیں لکھنے بیٹھوں تو سب کچھ ان سب کی شرارتوں کے ھی نظر ھوجائے، گھروں سے وہ لوگ ربڑ بینڈ اور چھوٹے چھوٹے پتھر اپنے اپنے بستوں میں بھر کر لاتے تھے اور پھر کلاس روم میں ھی دوسروں کو غلیل کی طرح نشانہ لگا کر خوب وار کرتے، اور زیادہ تر میں ھی نشانہ بنتا بھی اور سزا کیلئے بھی ان ھی لڑکوں کی مجھے کھڑا ھونا پڑتا
****
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔